عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میں نے اپنا وہ اصول توڑا جسے میں نے فروری 2023ء میں اپنایا تھا- ایک عدد سگریٹ پھونک ڈالی – ٹیرس پر ٹہلتے ہوئے، سوچوں میں غلطان تھا- سوچ رہا تھا کہ ایک سال اور بیت گیا ہے اور اس دوران دن بدن میں ابتری کی اور بڑھتا چلا گیا، یہ ابتری کیا ہے؟ بس بتانے کی ہمت نہیں کرپارہا-
آج میں باہر رات کی واک کرنے بھی نہیں گیا- سال ختم ہونے سے محض 5 دن پہلے ایک 36 سال کا جوان کزن جان کی بازی ہار گیا- اس نوجوان کو میں نے اپنی گود میں کھلایا تھا اور اس کی ماں کہہ رہی تھی کہ وہ اس عمر میں ‘تایا ابو’ بننے پر بہت خوش تھا اور اس کے کئی خواب تھے جو اس کے ساتھ ہی راہی عدم ہوگئے۔ اس دسمبر کے مہینے میں اور اس کے تیسرے ہفتے میں میرے ایسے چچا بھی راہی عدم ہوئے جن سے میری ذہنی قربت اب ‘بلوغت’ کے مرحلے میں داخل ہورہی تھی اور وہ اتنے ستم ظریف نکلے کہ جانے سے دو دن پہلے انھوں نے ہماری طویل نشست کے دوران ہلکا سا اشارہ تک نہ دیا- آج سال کی آخری رات جب بس دوگھنٹوں کی مہمان ہے تو میری اہلیہ کے سگے پھوپھا کی موت کی خبر آگئی ہے۔
میرے شہر میں اور دیگر شہروں سے اس دوران مجھے راہی عدم ہوجانے والے بہت سی ہستیوں کی خبریں موصول ہوئی ہیں جن سے کسی نہ کسی پہلو سے میرا تعلق بنتا ہے۔ خواجہ جمشید امام کی ماں کے انتقال کی خبر بعد میں آئی پہلے سی ایم لطیف کے آنجہانی ہونے کی خبر آئی ۔ یہ گزر جانے والے کوئی سیلبرٹی نہیں تھے۔ سارے بس عام سے لوگ تھے سوائے ایک دو کے جو ‘عام لوگوں سے زرا اوپر’ تھے۔ ان سب کے ہاں خواب در خواب سجے تھے اور ان خوابوں کے پورا ہونے کی امید بھی دل کے کسی نہاں خانے میں چھپی رہتی تھی- اور ان میں سی ایم لطیف جیسے کامریڈ تھے جنھیں میں نے کہا کہ وہ ‘عام آدمی سے زرا اوپر’ کے لوگ تھے جو اپنے وقت میں ‘ربا سچیا توں تے آکھیا سی ۔۔۔۔۔’ جیسی نظموں پر وشواس رکھتے تھے۔ انہیں اپنے ہونے سے کہیں زیادہ ‘تخت گرائے جانے، تاج اچھالے جانے’ کا یقین تھا اور یہ بھی یقین کہیں تھا’ہم مردود حرم، اہل صفا مسند پر بٹھائے جائیں گے’ اور وہ آخری دم تک یہی یقین کرتے رہے۔
مجھ سے پہلے والی پیڑھی کے عام آدمیوں سے زرا سے اوپر آدمیوں نے اپنے سے پہلی پیڑھی کو نوآبادیات کے اندر رہنے کے تجربے کو بیان کرتے اور ان کے اندر قومی ازادی سے جڑے خوش کن خوابوں کے ٹوٹ جانے سے جو خلش پیدا ہوئی اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے انہیں ‘داغ داغ اجالا، شب کزیدہ سحر’ جیسی نظموں کا سہارا ملا تھا- اور مجھ سے پہلے والی پیڑھی نے اس دن کے آنے پر یقین نہ کھویا تھا جب ظلم و ستم کے کوہ گران کے روئی کی طرح اڑ جانے تھے۔ اور اس دوران انھوں نے ‘گوری چمڑی والوں’ کی ‘جگہ کالے انگریزوں ‘ کی بربریت کا سامنا کیا، وہ سامنا بھی انہیں ‘رجائیت’ سے محروم نہ کرسکا لیکن آج جہاں ہم کھڑے ہیں وہ ایک بسیط سا خلا ہے۔ بے کنار تنہائی ہے۔ اور رائیگانی کا احساس بہت گہرا ہے۔ اور ‘ عام سے زرا سے اوپر ‘ جوہیں وہ عجب سی ‘بے گانگی’ کا شکار ہیں۔
ایک ”عام سے زرا اوپر’ آج سہ پہر میرے گھر آیا تو اس نے کہا کہ ‘وہ اب کسی سے ملتا نہیں ہے’ ۔
‘کیوں؟’، میں نے سوال کیا تو بس اتنا کہا
‘کوئی اپنے جیسا نہیں ملتا، جو تھے وہ نہیں رہے’
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ
فیمینسٹ!!!۔۔۔۔۔|| ذلفی
کہانی چرنوبیل ایٹمی پلانٹ اچ تھائے حادثے دی!!!۔۔۔۔۔|| ذلفی