اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلی دل والوں کی (قسط35)||عباس سیال

یہ دِلی میں میرے قیام کی آخری شام تھی،دن بھر کی تھکن سے چور آفتاب اپنی بساط لپیٹ چکا تھا۔راجندر نگر کی تنگ گلیوں پر لگے کھمبوں پر سرکاری قمقمے روشن ہو چکے تھے

 

عباس سیال 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بہاولپور بھون کی سیر: دِلی کے شیو نگر جانک پوری سیکٹر میںقائم بہاولپور بھون کے نام سے قائم عمارت کوپاکستانی ریاست بہاولپور سے ہجرت کرکے دِلی آنے والے ہندو شرناتھیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کروایا تھا۔ بہاولپور ی ہندو جب دِلی آئے تو اپنی بکھری کمیونٹی کو یکجا رکھنے کیلئے انہیں ایک ایسی عمارت کی ضرورت تھی جو برادری کو جوڑنے کیلئے مرکزی پلیٹ فارم کا کام سرانجام دے ۔ اس مقصد کی خاطر بہاولپور بھون سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، جسے اَکِھل بھارتیہ یعنی آل انڈیا بہاولپور اسٹیٹ پنچائیت کے نام سے رجسٹرڈ کروا کر بھون یعنی کمیو نٹی کی بلڈنگ بنانے کا کام تیز کر دیا گیا۔ہندوستانی سرکار نے بھون کی تعمیرکیلئے شیونگر میں مفت اراضی مہیا کی، کمیونٹی نے مل کر چندہ اکھٹا کیا اور یوں بھون کی بنیاد رکھی گئی ۔ اُس وقت کے نواب صلاح الدین خان عباسی نے بھی بھون کی تعمیر کیلئے سوا لاکھ روپے دان کئے اور تعمیر مکمل ہونے کے بعد وہ دِلی تشریف لائے جہاں ایک تقریب منعقد کرکے انہیںبہاولپور پنچا ئیت کے پیٹرن انچیف کے اعزازی عہدے سے نوازا گیا ۔مجھے بھون کے اندر سرسری جھانکنے کاموقع ملا ،گراﺅنڈ فلور پر ایک بڑا سا کمیونٹی ہال ہے جو کمیونٹی کی تقریبات مثلاًشادی بیاہ پارٹیوں اور دیگر مذہبی و ثقافتی تہواروں میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دوسری اور تیسری منزل پر کمرے اور غسل خانے تعمیر کئے گئے ہیں۔ کمروں کے اندر بیڈ ، صوفے رکھے گئے ہیںجنہیںمہمان خانے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔بہاولپور بھون کی تعمیر کا واحد مقصد بہاولپوری کمیونٹی کی فلاح و بہبود تھا جہاں نادار مریضوں کے علاج معالجے اور دواﺅں کے ضمن میں مالی تعاون ، سرائیکی زبان، ادب وثقافت کی ترویج و اشاعت اورطالب علموں کی تعلیم و تربیت بھی سوسائٹی کی ذمہ داری تھی ۔ اس مقصد کی خاطرراجندرنگر میں گول چکر کے سامنے ایک پانچ منزلہ عمارت کے اندر خیراتی سکول بھی کھولا گیا جہاں نادار بچوں کو مفت تعلیم اور خوراک مہیا کی جاتی ہے۔ بہاولپور پنچائیت سوسائٹی کی انتظامیہ ہر دو سال بعد صدر، نائب صدر،سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری ، ورکنگ کمیٹی سمیت سارے عہدےداران کا انتخاب کرتی ہے اور سوسائٹی ممبران کی طرف سے فنڈاکٹھا کرکے کمیونٹی کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے۔بہاولپور اسٹیٹ پنچائیت کمیونٹی کے موجودہ صدر شری لکشمی نرائن سچدیوا سے ملاقات کیلئے ہم بھون سے نکل کر راجندر نگر کی طرف روانہ ہو گئے۔

آل انڈیا بہاولپور پنچائیت : ۔ یہ دِلی میں میرے قیام کی آخری شام تھی،دن بھر کی تھکن سے چور آفتاب اپنی بساط لپیٹ چکا تھا۔راجندر نگر کی تنگ گلیوں پر لگے کھمبوں پر سرکاری قمقمے روشن ہو چکے تھے ۔وِجے انکل نے راجندر نگر کی ایک گلی میں گاڑی پارک کی ، اب یہاں سے ہمیں پیدل چل کر لکشمی نرائن کے گھر تک جانا تھا۔ہم ایک چھ منزلہ عمارت کے سامنے کھڑے تھے جس کے پہلو میں لگی سیڑھی بالائی منزل تک جارہی تھی ۔ عمارت کی آخری منزل پر لکشمی نرائن اپنے خاندان سمیت ہمارے منتظر تھے۔ سب تپاک سے ملے اور ہمیںایک کمرے میں لے گئے، جہاں پر کرسیاں اور میز رکھے ہوئے تھے، شایداس کمرے کو بطورِ بیٹھک استعمال کیا جاتا تھا۔لکشمی نرائن سمیت اُن کی بہو،دو بیٹے، بیٹی اور ایک پوتی سمیت سب کمرے میں آ کر بیٹھ گئے۔ ایک عورت جو غالباً لکشمی نرائن کی دوسری بہو تھیں بسکٹ، نمکو اور ٹھنڈی بوتلیں لیے اندر داخل ہوئیں۔ لکشمی نرائن بہاولپور کے بازار فتح خان کی گلی ٹو کیان میں پیدا ہوئے ، وہیں پرورش پائی اور وہیں جوان ہوئے۔بہاولپور شہر کی یادوں کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت شہر میں چار مشہوربازار تھے غالباً مچھلی بازار، فتح خان، گری گرائیں اور بھاوڑا بازار ۔شہر کے اندر کالا دھاری مندر بہت مشہور تھا ، مندر میں کیا گیا لکڑی کا شاندار کام،خصوصاً مرکزی دروازے پر کندہ کاری اور مور تیوں کے نقش و نگار انہیں آج تک نہیں بھولتے۔

            لکشمی نرائن کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا، بہاولپور میں اُن کے اجداد کے پاس نہری رقبے ، کنوئیں، باغات اور دکانیں تھیں۔اردو، فارسی ،سنسکرت زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج میں زیر تعلیم تھے کہ بٹوارہ ہو گیا ۔وہ کل تین بھائی تھے، سب نے بہاولپور سے دِلی ہجرت کی،انہیں ہریانہ کے علاقے سرسہ میں کلیم کے بدلے کچھ زمینیں الاٹ ہوئیں مگر جو زرعی رقبے وہ پیچھے چھوڑ آئے تھے یہ اس کا عشرِعشیر بھی نہ تھا ۔اس دولت کا کیا فائدہ کہ دھری کی دھری رہ گئی اور سارے کنبے کو راشن اور مائیگرنٹ ریلیف کی لائنوں میں کھڑا ہونا پڑا۔ دِلی کے راجندر نگر میں پورے خاندان کو ایک جھونپڑی الاٹ کی گئی جس پر چھ منزلہ عمارت تعمیر کرکے سارا گھرانہ اکھٹا آباد ہوا اور اسی گھر میں آج وہ پوتے پوتیوں سمیت اکھٹے آباد ہیں۔ وہ اردو، ہندی اور سنسکرت زبانیں روانی کے ساتھ پڑھ، لکھ اور بول سکتے ہیں جبکہ فارسی لکھ تو سکتے ہیں مگر بولنے میں تھوڑی بہت دشواری کا سامنا ہے۔ چھ منزلہ مکان میں اپنے پورے کنبے کے ساتھ آباد لکشمی نرائن نے سارے خاندان کا عمومی تعارف کروایا۔ اُن کابڑا بیٹا برج موہن سچدیوا حال ہی میں اکاﺅٹنٹ جنرل کے عہدے سے ریٹائرڈ ہو کر بہاولپور پنچائیت سوسائٹی میں بطورِ چیف پیٹرن اپنی ذمہ داریاںسر انجام دے رہاہے ،دوسرا بیٹا موہن داس سچدیوا چارٹرڈ اکاﺅٹنٹ ہے ، ایک پوتی ڈاکٹر اوربہو جرنلزم کی لیکچرر ہیں۔بہاولپور دیکھنے کی آس میں انہوں نے ایمرجنسی پاسپورٹ بنو ارکھاہے، کئی بار ویزہ اپلائی کیا مگر بدقسمتی سے آج تک کوئی سبیل پید انہیں ہو سکی اوروہ اپنا آبائی وطن دیکھنے کی اِکشا لئے ابھی تک زندہ ہیں۔اسی دوران آل انڈیا پنچائیت کے سیکرٹری راکیش دُریجہ بھی پہنچ گئے اور مختصر سے تعارف کے بعد انہوں نے بہاولپور برادری کے بارے میں چند مفید معلومات فراہم کیں۔

٭٭٭٭٭٭

جاری ہے۔۔۔۔

 

یہ بھی پڑھیے:

دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال

عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: