حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گورو نانک کہتے ہیں
”مجھ میں بھلا ایسی قوت کہاں ہے کہ تمہیں اپنے تدبر کے حصار میں لوں۔ میں تم پر ایک نہیں ہزار بار قربان جاؤں۔ جو تمہاری رضا میں ہے وہی افضل ہے”۔
یار کی رضا ہی تو سارا معاملہ ہے۔ راضی بہ رضا ہو جانا۔ طمع کے گھاٹ سے جو بچ رہے وہی راضی بہ رضا ہوئے۔
فرات کنارے اُترے محبوبان خدا کے قافلہ سالار امام حریت فکر امام حسینؑ یاد آئے۔ ارشاد ہوا
”ظلم کیخلاف جتنی دیر سے اُٹھوگے قربانی اتنی ہی زیادہ دینا پڑے گی”۔
برا ہو اس عہد نفساں کا جس میں ظالم اور مظلوم کے حوالے سے معیارات الگ الگ ہیں۔
سچل تو کہتے تھے
”مظلوم کی ہمنوائی واجب اول ہے۔ اس سے بڑھ کر واجب فقط یہ ہے کہ بھوکے کو کھانا کھلایا جائے”۔
نانک کی یادوں نے پھر سے دستک دی۔ کہتے ہیں
”موسم تو جوگیوں کو معلوم نہیں ہوتے”۔
سامی نے کہا تھا
”دل کے موسم جوگی نہیں جانتے”۔
ہم جہاں رہ رہے ہیں یوں کہہ لیجئے جس عہد میں جی رہے ہیں یہاں ایسے لوگوں کی بھرمار ہے جو غیبت کو رزق بنائے پیٹ بھرتے رہتے ہیں۔
جدامجد سرکار حضرت سید جلال الدین سرخ پوش نقوی البخاری رح فرماتے ہیں
”غیبت اور حسد ایسے مرض ہیں جو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں”
شاہ حسین رح کہتے ہیں
”عجز کا راستہ ہی سب سے اچھا” کون سمجھائے سرابوں کے پیچھے دوڑتے بھاگتے دنیاداروں کو ”
سچ تو یہ ہے کہ شمع کے پروانوں کی طرح جل جانے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔
زندگی کھیل تماشا نہیں’ حق بندگی ادا کرنے کا میدان ہے اس میں فاتح وہی رہتے ہیں جو گردن تلوار کے نیچے رکھنے کا حوصلہ کرسکتے ہوں۔
سلطان باہو کہتے تھے
”ایک دوست ہے اور اس کی وجہ سے لاکھوں ہمارے دشمن بن گئے ہیں۔ وہ کیا جانیں گے اس حقیقت کو کہ دوست کیلئے جینا اپنے لئے مرنے سے بہتر ہے”۔
باہو نے ایک اور جگہ یوں کہا
”بندے کی زندگی تو بس اتنی ہے جتنی دیر پانی میں بتاشہ رہتا ہے”
حسین بن منصور حلاج یاد آئے۔
”ہم تو دوست کیلئے جیتے تھے اب وہی واپسی پر بضد ہے تو انکار کیوں کریں”۔
مرشدی بلھے شاہ کہتے ہیں
”میں جب بھی ”ب” پر غور کرتا ہوں یا دوسروں کو سمجھنے کی کوشش تو مجھے الف کا ادراک ہوتا ہے”
” ہم نے تو عین ذات اور غیر ذات میں کوئی فرق سمجھا ہی نہیں۔ یہ راز بھی درحقیقت مجھے الف نے سمجھایا ہے”۔
کہتے ہیں
”بس اس ایک الف کو پڑھ سمجھ لو ساری اُلجھنوں سے بچ جاؤگے”۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں
”لاکھ ہزاروں کتابیں پڑھ ڈالو اگر خود سمجھ نہیں سکے تو اس تک کا سفر طے نہیں کر پاؤگے”
سیدی ہی فرماتے ہیں
”ہم نے بھی وہ جام عشق پوری جانچ پڑتال کے بعد پیا ہے جو شاہ منصور (حسین بن مصنور حلاج) نے لبریز کرکے پیا تھا۔ بلھے نے عشق کے جام سے وضو کیا’ میرے محبوب تو نے کیوں اتنی دیر لگا دی۔ میری تو جان لبوں پر آگئی ہے”۔
شاہ کہتے ہیں
”فقیروں کو روزحساب میں کوئی فکر لاحق ہوئی تو شمع احمدؐ بن کر اس کے دربار میں کھڑے ہوجائیں گے”۔
"ساجن بس تو ہی تو ہے میں تو کچھ بھی نہیں۔ اس بازیگر نے کیا خوب بازی کھیلی میں اب اس تال پر رقصاں ہوں”۔
سرمد کہتے ہیں
”ہونے ناہونے کے سارے فیصلے اسی کے ہیں ہم تو یار کے فیصلوں پر جیتے مرتے ہیں’ پیا کس دیس ملیں گے’ فیصلہ پیا کو کرنا ہے سرمد تو بس دیدار کا مشتاق ہے۔ عاشق یار کے بلاوے سے بھاگتے نہیں بلکہ ہنسی خوشی اپنی گردن جلاد کی تلوار کے نیچے رکھ دیتے ہیں”۔
بلھے شاہ کہتے ہیں
”کوئی پوچھے تو دلبر کیا تماشے کرتا ہے۔ میں جس طرف بھی دیکھتا ہوں وہی دلبر ہے”۔
شاہ لطیف فرماتے ہیں
”جس نے بھید سنبھال کر نہ رکھا وہی مارا گیا”
وارت شاہ کہتے ہیں ”بھید کے صندوق والے تالے کی چابی ہم نے کبھی تلاش ہی نہیں کی وہ جانے اور اس کے بھید۔ ہم وہی بولے جو اس نے چاہا”۔
وارث شاہ ہی کہتے ہیں
”جب سب تھک ہار کے سو جاتے ہیں تب بھی وہی جاگ رہا ہوتا ہے”۔
حافظ شیرازی کہتے ہیں
”حال دل بیان کرنے سے کبھی کبھی بوجھ کیساتھ آدمی کا وزن بھی کم ہوجاتا ہے۔ لازم ہے کہ حال دل فقط ”اُسی” سے بیان کیا جائے”۔
بلھلے شاہ کہتے ہیں
”سب پتا چل گیا کا دعویٰ امانت میں خیانت ہے۔ اس کے روپ شمار کرنا تیرے میرے بس میں نہیں وہ ہر جگہ موجود ہے” بھیس بدلنے والے لاکھ بھیس بدلیں’ ساجن کو جو پسند ہم اسی پر راضی ہوئے”
خواجہ غلام فرید کہتے ہیں
”اس دل بے قرار کی حالت کسے بیان کروں کوئی واقف حال رازدار بھی تو نہیں ملتا”
” ہجر میں ہونے والی گریہ وزاری بناؤ سنگھار کو کھا گئی۔ میرا راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اشکوں کے طوفان برپا کرنا تمہارے کارن ہی تو ہے”۔ "بے شمار طبیب بلائے دوا دارو ہوا لیکن میرے مرض کو طبیب کیا سمجھیں گے’ دل کی بیماری کے راز طبیبوں پر نہیں یار پر عیاں ہوتے ہیں”۔
"اب تو درد اور اندیشہ ہائے گوناگوں ہی اس دل کی میراث بن گئے باقی جو علم وہنر تھے سب بھول گئے۔ اس ایک تعلق پر ہم نے دنیا لٹا دی’ سب رنگ اس کی ذات کے ہیں”۔
سیدی بلھے شاہ فرماتے ہیں
”جس نے حب ذات کا ڈھول پیٹا وہی رسوا ہوا۔ آدمی تو ناواقف اسرار ہے”۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں ہماری درسگاہوں میں ان عارفوں کو کیوں نہیں پڑھایا جاتا جو انسان دوستی علم اور ایثار کو مقصد زندگی قرار دیتے ہیں ؟
تب فقیر راحموں سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں
” ہمارے نظام کو آدمیوں کی ضرورت ہے لگڑ بگڑ قسم کی مخلوق کی ، یہ انسان دشمن نظام اچھی طرح سمجھتا جانتا ہے کہ انسان سوال کرہں گے ۔
ان کے سوالات کبھی ختم نہیں ہوں گے ۔
حاکم طبقات کو اطاعت گزار پسند ہیں ۔ شب و روز میں تمیز نہ کرسکنے والے ۔ طاقت کے سامنے جھکنے والے ۔ انسانوں کا سماج تو آگہی تحقیق اور تعمیر پر بضد ہوتا ہے "
یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ۔
معاف کیجے گا ہمارے حاکم طبقات کی زندگی اسی نظام کی بدولت ہے ہماری درسگاہوں کے نصاب اس نظام کو غلام فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں ۔
شاہ لطیف رح کہتے تھے
” سرمدی نغمہ اپنے خون سے غسل لے کر الاپا جاتا ہے "
ہمارا نصاب اور نظام سرمدی نغمے کے اول نمبر دشمن ہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر