عباس سیال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوسف زئی ایک بہت بڑا پٹھان قبیلہ ہے۔کہتے ہیں کہ پٹھان جب کبھی اپنا لشکر لے کر ہندوستان کو فتح کرنے نکلتے توان کے ساتھ یوسف زئی قبیلے کے جنگجو بھی ہمراہ ہوتے تھے، جو فتح کے بعدافغانستان واپس جانے کی بجائے ہندوستان میں ہی قیام پزیر ہو جا تے اور وہیں سے اُن کی اگلی نسلیں چلنے لگتیں ۔مختلف ادوار میں یوسف زئی قبیلے کے افراد اپنے سالاروں کے ساتھ کوئی نہ کوئی قلعہ فتح کرنے کیلئے ہندوستان کا رخ کرتے رہے۔
کوئی کام کی غرض سے یہاں آیا اور یہیں پر سکونت اختیار کرلی۔رامپور،بھوپال اور جونا گڑھ کے علاقوں پر یوسف زئیوں نے لمبے عرصے تک حکمرانی کی ۔آپ نے جنرل بخت خان کا نام تو سنا ہو گا ؟۔ میرے اثبات میں سرہلاتے ہی وہ پھر سے بولے ۔
جنرل بخت آخری مغل شہنشاہ بہاد رشاہ ظفر کی فوج کا ایک بہادر جرنیل تھا جس نے آخری سانسوں تک انگریز کے خلاف لڑ نے کیلئے بہادر شاہ کو آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی مگربہادر شاہ نے جنرل بخت کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے انگریزکی مراعات لینے اور لال قلعے کے اندر محصور ہو کر بیٹھے رہنے کو ترجیح دی تھی،نتیجتاً نہ اقتدار اس کے پاس باقی رہا تھا اور نہ وہ اپنی وسیع و عریض سلطنت میں دفن ہو پایا تھا۔
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کیلئے
دو گز زمین بھی نہ ملے کوئے یار میں
جنرل بخت خان سے لے کر مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور نواب بہادر یار جنگ تک یہ سارے ہندوستانی اکابرین یوسفزئی پٹھان تھے ۔بشیر خان کی تائید کرنے کے ساتھ ساتھ چپس کے آخری ٹکڑے کو حلق میں اتار نے اور چائے کا گھونٹ پینے کے بعد ان سے پوچھا۔خان صاحب یوسف زئی تو گورے چٹے ہوتے ہیں۔وہ شاید میرا مطلب سمجھ گئے تھے۔ برخوردار! ہمارے قبیلے کے افراد جب افغانستان سے ہندوستان آئے تو یہ لوگ آہستہ آہستہ اپنی مادری زبان بھول کر ہندوستانی تہذیب میں ضم ہونے لگے اور لاشعوری طور پر ہندوستانی طرزِ معاشرت کا حصہ بنتے چلے گئے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی آب و ہوا نے بھی ان کے ظاہری خدوخال پر اثر ڈالا ۔ شاید آپ کو پتہ ہو کہ ماضی میں جب کسی قبیلے کے لوگ کسی علاقے کو فتح کرنے کیلئے نکلتے تھے تو وہ اپنی عورتوں کو پیچھے چھوڑ آتے تھے ،اسی طرح ہم پٹھانوں میں بھی یہ شروع سے دستور چلا آرہا ہے کہ اگر ہم روزگار کی تلاش میں کسی دوسروں علاقوں اور ملکوں میں جائیںتو اپنی عورتوں کو اپنے ساتھ نہیں لے جاتے ۔
یوسف زئی چاہے یہاں فاتح کی حیثیت سے آئے یا پھر روزگار کی غرض سے ، دونوں صورتوں میں انہوں نے یہاں کی مقامی عورتوں سے شادیاں کیں او ریوسف زئی پٹھانوں کی ہندوستانی نسل ایک ارتقائی عمل سے گزر کر گوری چٹی سے سانولی اور گندمی رنگت میں تبدیل ہوئی جنہیں آج ہندوستانی پٹھان کہا جاتاہے۔آج کا ہندوستانی پٹھان ہندوستانی معاشرت سے جڑ چکا ہے اور پشتو کی بجائے اردو، ہندی میں بات کرتا ہے، لیکن وہ اندر سے اصلاً و نسلاً پٹھان ہی ہے کیونکہ اس کے ڈی این اے میں پٹھان کا اثر باقی ہے۔
اسی اثناءمیں گاڑی کا ڈرائیورسریش کمار اپنی سگریٹ ختم کر چکا تھا۔اُس نے کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی اور ساتھ ہی ہارن بجادیا۔ہارن کی آواز سنتے ہی گاڑی کے باہر کھڑے سیاح اندر داخل ہو کر اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے ۔میں ابھی سیٹ سے اٹھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ خان صاحب نے مجھے بازو سے پکڑ کر بٹھایا اور کہنے لگے۔آپ پاکستانی بھائی ہو، مجھے پاکستانی اچھے لگتے ہیں لیکن اگر آپ ناراض نہ ہوں تو ایک بات کہوں؟۔ جی بالکل ضرور کہئے۔ بات یہ ہے کہ تقسیم توجوہونی تھی وہ ہوئی اور جولکیر کھنچنی تھی وہ بھی کھینچ لی گئی اب لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں، مگر رنج اس بات کا ہے کہ اِس تقسیم نے بہت سے مسلمانوں پر روٹی رزق کے دربندکر دئیے ہیں ۔وہ کیسے،مجھے سمجھائیے ؟
مجھے اُن کی اس بات پر واقعی حیرانگی ہوئی ۔ وہ میرے حیران کن چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولے :” میرے دادا کہا کرتے تھے کہ جب ہندوستان متحد تھا تو مسلمان بھی متحد تھے اور ہمیں ایک دوسرے کو دیکھ کر حوصلہ ملا کرتا تھا۔ہندوستان کا وہ کونا جسے اب پاکستان کہا جاتا ہے اگر وہاں کے لوگوں کو کام نہیں ملتا تھا تو وہ کراچی، بمبئی ،کلکتہ ، دلی کی طرف نکل پڑتے تھے اورواقعی ہمارے پٹھان لوگ پشاور سے کراچی آتے وہاں سے لانچوں میں بمبئی پہنچتے اور وہاں کام کیا کرتے تھے۔
اکثر وہیں کے ہو کر رہ جاتے تھے ۔اسی طرح لاہور سے دلی اور کلکتہ کا رُخ بھی کیا جاتا اور رزق کمایا جاتاتھا ،مگر اب دونوں اطراف کھڑی کی گئی کانٹے دار سرحدی باڑ نے یہ وسیلہ بھی مسلمانوں سے چھین لیاہے ، بس مجھے یہی کہنا تھا کہ اس تقسیم سے چاہے کسی کو فائدہ ہوا ہو مگر مسلمانان ہندکی وحدت کو نقصان ضرور ہوا ہے۔بشیر خان کی باتیں سن کر میں حیران و ششدر اپنی سیٹ پر واپس آبیٹھا تھا ۔واقعی مجھے کبھی اس بارے سوچنے کا موقع بھی نہیں ملا تھا ۔ ہماری گاڑی پچیس تیس منٹ رکنے کے بعد دوبارہ چل پڑی تھی۔
ہندوﺅں کے مقدس شہر وَرِنداون اور متھرا بائی پاس سے گزرتے ہوئے دِلی کو دو سو تیس کلومیٹر پیچھے چھوڑتے ہم ساڑھے دس بجے آگرہ میںداخل ہوچکے تھے۔آگرہ کی حدود میں پہنچتے ہی بس کو ایک ساﺅتھ ا نڈین ریستوران پر روکا گیا۔تمام مسافر اتر کر ریستو ران کی طرف گئے، ڈرائیور بھی بس کو لاک کرکے نیچے اتر آیا۔ایک بڑے سے ہال کمرے میں صاف ستھری میزیں اور کرسیاں لگی تھیں۔جہاں کھانا کھانے اور چائے پی کر تازہ دم ہونے کے بعد سب واپس گاڑی میں سوار ہو گئے ۔
آگرہ شہر کے بورڈ پر نظر پڑتے ہی مسٹر خان نے سب کو خوشخبری سنائی کہ تھوڑی دیر بعد ہم آگرہ کے قلعے میں ہوں گے اور پھر محبت کی لازوال نشانی تاج مغل دیکھنے چل پڑیں گے،مگر سب سے پہلے ایک سرکاری شاپ پر گاڑی دس پندرہ منٹ کیلئے رکے گی جہاں پر تاج محل کے بارے میں سیاحوں کو معلومات فراہم کی جائے گی۔کچھ ہی منٹ بعد گاڑی کو ایک دکان کے سامنے روکا گیا، جہاں پر تاج محل کے مختلف ماڈلز شوکیسوں میں رکھے گئے تھے۔
ایک بڑے ماڈل کے سامنے کھڑے ہو کر تاج محل کے متعلق معلومات دی گئیں اور پھر سیاحوں نے تاج محل کے چھوٹے، درمیانے ا ور بڑی سائز کے کچھ ماڈلز خریدے ۔مجھے بھی آٹھ سو روپوں والا ایک درمیانے سائز کا ماڈل اچھا لگا۔تاج محل کے ماڈل کو پیک کروانے کے بعد بشیر خان نے بتایاکہ آگرہ کا پیٹھا اور دال موٹھ کافی مشہور ہیں ۔ قریبی دکان سے آگرہ کی مشہور سوغات ”آگرہ کاپیٹھا “ آدھا کلو خریدا اور بس پھر سے چل پڑی ۔
آگرہ کی تاریخ: ہچکولے کھاتی بس کے پائیدان کو مضبو طی سے تھامے کھڑے بشیر خان آگرہ کی تاریخ پر پڑی سالہا سال کی گرد جھاڑ کر اس کا تاریخی چہرہ دکھانے لگے تھے۔ہم اس وقت دِلی سے 240کلومیٹر دور جنوب کی سمت دریائے جمنا کے کنارے پرآگرہ شہر میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ شہراپنے دامن میں کئی تہذیبوں اور سلطنتوں کی چھاپ لیے ہوئے ہے۔ یہاں آریاﺅں سے لے کر لودھی سلاطین اور مغل شہنشاہوں تک سبھی حکمرانوں نے اپنی اپنی تاریخ رقم کی تھی ۔
گنگا وجمنا کے تہذیبی دوآبے میں پڑنے والے اس شہر کو پہلے پہل آریاﺅں نے بسایا تھا اوراسے ”آریا گیاہ“ کہا تھا جو بعدمیں بگڑ کر آگرہ بنا۔آریاﺅں کی آمد سے قبل مہابھارت میں بھی ا س شہر کا سراغ ملتا ہے۔معلوم تاریخ کے مطابق جب محمو د غزنوی نے اسے فتح کیا تو یہاں پر اُن دنوں ایک راجپوت راجہ حکمران تھا ۔راجہ کو جو شکست ہونی تھی وہ تو ہوئی مگر اس شکست نے آگرہ کو ویران وسنسان کر دیا تا آنکہ سکند رلودھی نے سولہویں صدی عیسوی کی ابتداءمیں جمنا کنارے اِسے پھر سے آباد کیا اور اپنا پایہ تخت قرار دے کر اس کے نز دیک ہی سکندر آباد شہر بھی بسایا۔
جاری ہے۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:
دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر