عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایڈورڈ سعید نے "مسئلہ فلسطین” کتاب کے آخر میں لکھا تھا:
"چونکہ مروجہ تصورات جن کی رو سے پی ایل او کو خاطر میں نہیں لایا جاتا ، کا دیوالیہ پن عیاں ہوچکا ہے۔ اس لیے میں پراعتماد لہجے سے یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ایک دن آئے گا جب فلسطینی سیاسی طور پہ پہل کریں گے اور سارے خطے کو ترقی کی شاہراہ پہ ڈال دیں گے۔ آگر انجام کار اس قسم کی کوئی صورت حال پیدا ہوئی تو وہ کئی لحاظ سے مصری اور اسرائیلی امن معاہدے کا مثبت نتیجہ ہوگی- لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئیے کہ فلسطین تشدد اور خون سے لبریز ہوچکا ہے اور ہمیں حقیقت پسندانہ انداز سے اس بات کی توقع رکھنی چاہئیے کہ ایک مختصر عرصے کے لیے آئیندہ بھی وہاں ہنگامے ہوتے رہیں گے اور کافی انسانی خون بہتا رہے گا- بدقسمتی سے مسئلہ فلسطین اپنی جانی پہچانی صورتوں میں بار بار سامنے آتا رہے گا-لیکن ہمیں امید رکھنی چاہئیے کہ فلسطین کے عوام۔۔۔۔۔ جن میں یہودی اور عرب دونوں شامل ہیں اور جن کے ماضی و مستقبل نے انھیں آپس میں جکڑ رکھا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے ۔۔۔۔ بھی ایک بار پھر اپنا احیا کریں گے ۔ ابھی تک کسی قابل ذکر حد تک ان کا آمنا سامنا نہیں ہوا لیکن مجھے علم ہے کہ یہ آمنا سامنا ہوگا اور ضرور ہوگا اور جب یہ آمنا سامنا ہوگا تو دونوں کا بھلا ہوگا”
ایڈورڈ سعید نے اسی کے آغاز میں یہ بھی کہا تھا:
دو باتيں یقینی ہیں: اسرائیل کے یہودی بھی رہیں گے اور فلسطینی بھی ۔ اعتماد و یقین سے اس سے زیادہ کچھ کہنا نری حماقت ہوگی اور خوامخواہ اپنے آپ کو خطرے میں پھنسانا ہوگآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایڈورڈ سعید اپنی اس کتاب میں ایک جگہ لکھتا ہے: بموں اور رائفل کے کندوں سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیاں امن قائم نہیں ہوگا
صہیونی بنیاد پرست اور اسلامی بنیاد پرست دونوں کے دونوں اسرائیلی اور فلسطینی عوام کے درمیان مسئلے کے باعزت اور پرامن حل میں سب سے بڑی روکاوٹ ہیں
ایڈورڈ سعید کا اپنی موت سے پہلے حماس بارے جو آخری خیال تھا وہ بھی ملاحظہ کرلیں :
انھوں نے (یاسر عرفات نے) کبھی بھی حقیقی طورپہ حماس اور اسلامک جہاد پہ پابندی نہیں لگائی جو اسرائيل کے لیے تو بہت ہی زبردست بات تھی کہ اس کے پاس بنا بنایا عذر ہوگا کہ وہ نام نہاد بنا ضرورت کے شہیدوں (ذہن سے خالی) کے خود کش حملوں کو تمام لوگوں کو مزید سزا دینے اور ان کو نیست نابود کرنے کے لیے جواز بنالے ، عرفات کی تباہ کن حکومت سے زیادہ نقصان اور ہمارے کاز کو کسی نے پہنچایا ہے اور ہمارے لیے آفت بنی ہے تو وہ اسرائيلی سویلین کو مارنے کی پالیسی ہے جس نے مزید دنیا کے سامنے ہمیں ثابت کیا ہے کہ ہم حقیقت میں دہشت گرد اور اخلاقیات سے عاری تحریک ہیں۔ اس کا فائدہ کیا ہوگا؟ کس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے-
(From Oslo to Iraq and the Road Map, p. 185.)
فلسطین بارے اس سے زیادہ حقیقت پسند تبصرہ اور نہیں ہوسکتا
ایڈورد سعید کا جب پہلی بار حماس کے لوگوں سے واسطہ پڑا تو اس کے تاثرات کیا تھے ملاحظہ ہوں:
میں فلسطین میں تھا تو1992ء میں حماس کی نمائندگی کرنے والے چند طلباء سے ملا۔میں ان کی سیاسی وابستگی کے فہم سے متاثر ہوا لیکن ان کے سبھی خیالات نے مجھے متاثر نہ کیا۔ 1993ء میں،میں نے ان کے ساتھ گچھ گھنٹے گزارنے کا بندوبست کیا اور ان کے سیاسی حریف اسلامک جہاد کے لوگوں کے ساتھ بھی تاکہ دونوں اطراف کی بات معلوم ہوسکے۔ میں نے ان کو جدید سائنس کی سچائیوں کے معاملے میں خاصا ماڈریٹ/ اعتدال پسند پایا۔ جن چار جوانوں سے میں ملا ان کا تعلیمی ریکارڈ شاندار تھا- وہ سب سائنسندان یا انجنیئر تھے۔ مایوسی مجھے یہ ہوئی کہ ان کے مغرب بارے خیالات بہت تخفیف پسندانہ تھے۔اور اسرائيل کے وجود کے وہ کٹّر پن سے مخالف تھے۔ انہوں نے بڑے حتمی انداز میں کہا کہ "سوائے 1948ء سے پہلے والے یہودیوں کے علاوہ سب کو یہ سرزمین چھوڑنا پڑے گی” مرکزی بات یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف احتجاج بارے ان کے اور ان کی قیادت کے خیالات متآثر کن نہ تھے اور وہ پرانے قوم پرستانہ خیالات کی چکالی تھے فرق پرانے قوم پرستانہ انداز سے یہ تھا کہ اب وہ اسلامی زبان و محاوروں سے مملو تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر