اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کاشتکاروں کے مسائل اور صوبے کا مسئلہ!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہفتہ شہر اقتدار اسلام آباد میں گزرا ملتان سے اسلام آباد ٹرین مارچ تھا اور اسکے علاوہ سالانہ جھوک میلہ بھی تھا مسلم لیگ ن کے سینیٹر رانا محمود الحسن نے اپنے صدارتی خطاب میں وسیب کی محرومی کا ذکر کیا خصوصاً انہوںنے کہا کہ بلوچستان میں وسیب کے مزدور پنجا ب کے نام پر قتل ہوئے وزیر اعظم کو اسکا نوٹس لینا چاہئے۔ رانا محمودالحسن نے کہا کہ اگر آج اس طرح کے مسائل پر قابو نہ پایا گیا تو آگے مشکلات پیش آسکتی ہیں اسلام آباد پریس کلب میں سینئر صحافیوں سے ملکی مسائل پر گفتگو ہوئی صحافیوں کا پہلا سوال الیکشن کے بارے میں تھا میں نے کہا کہ کرسی اقتدار کا کھیل تو ہوتا رہے گا مگر انسانی مسائل کی طرف توجہ کی ضرورت ہے ملک کا عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پس چکا ہے تعلیم ،صحت اور روزگار کے مسائل نے عام آدمی کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ سینئر صحافیوں نے پوچھا کہ وسیب سے صوبے کاوعدہ ہوا تھا مگر کسی جماعت نے وعدہ وفا نہیں کیا اب اگرالیکشن ہوتے ہیں تو وہی پرانے شکاری نئے جال لیکر آئینگے اور ایک بار پھر لوگوں کو صوبے کے نام پر بیوقوف بنایا جائے گا ۔اس کا حل کیا ہے؟دوستوں کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ ایک ہی حل ہے کہ مقتدر قوتیں صوبے کے مسئلہ پر اپنا کردار ادا کریں کہ صوبے کے قیام سے ملک مضبوط اور مستحکم ہوگا ۔ اسلام آباد سے واپسی پر دھریجہ نگر آیا ہو ںپاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما مخدوم سید احمد محمود کے چچا مخدوم زادہ حسین محمود کا پچھلے دنوں انتقال ہوا ،تعزیت کیلئے مخدوم ہاؤس جمالدین والی گیا ٹریفک بلاک تھی ۔ ڈیڑھ گھنٹے کا سفر تین گھنٹوں میں طے ہوا ۔فاتحہ کے بعد مخدوم احمد محمود نے خود ہی ذکر چھیڑا کہ سرائیکی صوبہ وسیب کاآئینی حق ہے کہ سینٹ سے دوتہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل پاس ہوچکا ہے اس لحاظ سے صوبے کے مسئلہ کو آئینی تحفظ حاصل ہے ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے قیام کا معاملہ آئینی طور پر آگے بڑھایا گیا کہ پنجاب اسمبلی نے صوبے کیلئے قرارداد منظور کی پنجاب اسمبلی کی وہی قرارداد قومی اسمبلی کو بھیجی گئی قومی اسمبلی نے ا س پر صوبہ کمیشن تشکیل دیا جس میں پارلیمان کے نمائندو ںکے علاوہ دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ایکسپرٹ اس میں شامل تھے صوبہ کمیشن نے دوکی بجائے ایک صوبے کا قیام تجویز کیا صوبہ کمیشن کی اسی رپورٹ پر ایوان بالا سینٹ سے دوتہائی اکثریت کے ساتھ پاس کیا گیا اب اس سے مسئلہ کو زیادہ دیر لٹکایا نہیں جاسکے گا اور یہ آئینی مسئلہ ہر صورت حل کرنا ہوگا۔ جمالدین والی سے شام کو واپسی ہوئی شام ڈھلتے ہی دھند پڑنا شروع ہوئی، سرائیکی زبان میں دھند کو ’’کہیڑ‘‘ کہتے ہیں۔ موسموں کی تبدیلیوں کے باعث سرائیکی وسیب میں گزشتہ سال بدترین سیلاب آئے اس سے پہلے 2010ء میں آنے والے سیلاب سے ہونے والی تباہی کا ازالہ اور سیلاب متاثرین کی بحالی اب تک نہیں ہوئی ۔ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کی سزا بھگتنا پڑ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے پاکستان کے سیلاب زدہ دوروں کے دوران کہاتھا کہ پاکستان میں آنے والی سیلاب کی تباہی کا باعث ترقی یافتہ ممالک ہیں ۔آج میں نے اپنے گاؤں دھریجہ نگر میں دھند دیکھی ہے تو مجھے آنے والے وقتوں میں خطرات محسوس ہونے لگے موسمی تغیرات پر قابو نہ پایا گیا تو اسکا نقصان مستقبل میں غریب ملکوں کو زیادہ ہوسکتا ہے ۔ دیہی اور شہری زندگی کافرق دیہات میں آکر محسوس ہوتا ہے ہم شہری مسائل پر بہت لکھتے ہیںمگر دیہی مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ تمام مسائل کا لکھنا دشوار ہی نہیں مشکل بھی ہے دھریجہ نگر میں آکر دیکھا تو کاشتکاروں کے لئے ایک مسئلہ بیج کی فراہمی ہے پورے صوبے میں سیڈ کا سب سے بڑا مرکز رحیم یارخان ہے پنجاب میں سب سے زیادہ سیڈ کارپوریشنز ضلع رحیم یارخان میں ہیں مگر ان کارپوریشنز کا مقصد دولت جمع کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے حالانکہ خالص بیج سے زرعی پیدا وار میں اضافہ ملک اور قوم کو مشکلات سے نکا ل سکتا ہے ناقص بیج کے علاوہ اوور چارجنگ کے مسائل اپنی جگہ ہیں بیج کے علاوہ کھا دنہیں مل رہی یوریا کھا د کی قیمت 3410روپے فی بوری ہے جبکہ بلیک میں 4500میں فروخت ہورہی ہے دیگر مسائل بھی ہوشربا ہیں وسیب میں پانی کے مسائل ہیں قابل کاشت تو کیا زیر کاشت رقبے کیلئے بھی پانی مہیا نہیں ہے کاشتکار کو ٹیوب ویل پر انحصار کرنا پڑتا ہے تیل اور بجلی اتنی مہنگی ہے کہ تیل کو آگ لگی ہوئی ہے اور جب بجلی کا بل آتا ہے تو غریبوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں اس وقت تک مسئلہ حل نہیں ہوگا جب تک کاشتکار کو زراعت کیلئے بجلی مفت فراہم نہیں کی جائے گی ۔گندم کے بعد کپاس کا بیج کی تیاری کا عمل شروع ہے کاشتکاروں سے بیج کیلئے کپاس خریدی جارہی ہے مگر انکو نرخ نہیں مل رہے اس مرتبہ کپاس کے کاشتکا ر بہت نقصان میں رہے خرچے پورے نہیں ہوئے کھاد ،بیج اور زرعی ادویات اتنی مہنگی ہیں کہ کپاس کی پیداواری لاگت دس ہزار روپے من ہے جبکہ کپاس چھ سے سات ہزار روپے من میں فروخت ہورہی ہے حکومت کی طر ف سے مقرر کئے گئے نرخوں پر عملدارآمد نہیں ہوسکا۔ اسکا فائدہ انڈسٹری اور سیڈ کارپوریشنز نے اٹھا یا ہے رحیم یارخان میں سیڈاونر زاونے پونے کپاس خرید کررہے ہیں حکومت نے آٹھ ہزار پانچ سوروپے نرخ مقرر کیا مگر عملدارآمد کون کرائے اب چند ماہ بعد سیڈ کارپوریشن والے سات ہزار روپے من میں خریدا گیا بیج تین گنا زائد قیمت پر فروخت کریں گے۔ دھریجہ نگر میں آکر پتہ چلا کہ سب سے خطر ناک معاملہ ناقص اور ملاوٹ شدہ زرعی ادویات کا ہے جس کے باعث اس مرتبہ دھان کی فی ایکڑ پیداوار اوسط پیداوار تین سے چار گناہ کم ہوئی ہے اور دھان کا ریٹ بھی گزشتہ سال کی نسبت بیس سے تیس فیصد کم ہے کاشتکارو ں نے بتایا کہ حکومت نے پیداوار کے اضافے کیلئے حدف مقرر کئے مگر کاشتکاروں سے جو سلوک ہورہا ہے اس سے گندم کی پیداوار کا ہدف بھی پورانہ ہونے کا خدشہ ہے حکومت اس پر توجہ مبذول کرے۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: