حسنین جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خرگوش نے اپنے بچے کا نام بنارس میاں رکھا تھا۔ ہم نام رکھتے ہیں تو جانور کیوں نہیں رکھ سکتے؟
یہ واقعہ آگے بڑھایا جائے تو آف کورس کہانی بن جائے گا، اگر ادھری روک دیں تو دوسرے جانداروں سے انسانوں کے بنیادی فرق پہ ہم بات کر سکتے ہیں۔
نام واحد چیز ہے جو پوری کائنات کے جانداروں میں صرف انسان استعمال کرتے ہیں۔ ایک ’اشرف المخلوقات‘ کو اس کا نام باقی دوسروں سے الگ پہچان دلاتا ہے۔
جب ہم بچوں کے نام رکھتے ہیں تو ان میں ہماری پوری تہذیب، رہن سہن اور عقیدے اُبل اُبل کے باہر آ رہے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہفتے کا بچہ صرف نام کی وجہ سے جید بزرگ محسوس ہوتا ہے اور ستر سال کے چاچا کل کے بچے لگتے ہیں۔
نام پیدا ہوتے ہی قسمت کے جبر کی پہلی نشانی ہوتا ہے، آگے جا کے بھی جیسے ہر کام اپنی مرضی سے نہیں ہوتا، تو اس سفر کا پہلا یادگار پڑاؤ آپ اپنا نام سمجھیں۔ پنجابی تھیٹر کے مطابق ریڑھی سے امرود خریدنے والے کا مقدر ہوتا ہے، کسی کا ٹھیک نکل آتا ہے، کسی کو کیڑے والا مل جاتا ہے، یہی چکر نام کا ہے بلکہ نِک نیم اور ذات کا بھی ہے۔
بچہ خود تو نام رکھ نہیں سکتا، ماں باپ یا دادا دادی اس کا نام رکھتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ جو چیز انہیں سب سے زیادہ پسند ہے اس کا عکس بچے کے نام میں ضرور دکھائی دے۔
بہت سے لوگوں کو اپنا نام پسند نہیں ہوتا، کچھ نک نیم سے تنگ ہوتے ہیں، بعض نام کے ساتھ اوکے ہوتے ہیں لیکن وہی نام بڑا ہونے پر انہیں کئی طرح کی مشکلات میں ڈال دیتا ہے۔
جیسے نائن الیون کا واقعہ ہوا تو کچھ مخصوص ناموں والے بندے پریشانی میں پڑ گئے۔ اسی طرح جب دہشت گردی زیادہ ہو، تب بھی صرف نام چیک کیے جاتے ہیں شناختی کارڈ پہ۔ کسی مخصوص فرقے سے تعلق کا سراغ بھی اکثر ناموں سے ملتا ہے، کسی ملک میں کوئی اقلیت کا بندہ ہو، وہ بھی نام سے پہچانا جاتا ہے اور عین اسی طرح آپ کاروباری یا دفتری تعلق میں ہوں تب بھی سامنے والا سب سے پہلے آپ کے نام سے فال نکالتا ہے۔
کیا یہ ضروری ہے کہ جو آپ اچھا سمجھتے ہیں اس کا اشتہار آپ کی اولاد اپنے نام سے چلا رہی ہو؟ بڑا ہو کے، اگر وہ بچہ صرف اپنے نام ہی وجہ سے کسی مصیبت میں پڑ جائے تو اس کا حل کس کے پاس ہے؟
وہ نام رکھنا بہتر ہو گا جسے بڑا ہونے کے بعد بچہ اپنی مخصوص شناخت کے خوف سے چھپائے نہ، آرام سے بتا سکے۔
اکثر بس یا ٹرین میں کوئی بزرگ ملتے ہیں تو ’جناب دا اسم گرامی‘ کہہ کر تعارف لیا جاتا ہے۔ جب ’حسنین جمال‘ کہتا ہوں تو پوچھتے ہیں ’پچھوں کون ہوندے او؟‘ یہ سارا چکر ہے۔
نام، ذات یا علاقہ اگر پوسٹر کی طرح چپکا رہے تو بچے کی شخصیت یقینی طور پہ متاثر ہوتی ہے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ یا اپنے نام سے متعلق تمام خصوصیات خود میں بھر لے اور یا پھر نام بدل لے۔ نام بدلنا آسان نہیں ہوتا اس لیے آپ کو بہت سے لوگ بی ایم ہاشمی یا اے ڈی گجر بنے ہوئے بھی ملتے ہیں۔
دنیا بھر میں اب جو حالات ہو چکے ہیں ان میں بہتر یہی ہے کہ اپنے بچوں کے نام ہلکے پھکے اور کسی خاص طرف اشارہ کرتے ہوئے نہ رکھے جائیں۔ خاص طور پہ وہ لوگ جو کسی بھی طرح علاقے یا عقیدے کی وجہ سے زد پہ ہوں، کم از کم نام میں دھیان کر سکتے ہیں۔
ہم شاید اس پہلو پہ سب سے کم سوچتے ہیں۔ عام بندے توچھوڑیں پڑھے لکھے لوگ بھی گوڈوں گٹوں تک اس چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کوئی قافیہ ملانے کے لیے ساری اولادوں کے نام ایک جیسی آوازوں والے رکھ دے گا، بعضوں کے گھر تاریخی بادشاہوں سے بھرے ہوں گے، کچھ نام ناولوں، فلموں اور ڈراموں سے نکالے جائیں گے اور چند ایسے بھی ہیں جو اکثریت میں ہو کے اپنے بچے کا نام اقلیتی قسم کا رکھیں گے۔
سوال یہ ہے کہ وہ بچہ جو آپ کے یہاں پیدا ہو گیا، کیا ضروری ہے کہ وہ بڑا ہو کر آپ کا شجرہ، تعلیم یا شوق سنبھالنے میں سنجیدہ ہو؟
میں جب پڑھایا کرتا تھا تو سکول میں ایک بچی کا نام ٹریسا تھا۔ ماں باپ مدر ٹریسا سے بہت متاثر تھے، انہوں نے بیٹی کا نام ٹریسا رکھ دیا۔ آپ کو اندازہ ہے کہ بچے اُس لڑکی کو نام کے حوالے سے کتنا تنگ کرتے تھے؟ حالانکہ ابا اماں کے نام ویسے تھے جیسے ہمارے آپ کے ہیں، عقائد بھی وہی تھے۔ تو نام ایسا کیوں رکھا؟ الگ نظر آنے کے لیے، مذہبی ہم آہنگی کا درس دینے کے لیے یا اپنی تعلیم اور روشن خیالی ثابت کرنے کے لیے؟ یہاں تو جو بے چارے جینوئنلی اقلیت میں ہیں وہ اپنے ناموں کو ہم جیسا کر رہے ہیں اور آپ بچوں کے لیے نیا سیاپا پیدا کرتے ہیں؟
مختصر ترین بات ہے کہ یار بچوں کے نام نیوٹرل سے رکھ لیں گے تو شاید ہماری اگلی نسلیں ان سوچوں سے نکل آئیں جن میں ہم لوگ پھنس کے رہ گئے ہیں۔
کبیر، نعمان، داؤد، مہوش، خاور، ذیشان، احمد، عظمیٰ، سبیکا، یہ سب نام سادے سے ہیں، کوئی آئیڈیا نہیں ہوتا بچہ کس گھر کا ہے۔
اب ان کی جگہ اپنی پسند کے نام آپ خود یاد کر لیں اور حساب لگائیں کہ بچے کو اپنی مرضی سے اگر کوئی شناخت ہم دیں گے تو کیا یہ اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی بات نہیں ہے؟ اپنی زندگیاں تو ہم گزار چکے، آنے والا وقت ان کے لیے ہم کیوں مشکل بناتے ہیں؟ پیدا ہونے کے ساتھ ہی ایک چیلنج دینے والی بات نہیں ہو گی کہ جا بچے، اس شناخت کے ساتھ زندگی گزار؟
پہلے میں ایسا نہیں سوچتا تھا، کچھ نام خود میں نے بھی رکھے، پُلوں کے نیچے سے پانی لیکن گزرا نہیں، سوچا، اگر اپنا دماغ بدلا ہے تو آپ کو وقتی بتا دیا جائے۔ آگے پھر یا قسمت یا نصیب!
یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈینٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر