نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فون ”کھڑکنے“ کا مرہون منت موجودہ بندوبست|| نصرت جاوید

منی بجٹ کی یقینی نظر آتی منظوری کے بعد ہمارے ہاں مہنگائی کی نئی اور شدید ترلہر یقیناً حملہ آور ہوگی۔ یہ لہرمگر ڈیرے اور دھڑوں والی سیاسی اشرافیہ کو پریشان نہیں کرتی خواہ اس کا تعلق اپوزیشن سے ہو یا حکومت سے۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کئی بار اس کالم میں یہ عرض کرنے کی جسارت کی ہے کہ عمران حکومت نامی شے کسی ایک فرد یا ان کی بنائی جماعت ہی سے وابستہ نہیں۔ بہت سوچ بچار کے بعد تیار ہوا ریاستی اور حکومتی بندوبست ہے۔ ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے باہمی اشتراک سے بنائے اس بندوبست کو برقرار رکھنے والی قوتیں اسے ناکام بنانے کے خواہاں افراد سے کہیں زیادہ طاقت ور ہیں۔ اسی تنخواہ پر گزارہ کرنے کو مجبور۔ جی کے بہلانے کو اگرچہ ہمیں روایتی اور سوشل میڈیا میں صبح گیا یا شام گیا والا ماحول بنتا نظر آتاہے جو دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔

ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے باہمی اشتراک سے تیار ہوئے بندوبست کی بقاء کے اسباب کا تھوڑا ادراک رکھتے ہوئے عرصہ ہوا میں نے پی ڈی ایم کے نام سے قائم ہوئے اپوزیشن جما عتوں کے اتحاد کا ذکر بھی اس کالم میں ترک کر رکھا ہے۔ مذکورہ اتحاد گزشتہ برس کے ستمبر میں پیپلز پارٹی کی دعوت پر تشکیل دیا گیا تھا۔ فیصلہ ہوا کہ عوامی تحریک کے ذریعے عمران حکومت کو گھرجانے پر مجبور کر دیا جائے گا۔ اس ضمن میں لوگوں کو متحرک کرنے کے لئے گوجرانوالہ میں جلسہ ہوا تولندن میں مقیم نواز شریف نے ویڈیو لنک سے خطاب کرتے ہوئے عام پاکستانیوں سے زیادہ اس جلسے میں موجود سیاسی قائدین کو پہلے چونکا یا اور بعد ازاں پریشان کر دیا۔

مذکورہ تقریر کے ذریعے موصوف نے جو بیانیہ مرتب کیا اس کا بوجھ اٹھانے کو ان کے سگے بھائی شہباز شریف سمیت نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے کئی سرکردہ رہ نما بھی آمادہ نہ ہوئے۔ کئی نسلوں سے سرکار کی جی حضوری اور نام نہادآبائی حلقوں سے انتخاب ہارنے اور جیتنے کے عادی ڈیرے دار اور دھڑوں والوں نے مذکورہ بیانیے کو خودکش حملہ تصور کیا۔ اپنے قائد کے روبرو مذکورہ سوچ کو بیان کرنے کی جرات مگر دکھا نہیں پائے۔ ووٹ بینک کے خوف نے انہیں خاموشی برقرار رکھنے کو مجبوررکھا۔ چند ضمنی انتخابات کی گہماگہمی نے ان کی خاموشی کا جواز بھی فراہم کر دیا۔ بعد ازاں مگر آزاد کشمیر میں عام انتخاب ہوئے۔ ان کے نتائج ویسے ہی برآمد ہوئے جو ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے باہمی اشتراک سے تیار ہوئے بندوبست نے سوچ رکھے تھے۔ ان نتائج نے ڈیروں اور دھڑوں والے مسلم لیگی الیکٹ ایبلز کے دلوں میں موجود سوچ کو تقویت پہنچائی۔ نیویں نیویں رہتے ہوئے اچھے وقت کا انتظار لازمی ہو گیا۔

پیپلز پارٹی شروع دن سے ایسے کسی مخمصے کا شکار نہیں تھی۔ 1985 ء کے بعد سے اس نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ سیاسی میدان مخالفین کے لئے کسی صورت کھلا نہیں رکھنا۔ نام نہاد سسٹم کا حصہ رہتے ہوئے ہی سیاسی گیم میں زندہ رہنا ہے۔ صوبہ سندھ میں وہ 2008 ء سے مسلسل برسراقتدار ہے۔ اسے قوی امید ہے کہ آئندہ انتخاب بھی اسے کم از کم اس صوبے کی حکمران جماعت کی حیثیت میں برقرار رکھیں گے۔ بقیہ ملک میں اپنی قوت بحال کرنے کے لئے اسے وقت درکار ہے۔ سسٹم کو وہ لہٰذا کسی ایڈونچر کے ذریعے زمین بوس کرنا نہیں چاہتی۔ گزشتہ برس کے دسمبر میں مسلم لیگ (نون) کا قلعہ تصور ہوتے لاہور میں پی ڈی ایم کا جو جلسہ ہوا تھا وہ پیپلز پارٹی کی توقعات کے مطابق پرجوش نہیں تھا۔ اسے پیغام بلکہ یہ ملا کہ مسلم لیگ نامی جماعت کے تلوں میں تیل موجود نہیں۔ پی ڈی ایم نے اگرچہ اسے ”غدار“ تصور کیا اور اپنی صفوں سے باہر نکال دیا۔

پیپلز پارٹی کو اپنی صفوں سے باہر نکالنے کے باوجود پی ڈی ایم مگر ابھی تک یہ طے نہیں کر پائی ہے کہ ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے باہمی اشتراک سے بنائے ریاستی اور حکومتی بندوبست سے چھٹکارا کیسے حاصل کرے۔ امید فقط یہ باندھی جاتی ہے کہ شاید کسی روز اس بندوبست کے شراکت داروں کے درمیان شدید بدگمانیوں کے بعد گہرے اختلافات نمودار ہوجائیں گے۔ امید مگر سیاسی عمل کی کسی صورت کلید نہیں ہوتی۔ سیاست دان بلکہ نا امیدی کے تاریک دنوں میں بھی صورت حال کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کی راہ ڈھونڈنے میں جتے رہتے ہیں اور ہمارے ہاں سیاست دان نامی لوگ باقی نہیں رہے اور یہ وطن عزیز کا حقیقی المیہ بھی ہے۔

بہرحال پی ڈی ایم نے اب اگلے برس موسم بہار کے آغاز کے ساتھ اسلام آباد میں مہنگائی کے خلاف 23 مارچ کے دن لانگ مارچ کی صورت پہنچنے کا اعلان کیا ہے۔ اس دن تک پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے اراکین پارلیمان قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں میں اپنی حاضریاں لگاتے رہیں گے۔ رواں سال کے خاتمے سے قبل عمران حکومت کو آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کے حصول کے لئے ساڑھے تین ارب روپے کے اضافی ٹیکس بھی لگانا ہیں۔ منی بجٹ نامی شے کے ذریعے ان اضافی ٹیکسوں کو قانونی بنایا جائے گا۔ ان کی منظوری روکنے کے لئے اپوزیشن بنچوں سے دھواں دھار تقاریر ہوں گی۔ بالآخر منی بجٹ تاہم بآسانی پاس ہو جائے گا۔

حال ہی میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے عمران حکومت نے ایک ہی دن میں 33 قوانین تاریخی عجلت میں منظور کروالئے ہیں۔ مذکورہ اجلاس سے قبل اگرچہ افواہوں کے سیلاب سے ہمیں یہ باور کروایاگیا تھا کہ ایک اہم ریاستی ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کے ضمن میں ہوئی تاخیر نے ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے باہمی اشتراک سے بنائے بندوبست میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ حکمران جماعت کے چند اتحادی نخرے دکھاتے ہوئے مذکورہ گماں کو تقویت پہنچاتے رہے۔ بالآخر مگر فون کھڑکے اور حکمران اتحاد میں شامل ہر جماعت کے اراکین پارلیمان 33 قوانین پر یکمشت انگوٹھا لگانے سرجھکائے ایوان میں داخل ہو گئے۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے اگر چند افراد دانستہ غیر حاضر رہتے تو ان کے خلاف فلورکراسنگ والی شقوں کا اطلاق بہت مشکل ہوتا۔ وہ اس کی وجہ سے پارلیمان کی رکنیت سے محروم نہ ہوتے۔

ضمنی بجٹ مگر پارلیمانی زبان میں مالیاتی بل پکارا جاتا ہے۔ اس کی منظوری کے عمل سے حکمران جماعت کے کسی رکن کی دانستہ غیر حاضری فی الفور فلورکراسنگ تصور ہوگی۔ جس بندوبست کا میں ذکر کر رہا ہوں اس کے طاقت ور ترین شراکت دار بھی ہرگز نہیں چاہیں گے کہ شوکت ترین کا تیار کردہ منی بجٹ قومی اسمبلی سے نامنظور ہو جائے۔ عالمی معیشت کے نگہبان اداروں کو ایسی نامنظوری پاکستان کی معاشی ساکھ کے حوالے سے منفی پیغام دے گی۔ فون لہٰذا کھڑکیں گے اور منی بجٹ منظور ہو جائے گا۔

منی بجٹ کی یقینی نظر آتی منظوری کے بعد ہمارے ہاں مہنگائی کی نئی اور شدید ترلہر یقیناً حملہ آور ہوگی۔ یہ لہرمگر ڈیرے اور دھڑوں والی سیاسی اشرافیہ کو پریشان نہیں کرتی خواہ اس کا تعلق اپوزیشن سے ہو یا حکومت سے۔ مہنگائی کی شدت میرے اور آپ جیسے محدود آمدنی والے تنخواہ داروں اور دیہاڑی داروں ہی کو حواس باختہ بناتی ہے اور ہمارے دکھوں کے ازالے کے لئے ”اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا“ والی نا امیدی چھائی ہوئی ہے۔

بشکریہ نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author