اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچستان عدم اعتماد کی کہانی۔۔۔شاہد رند

ان کہانیوں کا لب لباب یہ ہے کہ گوادر کی زمین یا اسکے ساحل کی ریت پچھلی دو دھائیوں سے گولڈ ریٹس کی طرح اتار چڑھاؤ کا شکارہے۔

شاہدرند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچستان کی سیاست میں کچھ عرصے سے بلوچستان عوامی پارٹی موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور بار بار بلوچستان کی قوم پرست قیادت یہ الزام لگاتی ہے کہ راتوں رات ایک نئی جماعت بنائی گئی اور اسے اقتدار سونپ دیا گیا ۔قوم پرست قیادت کا مئوقف اپنی جگہ لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ کل تک دامے درمے سخنے اسی جماعت بی اے پی میںموجود افراد یا شخصیات یا تو ان قوم پرستوں کے اتحادی رہ چکے ہیں یا مل جل کر معاملات چلاتے رہے ہیں ۔قوم پرست قیادت کا بیانیہ سننے والوںکو ٹھیک لگتا ہے لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس جماعت کو ایک تھنک ٹینک نے بنایا ہے۔

اور یہ جماعت راتوں رات نہیں بنی، اس جماعت کو بنانے والا یہ تھنک ٹینک پاکستان کی پارلیمانی سیاست کی ابتداء سے بلوچستان کے الیکٹیبلز کو ہینڈل کرتا رہا ہے۔ ماضی میں ان الیکٹیبلز کو مرکزی جماعتوں کی طرف دھکیل دیتا تھا اور پھر کسی نئے انتخابات تک یہ ہیوی ویٹس کچھ عرصے کیلئے اپنی من مانیاں کرتے نظر آتے تھے لیکن اس بار اس تھنک ٹینک نے نہ صرف انہیں براہ راست اپنی نظروں کے سامنے رکھا ہے بلکہ انہیں ہینڈل کرنے کا طریقہ بھی وضع کردیا ہے جسکی وجہ سے الیکٹیبلز میں تھوڑی بے چینی پائی جاتی ہے کیونکہ ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا لیکن اب ہو رہا ہے۔

بی اے پی کے موجودہ سربراہ جام کمال بلوچستان میں پہلی بار بلوچستان اسمبلی پہنچتے ہی وزیر اعلٰی بنے ہیں اور اس وقت وہ بی اے پی کے سربراہ بھی ہیں۔ جام کمال کی کوئٹہ آمد یا بی اے پی کے بننے سے قبل بلوچستان کے الیکٹیبلز یا ہیوی ویٹ یہ سمجھ رہے تھے کہ انہیں جام کمال کی صورت میں جام یوسف مرحوم کا متبادل مل گیا ہے اسلئے ابتداء میں کچھ مزاحمت کے بعد انہیں جماعت کا سربراہ اور پھر وزیر اعلٰی مان لیا گیا ۔جام کمال ان تمام خیالات کے برعکس ثابت ہوئے کیونکہ انہیں اس کام کیلئے تھنک ٹینک نے منتخب کیا تھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ انکے وزیر اعلٰی بلوچستان بنتے ہی انکے خلاف نہ صرف اپنی جماعت بلکہ اتحادیوں کی طرف سے بھی حملے جاری رہے۔

لیکن جس حکومت کا چند دن چلنا محال تھا وہ تقریباً ڈھائی سال کا عرصہ گزار گئی ہے، کیا یہ ڈھائی سال بڑے اطمینان سے گزرے ؟ایسا ہر گز نہیں ہے چرواہے کے بقول ابتداء میں اپنی جماعت میں موجود ہیوی ویٹس جب ناراض ہوئے تو جام صاحب کے کسی قریبی شخص نے مشورہ دیاکہ انہیں بلا کر بات کریں اور انکے مسائل کو حل کریں ۔یہ اس حکومت کا ایک ڈیفائننگ موومنٹ تھا جب جام کمال نے واضح کہا کہ اگر ابھی سر جھکا کر روٹھوں کو منایا تو آگے چلنا مشکل ہوجائیگا م،اس اقدام کے بعد تاحال پہلے دن کی پالیسی پر کام جاری ہے۔

کوئی مانے یا نہ مانے اس پالیسی کو اپنانے کی بڑی وجہ وہ فری ہینڈ تھا جو جام کمال نے جماعت بننے سے قبل حاصل کیا تھا۔ اب کام کے معاملات میں کچھ لچک ضرور دکھا رہے ہیں لیکن چند اصول وضع کرلئے ہیں اور انہی اصولوں نے تھنک ٹینک کو یہ سوچنے پر مجبور کئے رکھا ہے کہ اب بھی وہ بہترین انتخاب ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان میں صرف ان کے والد جام یوسف کے پاس یہ اعزاز تھا کہ انہوں نے اپنا پانچ سالہ پارلیمانی دور بطور وزیر اعلٰی مکمل کیا، اب جام کمال اس اعزاز کا دفاع کر سکیں گے یا نہیں یہ اسلئے کہنا قبل از وقت ہے کہ ان ڈھائی سالوں میں دو ناکام کوششیں ہو چکی ہیں ۔

جن میں وزیر اعلٰی بلوچستان کو تبدیل کرنے کی بات کی گئی پہلی کوشش کو تو ابتداء میں ہی حکومت کے قیام کے چند مہینوںکے اندر شٹ اپ کال مل گئی تھی۔ چرواہے کا کہنا ہے کہ بی اے پی کے چند اراکین کچھ اتحادی اور اپوزیشن ابھی پہلی صف بندی کررہے تھے کہ معاملہ یہاں الجھ گیا کہ متبادل کون ہوگا؟ ابھی اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی کہ تھنک ٹینک نے فی الفور ایکشن لیا اور کسی مہم جوئی سے قبل مہم جوئی کے خیالات بننے والوں کو بتا دیا کہ ایسا کوئی اقدام قابل قبول نہیں ہوگا ۔چرواہے کہ بقول پہلی مہم کی ناکامی کے بعد بھی جام کمال نے اپنا رویہ نہیں بدلا تو جام کمال مخاالف لابی نے فیصلہ کیا۔

کہ اب خود کچھ کرنے سے قبل تھنک ٹینک میں موجود برینز کو واش کیا جائے، ادھر نتیجہ ففٹی ففٹی رہا توکچھ نہ کچھ ہوجائیگا اور مخالف گروپ کو کچھ امید ہو چلی جب تھنک ٹینک کا فیصلہ کن اجلاس جاری تھا کہ وہاں موجودسربراہ کے نمبر ٹو نے محسوس کیا کہ تھنک ٹینک کے کچھ ارکان ایسا چاہتے ہیں کہ جام کمال کو فارغ کرکے بی اے پی سے ہی کوئی بندہ لے آئیں، اپوزیشن کو بھی اعتراض نہ ہوگا اس وقت تھنک ٹینک میں دسرے بڑے عہدے پر موجود شخصیت نے اپنے اختیار کو استعمال کیا اور واضح کہا کہ وہ اس فیصلے کی حمایت نہیں کرینگے چاہے نتائج جو بھی ہوں۔

اور پھر ایسے دوسری کوشش بھی ناکام ہوئی۔ ابھی گزشتہ روز پھر ایک نئی مہم جوئی کیلئے کچھ ڈرائنگ رومز کے ٹیبل پر گفتگو ہوئی ہے اور اب تیسری کوشش کیلئے صف بندی جاری ہے، حملہ کب اور کیسے کرنا ہے یہ طے نہیں ہوا ہے لیکن اگر حملہ کرنے والے یہ سمجھ رہے ہیں تھنک ٹینک میں چند افراد بدلے ہیں تو یہ موقع سنہری ہے ابھی معاملات فائنل کرکے مقصد کو حاصل کرلیا جائے لیکن وہ بھول گئے ہیں کہ تھنک ٹینک میں نئی مینجمنٹ کے بارے میںتاثر ہے کہ وہ پچھلی مینجمنٹ سے زیادہ سخت ہے اسلئے کہیں یہ تیسری کوشش بھی ناکام نہ ہوجائے ۔

یہ بھی پڑھیے:

گوادر کی ریت یا سونا اور بلوچی قول۔۔۔شاہد رند

پنوں کی سرزمین اور پانچ کلو میٹر کا ویژن۔۔۔شاہد رند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ ڈیلی آزادی کوئٹہ

%d bloggers like this: