اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچستان مسئلہ ہے یا چیلنج ؟؟؟؟||شاہد رند

اب ریاست نے اگر اس موقع پر یہ فیصلہ نہیں کیا کہ آئندہ پانچ سال بلوچستان میں کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے اور تسلسل کیساتھ کرنا ہے تو پھر ریاست کا چیلنج مسئلہ ہی رہیگا اور اس چیلنج کی مسئلے کی شکل میں موجودگی کا فائدہ ہر فریق حصہ بقدر جثہ اٹھاتا رہیگا۔

شاہدرند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچستان میں انتخابات کیساتھ ہی ایک بار پھر قومی سیاسی جماعتوں کو بلوچستان کے مسئلے کی یاد آئی ہے۔ ن لیگ ہو، پیپلزپارٹی ہو بلوچستان کی صورتحال کو مسئلے کے طور پر پیش کررہی ہیں کیونکہ دونوں جماعتوں کے اتحادی ہوں یا انکی قیادت انکی بقاء اسی میں ہے کہ وہ اسے ایک مسئلے کے طور پر پیش کریں جب تک بلوچستان کی صورتحال کو مسئلے کے طور پر پیش کرتے رہیں گے انکی دکان چلتی رہیگی لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ بلوچستان مسئلہ ہے یا چیلنج ہے؟ بنیادی طور پر بلوچستان کی صورتحال ریاست کیلئے مسئلہ نہیں بلکہ چیلنج ہے لیکن اس چیلنج کو حل کرنے کیلئے ریاست کو جس ٹول یا مڈل مین کی ضرورت ہے وہ ہیں سیاستدان اور بلوچستان کے وفاق مذہب اور قوم پرست۔ اگر ریاست کے اس چیلنج کو حل کرنے میں معاون ہونگے تو پھر اسکے نتیجے میں انہیں یہ خدشہ ہے کہ بلوچستان پر انکی جو گرفت ہے وہ کمزور ہوگی اور انکی انا کو یہ گوارا نہیں ہے کہ انکی گرفت بلوچستان کے عام آدمی پر کمزور پڑ جائے اور ریاست اور چرواہے کے درمیان جو رکاوٹیں ہیں وہ دور ہوجائیں اسلئے یہ سیاستدان بلوچستان کی صورتحال کو مسئلہ بنا کر پیش کرتے رہینگے تاکہ ریاست اور چرواہے کے درمیان یہ فاصلہ قائم رہے اور فاصلے کے نتیجے میں جتنے فوائد بطور مڈل مین وہ سمیٹ سکیں سمیٹتے رہیں لیکن اس کے نتیجے میں بلوچستان میں صورتحال قابو میں آنے کے بجائے عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔ بلوچستان کا نوجوان ریاست اور اسکے نظام سے متنفر ہورہا ہے جسکا نقصان ریاست مختلف صورتوں میں اٹھا رہی ہے۔ ریاست کو کسی زمانے میں بلوچستان میں دو فریقین سے ہینڈلنگ کرنی پڑتی تھی ،ایک تھے قوم پرست اور دوسرے تھے وفاق پرست۔ مذہب پرست کبھی بھی درد سر نہیں رہے۔ وفاق پرست خود کو ریاست کا وفادار گردانتے تھے اور ریاست کے چیلنجز سے انکا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ قوم پرست ریاست اور اسکے اداروں بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کیخلاف تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ریاست سے مفادات سمیٹنے والے وفاق پرست سردار قوم پرستوں کی سوچ کا جواب دیتے لیکن انہوں نے کبھی ریاست کے دفاع کو اپنا دفاع نہیں سمجھا ہاں البتہ ریاست سے جو ملا مال غنیمت کی طرح سمیٹتے رہے ۔ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب ریاست کو وفاق اور قوم پرستوں نے مل کر بھی بلیک میل کیا اور یہ سلسلہ انیس سو ستر سے تاحال جاری ہے جسکے نتیجے میں بلوچستان کا چیلنج ایک مسئلہ بن چکا ہے۔ ریاست کے سامنے بہت کچھ طشت ازبام ہوچکا ہے لیکن اسکے باوجود بلوچستان کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے ریاست کی پالیسیوں میں کوئی تسلسل دکھائی نہیں دیتا جسکے نتیجے میں بلوچستان کا چیلنج مسئلہ بنتا جا رہا ہے اور مسئلے کے فریقین ریاست اور چرواہے کے درمیان فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ اسکا فائدہ مڈل مین کے طور پر موجود وفاق مذہب اور قوم پرستوں کو ہورہا ہے ریاست سراسر نقصان میں ہے کیونکہ نقصان ریاست کے اداروں کا ہو یا پھر چرواہے کا دونوں صورتوں میں نقصان ریاست کا ہی ہورہا ہے۔ اس ریاست اور چرواہے کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے کیلئے جن اقدامات کی ضرورت مڈل مین کی مدد سے ہوئی یا ریاست نے اپنے تئیں کوششیں کیں، تسلسل نہ ہونے کے نتیجے میں وہ کامیاب نہیں ہوسکیں۔ ان تجربات کے نتیجے میں پہلی مرتبہ ریاست کو بلوچستان سے چند ایسی آوازیں ملیں جن آوازوں نے ریاست کے بیانیئے کا نہ صرف پرچار کیا بلکہ قوم پرست سوچ کو ترکی بہ ترکی جواب دینا شروع کیا۔ ان آوازوں کی موجودگی میں ریاست نے جماعت کی ترتیب کا فیصلہ کیا۔ ان آوازوں کو اس جماعت میں شامل کیاگیا۔ مرکزی خیال اچھا تھا لیکن یہ چند آوازیں تھیں ان میں اضافے کا کوئی پیمانہ نہیں رکھا گیا ۔جسکا نقصان ہوا اور اس سیاسی جماعت کا تجربہ چند ایک چیزوں کے علاوہ جس مقصد کیلئے ہوا تھا وہ مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔ اسکے نتیجے میں کچھ ایسے لوگ اس سیاسی پلیٹ فارم سے دور ہوئے جو کہ بہتر سے بہترین کے سفر کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس تجربے کے دوران ہونے والی خرابیوں کو درست کیا جاتا تو اچھے نتائج مل سکتے تھے لیکن اب اس پروجیکٹ پر مٹی ڈالی جا چکی ہے۔ باقی ماندہ پراجیکٹ چند افراد کے سیاسی مفادات کا تحفظ تو کرسکتا ہے ریاست کے کسی کام کا نہیں رہا ہے اور ایسا گزشتہ دو برسوں میں ثابت بھی ہوچکا ہے۔ جو سیاسی قیادت اس پروجیکٹ کو مقتدرہ کی بی ٹیم کہتی تھی وہ تمام سیاسی قیادت اس پروجیکٹ سے نہ صرف مستفید ہوئی بلکہ مستقبل میں بھی مستفید ہونے کی خواہش مند ہے اور رہیگی۔ جو چند آوازیں ریاست کیلئے اہم تھیں آج وہ نظام مملکت میں اہم جگہوں پر ہیں۔ چندماہ کی بحرانی کیفیت میں ایک اچھی کوشش ضرور کررہے ہیں اب ریاست کو مزید ایسی ہی آوازیں تلاش کرنا ہونگی تاکہ ریاست اپنی آواز کو اتنا توانا کرے کہ اسے کسی مڈل مین کی ضرورت نہ رہے۔ اپنی توانا آواز کیساتھ ترقی کے پہیئے کو تیزی سے چلائے تاکہ چرواہے کو یہ یقین ہو کہ ریاست ایک ماں جیسی ہے۔ اس لئے اس چیلنج کو عبور کرنے کیلئے کسی مڈل مین سے کسی خیر کی توقع رکھنا دیوانے کے خواب کی تعبیرکے مترادف ہے ۔اب ریاست نے اگر اس موقع پر یہ فیصلہ نہیں کیا کہ آئندہ پانچ سال بلوچستان میں کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے اور تسلسل کیساتھ کرنا ہے تو پھر ریاست کا چیلنج مسئلہ ہی رہیگا اور اس چیلنج کی مسئلے کی شکل میں موجودگی کا فائدہ ہر فریق حصہ بقدر جثہ اٹھاتا رہیگا۔ ویسے بھی ان دنوں بلوچستان کے چند سیاستدانوں کے دل میںریاست اور پاکستان کی محبت جاگ چکی ہے۔ ان تمام سیاستدانوں نے پانچ سال وزارتوں اور اسمبلی کی رکنیت کیساتھ سلیمانی ٹوپی پہن رکھی تھی اور ریاست اور اسکے چیلنجز سے انکا کوئی لینا دینا نہیں تھاالبتہ تمام فوائد سمیٹنے میں یہ پیش پیش رہے، چاہے وہ ترقیاتی فنڈز ہوں، ٹرانسفر پوسٹنگ ہو یا پھر کمیشن کا حصول۔ اب اگلے پانچ سال برسر روزگار رہنے کیلئے اپنی کارکردگی دکھا رہے ہیں اور دکھاتے رہینگے لیکن کیا اگلے پانچ سال یہ چند افراد ریاست کے چیلنجز کو اپنا چیلنج سمجھیں گے؟ تو جواب نفی میں ہے۔ اسلئے ریاست کو پینسٹھ،بیس اور بارہ کے کلیہ کی ضرب اور تقسیم کرتے وقت اپنے چیلنجز کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ پینسٹھ میں چار سے چھ بارہ اور بیس میں دو اور دو کی تلاش اس چیلنج کا نقطہ آغاز ہوگا۔

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے:

بلوچستان عدم اعتماد کی کہانی۔۔۔شاہد رند

گوادر کی ریت یا سونا اور بلوچی قول۔۔۔شاہد رند

پنوں کی سرزمین اور پانچ کلو میٹر کا ویژن۔۔۔شاہد رند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ 92 نیوز

%d bloggers like this: