اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نئے صوبوں کے قیام کا بھاری پتھر۔۔۔||اسلم اعوان

اسلم اعوان سرائیکی وسیب کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں ،وہ ایک عرصے سے ملک کے سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

اسلم اعوان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرکزی دھارے کے میڈیا میں نئے صوبوں کے قیام کے حوالہ سے شروع ہونے والی بحث سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ ہماری ریاستی مقتدرہ ایک بار پھر نئے صوبوں کے قیام کی خاطر مختلف تجاویز بارے عوامی رائے جانچنے کی سکیم پر عمل پیرا ہے۔ نئے صوبوں کی قیام کی ضرورت و اہمیت سے تو انکار ممکن نہیں البتہ مجوزہ صوبوں کی سیاسی ساخت، جغرافیائی ہیئت اور ثقافتی و لسانی شناخت بارے گہرے تنازعات اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں کھڑے ہیں، ان تنازعات کو کم کرنے کے لیے جس قسم کے صبر، استدلال اور تحمل پہ مبنی غیر معمولی مشق کی ضرورت تھی وہ عنقا ہے۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید سٹیٹ کرافٹ کے مطابق تمام بڑے ممالک کو مربوط حکمرانی کے مقاصد کے لئے چھوٹی اکائیوں میں منقسم کر کے زیادہ مضبوط و فعال بنایا گیا تاکہ مملکت کی اکائیوں پہ مشتمل صوبوں، ریاستوں یا منطقوں کو حسب ضرورت انتظامی، آئینی، قانون سازی اور مالیاتی اختیارات تفویض کر کے فیصلہ سازی کے عمل میں مقامی لوگوں کی شرکت یقینی بنانے، مشترکہ وسائل کی تقسیم اور اختیارات کے استعمال میں زیادہ سے زیادہ شہریوں کی تلویث کے اسباب مہیا ہو سکیں۔

ہمارے پڑوس میں ہندوستان جیسی لسانی، مذہبی اور سیاسی طور پہ متنوع ریاست کو منظم و متوازن رکھنے کی خاطر 28 ریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام 8 علاقوں پہ مشتمل متنوع یونٹس بنائے گئے۔ آزادی کے وقت ہندوستانی ریاستوں کی تعداد صرف 9 تھی تاہم نئی تنظیم نو کی اساس سیاسی و تاریخی تحفظات کی بنیاد پر رکھی گئی، ابتداء میں ریاستوں کی یہ تنظیم نو عارضی بنیادوں پر کی گئی، 1953 میں تشکیل پانے والے ریاستی تنظیم نو کمیشن نے دو سالوں کی مساعی کے بعد مملکت کو 16 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام 3 علاقوں میں ری آرگنائز کرنے کے لئے 1955 میں پہلی رپورٹ دی، حکومت نے نومبر 1956 میں تنظیم نو ایکٹ منظور کر کے ملک کو 14 ریاستوں اور 6 مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔

 

موجودہ سیاق و سباق میں 24 کروڑ آبادی کی حامل پاکستانی مملکت کو متوازن انتظامی یونٹس میں تقسیم کرنے میں تاخیر نا انصافی ہو گی جس کا نہ صرف وقت آن پہنچا بلکہ وقت گزر چکا ہے لیکن یہ کہ ہمارے قومی اتحاد کے مفاد میں مسئلہ زیر بحث کے لئے متوازن اپروچ ضروری ہے۔ پڑوسی ملک ہندوستان میں پہلے مرحلہ میں انگریز دور کی 555 شاہی ریاستوں کو بھارتی وفاق میں ضم کرنے کی خاطر انتظامی یونٹس کی چار قسمیں پیدا کی گئیں اور ماضی قریب ( 1947 ) میں پنجاب کی تقسیم کے ردعمل میں بھڑکنے والے مسلم، سکھ فسادات کے پیش نظر 1953 میں عوام کی لسانی و ثقافتی شناخت کے فطری تقاضوں کے پیش نظر مشرقی پنجاب کو لسانی رنگوں کے مطابق تقسیم کرنے کی ٹھانی گئی، بالآخر ریاستی تنظیم نو کمشن کی سفارشات کو بڑے پیمانے پر قبولیت کے بعد مرکزی حکومت نے 1956 میں پہلے پنجاب سے ہریانہ اور چندی گڑھ کو الگ کر کے اسے تین صوبوں میں منقسم کیا، بعد ازاں 1966 میں ہماچل پردیش کو پنجاب سے جدا کر کے اسے متوازن بنا لیا، اس سے قبل ریاست آندھرا پردیش کی تشکیل بھی لسانی خطوط پر ہوئی تھی۔

اس کے بعد 1970 کی دہائی میں وہاں زبان اور نسل کی مخلوط بنیادوں پر میزورم، تریپورہ، میگھالیہ، ناگالینڈ، اروناچل پردیش، منی پور، سکم اور گوا جیسی نہایت چھوٹی ریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام علاقے استوار ہوتے نظر آئے، اروناچل پردیش کے سوا متذکرہ بالا تمام یونٹس کا کل رقبہ 90,000 مربع کلومیٹر سے بھی کم ہے۔ سنہ 2000 کی دہائی میں اتراکھنڈ، چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ کو ایک ہی زبان والی تین بڑی ریاستوں میں تقسیم کیا گیا، ریاست تلنگانہ 2013 میں بنی، اس وقت بھارت میں اتنی چھوٹی ریاستیں بھی ہیں جہاں سے صرف ایک ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوتا ہے اور یو پی جیسی میگا اسٹیٹس بھی موجود ہے جہاں سے 80 ممبران پارلیمنٹ اور مہاراشٹرا سے 48 اراکین پارلیمنٹ منتخب ہوتے ہیں۔

تنظیم نو کے پورے عمل نے اتر پردیش کو نظرانداز کر دیا لیکن اب سیاسی مفکرین مستقبل کے تناظر میں خصوصاً یوپی کی تنظیم نو کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ یوپی نہ صرف ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست ہے بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک کی سب سے بڑی ذیلی قومی اکائی ہے۔ یو پی کا رقبہ 2,40,928 مربع کلومیٹر ہے جو 2000 میں نئی ریاست اتراکھنڈ کے بننے سے پہلے 2,95000 مربع کلومیٹر تھا۔ آبادی کے لحاظ سے یہ ہندوستان کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے، 24 کروڑ سے زیادہ آبادی کے ساتھ یہ ملک کا تقریباً 17 % اور اس کا رقبہ مملکت کے مجموعی رقبہ کا 7.3 % ہے۔

سیاسی طور پر اس کے لوک سبھا میں 80 اور ایوان بالا راجیہ سبھا میں 31 نمائندگان ہیں۔ اسی کارن یو پی اقتصادی اور صنعتی طور پر پسماندہ ریاست ہے جسے کئی لاینحل مسائل نے گھیرا ہوا ہے۔ بھارتی ریاستی تنظم نو کمشن کی رپوٹ سے قطع نظر ہمارے مسائل لسانی، نسلی اور ثقافتی اعتبار سے زیادہ پیچیدہ ہیں۔ معاشی خوشحالی اور مجموعی ترقی، ثقافتی، لسانی، سماجی شناخت، جوابدہ انتظامی ڈھانچہ، وسائل کی منصفانہ تقسیم، لوگوں کی مرضی کی حکمرانی کے علاوہ خطہ کے لوگوں کی نمائندگی آج سائنسی تنظیم نو کی متقاضی ہے۔

ہمارے ہاں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی تنظیم نو کا معاملہ ہمیشہ محل نظر رہا تاہم اکثر قومی سلامتی اور بسا اوقات دفاعی تقاضوں کو جواز بنا کر اس اہم مسئلہ کو التواء میں رکھنا پڑا لیکن امر واقعہ یہی تھا کہ پچھلی پون صدی کے دوران ہماری مملکت بارے بنیادی فیصلے لینے کی راہ میں امریکی اور برطانوی مفادات حائل رہے لیکن 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد جنوبی ایشیا پہ عالمی قوتوں کی گرفت کمزور ہونے سے ہمیں اپنی بقاء کے تقاضوں کے مطابق قومی پالیسی بنانے کی مہلت مل گئی، چنانچہ عین ممکن ہے کہ اب ریاست کی تنظیم نو کا عمل کسی نہ کسی صورت ظہور پذیر ہو جائے۔

شنید ہے کہ ہماری مقتدرہ تاریخی پس منظر کے حامل ان پرانے انتظامی یونٹس میں تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ سائنسی بنیادوں پہ تنظیم نو کا سوچ رہی ہے، جن میں ریاست بہاولپور، نئی شناخت کا حامل صوبہ ملتان، وسطی پنجاب، شمال مغربی پنجاب کے ضلع جھنگ، سرگودھا، میانوالی بھکر، لیہ اور ڈیرہ اسماعیل خان پہ مشتمل صوبہ سریاب اور خطہ پوٹھوہار کو ہزارہ ڈویژن سے جوڑ کے نیا پوٹھوہار صوبہ بنانے کی تجویز زیر غور ہے۔ اسی طرح خیبر پختون خوا کی تاریخی اہمیت کی حامل ریاست چترال، ہنزہ، ناگرہ، دیر، سوات، پھولارا اور امب شریف کی نئی جغرافیائی تشکیل کے علاوہ ہشت نگر یعنی وادی پشاور، جس میں شامل چارسدہ، مردان، صوابی، نوشہرہ اور اس سے ملحقہ قبائلی اضلاع پہ مشتمل وسطی صوبہ۔

 

اسی طرح کوہاٹ سے لے کر بنوں، لکی مروت اور ملحقہ قبائلی اضلاع پہ مشتمل جنوبی صوبہ بنانے کا سوچا جا رہا ہے۔ رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان کے دو الگ ثقافتی منطقے ہیں جن میں ایک طرف بلوچ اور دوسری جانب ایسے پشتون قبائل آباد ہیں، جو قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختون خوا کے علاوہ جنوبی افغانستان کے پشتونوں کے ساتھ متحد ہونے کی جدوجہد میں سرگرداں ہیں۔ اس نسلی، لسانی اور جغرافیائی تنوع کے باوجود سیاسی مفکرین بلوچستان کے شہریوں کی سیاسی آزادیوں اور سماجی ترقی کو چھوٹے انتظامی یونٹس کی تشکیل پہ منحصر دیکھتے ہیں یعنی ایسے چھوٹے انتظامی یونٹس جہاں اچھی حکمرانی، معیاری ترسیل کا نظام اور مجموعی ترقی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں مقامی آبادی کی شمولیت ممکن ہو سکے۔

تقسیم سے قبل بلوچستان، شاہی ریاست قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ پہ مشتمل تھا، تھوڑی سی رد و بدل کے ساتھ ان پرانے انتظامی، ثقافتی اور لسانی یونٹس کی بحالی وسیع رقبہ پہ محیط علاقوں پہ انتظامی کنٹرول کو موثر اور بلوچستان میں ترقی کے عمل کو مہمیز دے سکتی ہے، بلوچوں کو سراوان اور جھلاوان کی تاریخی شناخت بھی مل سکتی ہے۔ اسی طرح سندھ کی پرانی ریاست خیر پور کی سائنسی بنیادوں پہ تشکیل نو کے علاوہ کراچی حیدرآباد پہ مشتمل ایک الگ انتظامی یونٹس کا قیام وقت کا تقاضا ہے۔

 یہ بھی پڑھیے:

کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان

اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان

پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان

افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان

عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک

اسلم اعوان کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: