مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان کے نظام پر مافیاز کے قبضے کی حقیقت||جام ایم ڈی گانگا

ُ ُپاکستان میں بیشتر معاشی پالیسیاں طاقتور طبقات کے دباؤ میں بنائی جاتی ہیں اور اس مقصد کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہو تو حکومت اور سرکاری ادارے تمام تر مالی بوجھ عوام پر منتقل کر کے کسی نئی قانون سازی میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے.

جام ایم ڈی گانگا

03006707148

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ُ ُپاکستان میں بیشتر معاشی پالیسیاں طاقتور طبقات کے دباؤ میں بنائی جاتی ہیں اور اس مقصد کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہو تو حکومت اور سرکاری ادارے تمام تر مالی بوجھ عوام پر منتقل کر کے کسی نئی قانون سازی میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے.

پاکستان کے 22 کروڑ افراد کے معاشی مفادات کے خلاف چند طبقات کا ایک گٹھ جوڑ ہے.یہ کلب معیشت کے مختلف شعبوں کے بااثر افراد پر مشتمل ہے جس میں بڑے تاجر،درآمد و برآمد کنندگان، ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ، بعض مذہبی طبقات، اقتصادی ٹیکنوکریٹس اور نجکاری کے نام پر کوڑیوں کے مول قومی اثاثوں پر قبضہ جمانے والے شامل ہیں جنھیں بعض اوقات فیصلوں کی صورت میں اعلیٰ عدالتوں کی کُمک بھی حاصل ہو جاتی ہے. ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،،وطن عزیز میں مروجہ مرئی و غیر مرئی نظام و سسٹم کے بارے میں مذکورہ بالا الفاظ وخیالات پاکستان کے معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے ہیں جو انہوں ایک تلخ سوال کا سچا و کھرا جواب دیتے ہوئے بیان کیے.ایک معروف سرائیکی گیت کے بول یاد آ رہے ہیں ُ ُچٹڑے پدھر تے بہہ کر دل لُٹوائی ہم وے ٗ ٗ.ایسے ویسے سوالات تو اکثر ہو جایا کرتے ہیں مگر کبھی کبھی ایسے جوابات بھی اُگال میں اُگل آتے ہیں. ہمارے ملک میں یہ ایک علیحدہ معاملہ ہے کہ یہاں پر اپر خاص طور پر رولر کلاس اور ان سے منسلک لوگ سچ کب بولتے یا اُگلتے ہیں. بہرحال کوئی اور مانے یا نہ مانے مجھے تو ڈاکٹر شاید حسن صدیقی کے مذکورہ بالا جواب میں صداقت نظر آتی ہے.
شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ 1950ترمیمی آرڈیننس 2020ءاورشوگر فیکٹریز کنٹرول ترمیمی ایکٹ 2021ء ہمارے سامنے زندہ جاوید مثال ہے.صوبہ پنجاب میں شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ ترمیمی آرڈیننس 2020عمران خان اور بزدار حکومت کا ایک کسان دوست فیصلہ اور اقدام تھا.اس آرڈیننس کو ملک کی طاقت ور ترین شوگر مافیا نے جس طرح اداروں میں موجود اپنے ایجنٹوں،گماشتوں، ڈبل تنخواہ دار سرکاری ملازمین و آفیسران یقین کریں ان کے سس گھناؤنے کردار کی وجہ سے جنھیں بھڑوا کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے.ان کے ذریعے پنجاب اسمبلی سے چوری چھپے متعلقہ و مذکورہ شوگر آرڈیننس میں سے کسان دوست شقیں نکلوا کراسے شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ2021ء کی صورت میں4مئی کو راتوں رات منظور کروایا. کسانوں کے شور و واویلے پر وزیر اعظم پاکستان عمران نے سختی سے نوٹس لیا.اسے درست کرنے کی ہدایات جاری کیں. جب اسے درست کرکے4جون کو دوبارہ منظوری کے مرحلے سے گزارا جا چکا ہے تو پھر ایک نیا ڈرامہ اور بدمعاشی دیکھنے کو مل رہی ہے. اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ وزیر اعظم کی ہدایت کے باوجود اس منظور ہونے والے نئےشوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ کی کسانوں کو کاپی نہیں دی جا رہی.گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اس پر دستخط ہی نہیں کر رہے. کیوں? آخر کیا وجہ ہے. کونسی سی ایسی قوت اور طاقت ہے جس نے روکا ہوا ہے یا رکوایا ہوا ہے. کیا ایکٹ میں وعدے کے مطابق شقیں بحال نہیں کی گئیں یا کوئی نئی گڑ بڑ کی جا رہی ہے. یقین کریں جناب وزیز اعظم کی یہ حیثیت دیکھ کر ان پر ترس آ رہا ہے.وزیر اعظم موصوف مافیاز کے درمیان کہاں پھنس گیا ہے.اب اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ ملک پر اور ملک کے عوام پر کچھ رحم کریں. کسان اور عوام مرگئے تو….. ویسے مفت میں میرا مشورہ ہے کہ ملک کو مافیاز کے نرغے سے نکالنے کے لیے جہاد کریں یا پھر آئی ایم ایف یا کسی اور عالمی ادارے کی بجائے ملک کو دس سال کے لیے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کو ٹھیکے پر دے دیا جائے تاکہ گھر کی بات گھر میں ہی رہے. ایسٹ انڈیا کمپنی نہ جانے اس وقت کیوں یاد آ رہی ہے?. یا اللہ خیر فرما آمین
محترم قارئین کرام،، ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے جو تلخ قومی حقیقت بیان کی ہے. جن جن گروہوں، پتی داران و حصہ داران اور حرام خوران کا ذکر کیا ہے. کیا اس معاملے میں بھی وہی جتھہ اپنی کارروائیاں نہیں ڈال رہا. کیا یہ کرپشن اور لاقانونیت کا کمال عروج نہیں ہے. قانون کے منہ پر کھلی زنٹے دار تھپڑیں نہیں ہیں. ایک نہیں کئی بار ننگے ہو جانے کے باوجود یہ قومی بے حیا و بے غیرت ڈٹے ہوئے ہیں. باز نہیں آ رہے. یہاں تک کہ ملک کا وزیر اعظم بھی بے بس دکھائی دینے لگا ہے. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی وزیر اعظم بے بس ہے یا اندر سے ملا ہوا ہے. کسانوں اور عوام سے محض ڈرامے بازیاں کر رہا ہے.آخر وطن عزیز میں مافیا اس قدر طاقت ور منہ زور اور بے لغام کیوں ہیں.سارے نظام کو ہائی جیک کیا ہوا ہے. میں سوچ رہا ہوں اس نیشنل اور انٹرنیشل معاشی جنگ، معاشی دھشت گردی میں کسان اور عوام کو کب تک یونہی قربانی کے دنبے، بکرے، گائے وغیرہ کی طرح ذبح کیا جاتا رہے گا.ملک و قوم پر مسلط مافیاز کا جب چاہیں اسمبلیوں سے اپنے حق میں مرضی کی قانون سازی کروا لینا ایک ایسا قومی المیہ ہے. جو بہت جلد یا بدیر سب کچھ تباہ کرکے رکھ دے گا.اندر ہی اندر بننے والا لاوا اب پک کر خطرناک بن چکا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے. قومی لوٹ مار ڈرامہ سیریز کے تقریبا تمام کردار اب بے نقاب ہو چکے ہیں.ملک میں خانہ جنگی کے خطرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.اخلاقیات، مذہبی قوانین سے لے کر ملکی قوانین تک بلاتفریق عمل درآمد،میرٹ اور انصاف کی پوزیشن ہم سب کے سامنے ہے. جب ملک،معاشرے میں بیوہ خاتون، یتیم لڑکی کی زمینیں اُن کا ڈیفالٹر مستاجر قبضہ کرکے بیٹھ جائے.جعل سازی کرکے نہتی خواتین کو تھانوں، دفتروں اور عدالتوں کے چکر لگوانے پر مجبور کر دے.کسی خدا ترس میرٹ اور انصاف کرنے والے آفسر کا ڈنکے کی چوٹ پر تبادلہ کروا دیا جائے. قبضہ گیر کے خلاف اس لیے کوئی کارروائی نہ کی جائے کہ وہ ایک بااثر ترین وفاقی وزیر اور ایک با اثر ترین صوبائی وزیر کا چہیتا،دست راست اور کارندہ خاص ہو. چک76این پی موضع محمد پور قریشیاں تھانہ کوٹسمابہ تحصیل و ضلع رحیم یارخان کی بیوہ شاہدہ تسنیم درانی اور یتیم لڑکی حنا خورشید درانی کی46ایکڑ سے زائد قیمتی زمین کب اور کون واگزار کرا کر دے گا.سستا، فوری و بروقت اور گھر کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی کے نعرے لگانے والے اور دعویدار کہاں ہیں. مظلوموں کی آواز اور ان کا سہارا بننے والوں کو مظلوم نہتی خواتین مدد کے لیے پکار رہی ہیں. فریادیں کر رہی ہیں.پنجاب اسمبلی میں بہت سارے انفردادی و اجتماعی عوامی مسائل اور معاملات پر جرات مندانہ انداز میں آواز اٹھانے والے ضلع رحیم یارخان کےایم پی اے سے مخدوم عثمان محمود ابھی تک کیوں خاموش ہیں.کیا مخدوم مخدوم کی مام ہے?. قبلہ مخدوم عثمان محمود صاحب اپنے چچا اور لیڈر مخدوم سید احمد محمود کی طرح زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے بس ظالم اور مظلوم کو دیکھیں.مظلوم خواتین کی آواز بنیں.قبضہ گیر ان نہتی خواتین کی زمینوں کی لاکھوں روپے کی سالانہ آمدنی میں سے کچھ خرچ کرکے انہیں جھوٹے کیسز میں الجھاتا چلا جا رہا ہے.دوسری جانب خاندان کی جمع پونجی کی جائیداد سے محروم خواتین انتہائی مشکلات کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں.نہ انہیں زمین کی مستاجری کے پیسے دیئے جا رہے ہیں اور نہ زمین واپس کی جا رہی ہے.انتظامی آفیسران با اثر مقامی وزراء کے سخت دباؤ کا شکار ہیں.جس کی وجہ سے انصاف کی فراہمی نہیں ہو پا رہی. ملک کی مرئی و غیر مرئی ایجنسیاں اور آئین و قانون کے رکھوالے کیا کر رہے ہیں.کیا کوئی عدالت از خود نوٹس لے کر اس جائیداد کو فیصلے ہونے تک قبضہ گیر سے فوری طور پر واگزار کرکے سرکاری تحویل میں لینے کا حکم جاری نہیں کر سکتی.

یہ بھی پڑھیے:

مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

%d bloggers like this: