قم سے باہر جنوب میں حاجی آبادِ آقا سڑک کے بائیں جانب ہے جبکہ دوسری طرف جمکران ہے۔ ہماری گاڑی کاشان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آگے حصارِ شینہ، جنت آباد اور زنبروک آتے ہیں۔ پھر ذرا آگے وہ مقام آتا ہے جہاں صوبہ قم ختم ہو رہا ہے اور صوبہ اصفہان کا آغاز ہو رہا ہے۔ گاڑی کچھ دور اور چلی تو مہرآباد کا بورڈ نظر آیا۔ لیجیئے جس طرح انگلینڈ میں لیسٹر نام کا شہر ہے مگر لیسٹر اسکوائر لندن میں ہے۔ اسی طرح آکسفرڈ نام کا شہر ہے اور آکسفرڈ سرکس لندن میں ہے۔ اسی طرح قم سے اصفہان جانے کے راستے میں ہے مہر آباد آتا ہے مگر مہرآباد ایئرپورٹ تہران میں ہے۔آگے امین آباد کے ساتھ آب شیریں ہے۔ آگے میدانِ شہدا، شہرک انقلاب اور شہرک گلستان ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ آگے سرد خانہ کوثر کاشان آتا ہے۔ ہمیں دُور سے ہی کاشان شہر کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ یہ ٹول پلازہ ہے۔ ذرا آگے چوک سے بائیں طرف امام رضا بلیوارڈ شہر کی جانب مڑ رہی ہے۔ ہم کاشان کے قریب سے گزر رہے ہیں۔ ہم 16ویں صدی کے فارسی کے عظیم شعرا محتشم کاشانی اور کلیم کاشانی کو یاد کر رہے ہیں۔ ہمیں 13ویں صدی کے ایک اور فارسی شاعر افضل الدین کاشانی کی یاد آ رہی ہے۔ وہ بابا افضل کاشانی بھی کہلاتے تھے۔ ہمارے ذہن میں محتشم کاشانی کے مصرعے گونج رہے ہیں۔
در بزمِ حکیماں زھے شور انگیز
نےتابِ نشستن است ونےپائےگریز
از بہر من تنگ سراب اے ساقی
مینا بہ سرِ پیالہ کج دار و مریز
(داناؤں کی محفل میں مئے سے جوش و ولولہ ہے۔ نہ بیٹھنے کی تاب ہے اور اس سے گریز ممکن ہے۔ اے ساقی میرے لئے یہ سراب تکلیف دہ ہے۔ کج دار( خم دار ) ٹیڑھےپیالے میں شراب مت انڈیل)
ہمیں محتشم کاشانی کی قبر دیکھنے کی حسرت ہے، کہتے ہیں کہ قبر کے اوپر سر سے پاؤں تک اس کی اپنی ایک مختصر بحر کی غزل لکھی ہے۔ ہم کاشان جا پاتے تو کاشان کے شعراء کی قبروں پر حاضری دیتے ۔ ہم اپنے ملک میں تو بابا بلھے شاہ، شاہ حسین، شاہ لطیف، بابا فرید، سچل سرمست ، خواجہ غلام فریداور پیرمہر علی شاہ کی درگاہوں پر توجا چکے ہیں اور ایران میں طوس کے ابوالقاسم فردوسی، نیشاپور کے عمرخیام اور فریدالدین عطار کے مزار پر بھی حاضری دے چکے ہیں مگربابا فضل کاشانی، محتشم کاشانی اور کلیم کاشانی کے مقابر پر نہ جا سکنے کا ملال لئے آگے اصفہان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آپ بابا افضل کاشانی کے دو شعر پڑھ لیجئے۔
گرباتوام از توجان دہم آدم را
از نور تو روشنی دہم عالم را
چوں بی تو شوم قوتِ آنم نبود
کز سینہ بہ کامِ دل برآرم دم را
(اگر تیرے ساتھ ہوں تو تجھی سے آدم کو جان عطا کرتا ہوں۔ تیرے نُور سے پورے عالم کو پُرنور کردیتا ہوں۔ جب تیرا ساتھ نہ ہو تو مجھ میں وہ طاقت نہیں رہے گی کہ اپنے سینے سے لے کر اپنا ہی دم نکال لوں۔ ترجمہ بشکریہ ڈاکٹر سحرگُل)
ہم کاشان سے جعفرآباد کے صنعتی شہر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آگے دائیں طرف شادیان ہے۔ بائیں طرف ابوزید آباد آتا ہے۔ بائیں طرف ہی حسن آباد آتا ہے۔ آگے متین آباد ،دیہہ آباد، کریم آباد، بادرود اور عباس آباد یکے بعد دیگرے ایک قطار کی صورت آتے ہیں۔ کچھ اور چل کر شورغستان آتا ہے۔ کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد محمدآباد کے آثار نظر آتا ہے۔ اب لگتا ہے کہ ہم اصفہان کے قریب پہنچنے والے ہیں۔ اب اصفہان کا مشرقی صنعتی علاقہ نظر آرہا ہے۔ یہاں سے آگے قلعۂ ترکان ہے۔ آگے مولانا صفی کا علاقہ آتا ہے۔ اب تو یقیناً ہم اصفہان پہنچ چکے ہیں۔
گاڑی ایک تنگ گلی کے کونے تک پہنچ کر ہمیں اُتار دیتی ہے۔ آگے جو دورویہ سڑک ہے اس پر کسی قسم کا ٹریفک نہیں چلتا۔ بلکہ یہاں پر ایئرپورٹ کی کھلی گاڑیوں جیسی شٹل گاڑیاں لوگوں کو ہوٹلوں سے اُٹھا کر مرکزی شاہراہ تک لے جاتی ہیں جہاں سے پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیاں، ٹیکسیاں یا کاریں رواں دواں ہوتی ہیں۔ شہر کے وسط میں کچھ سال پہلے دریائے زیاندہ بہتا تھا مگر اب اس کا رُخ موڑ دیا گیا ہے۔ اب دریا کی گزرگاہ موجود ہے مگر دریا موجود نہیں۔ جہاں سے دریا گزرتا تھا وہاں وہاں دریا کے اندر یا اس کے کناروں کی زمینوں پر قبضہ نہیں ہوا۔
گاڑی ہمیں جس گلی میں اُتارتی ہے اس کی دائیں جانب ہوٹل کا پہلو ہے اورہوٹل کا مرکزی دروازہ بڑی سڑک پر ہے اور بڑی سڑک پر ہماری گاڑی نہیں آسکتی۔ ہم اپنا سامان گاڑی سے اُتار کر ہوٹل کے مرکزی دروازے پر لے آتے ہیں۔ یہ ہوٹل پارسیان ہے۔ اس کا کمرہ 407 ہمیں الاٹ ہوتا ہے۔ ابھی خاصہ وقت ہے۔ ابھی کھانا کھا کر شہر کی طرف نکلنے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ہم سامان کمروں میں رکھ کر ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں آتے ہیں اور کھانے سے فارغ ہو کر ہوٹل سے باہر آجاتے ہیں۔ شٹل گاڑی ہمیں مرکزی سڑک پر لے آتی ہے۔یہاں ہمیں ایک اور گاڑی پر کہاجاتا ہے۔ اب اصفہان میں یہ گاڑی ہمارے ساتھ رہے گی ۔ہم ورزش گاۂ سجادی، ہشت بہشت اسٹریٹ اور خورشید اسپتال کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سعدی اسٹریٹ پر مڑ کر ایک جانب کو گاڑی روک کر نیچے اتر آتے ہیں اور گلی میں سیدھے چل پڑتے ہیں۔ ہم کچھ دیر تک پیدل چلتے ہوئے ایک ایسے مقام کے قریب پہنچ جاتے ہیں جو اصفہان کو نصف جہان بنانے میں اپنا بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ جی ہاں ہم نقشِ جہاں میں داخل ہو رہے ہیں۔ اسے میدانِ شاہ بھی کہا جاتا رہا ہے۔ اس کی تعمیرسوا چار سو پہلے شروع ہوئی اور اس کے مکمل ہونے تک 31 سال کا عرصہ لگا۔ گویا اس کی تعمیر1598ء سے 1629ء تک جاری رہی۔ ادھر ہمارے برِصغیر میں اس نقشِ جہاں کی تعمیر کے آغاز پر جلال الدین اکبر کی حکمرانی تھی اور جب یہ تعمیر 31 سال میں مکمل ہوئی تو اکبر کے بعد جہانگیر بھی دنیا چھوڑ چکا تھا اور ہندوستان کا تخت شاہجہان کے تصرف میں آ چکا تھا جو نقشِ جہان کی تکمیل سے ایک سال پہلے 1628ء میں اپنے بھائی کی آنکھیں نکلوا کر تخت و تاج و مسند سنبھال چکا تھا۔ نقش جہان کی بنیاد صفوی بادشاہ شاہ عباس نے رکھی۔ شاہ عباس نے جس سال اس جگہ کی تعمیر کا فیصلہ کیا اسی سال اس نے ایک اور بڑا فیصلہ یہ بھی کیا کہ اس نے اپنا پایۂ تخت قزوین سے اصفہان منتقل کرنے کا فرمان جاری کیا۔ قزوین اور اصفہان کا درمیانی فاصلہ 470 کلو میٹر ہے۔ قزوین کوہ البرز میں تہران کے شمال میں واقع ہے۔ شاہ عباس 27 جنوری 1571ء کو افغانستان کے شہر ہرات میں پیدا ہوا اور 17 سال کی عمر میں 1588ء میں اس نے تخت سنبھالا۔ دس سال بعد دارالحکومت کی منتقلی کا فیصلہ کیا اور اسی سال نقش جہان کی تعمیر کا بھی آغاز ہوا۔ صفوی خاندان کے اس پانچویں بادشاہ کو عباسِ عظیم کہا جاتا ہے۔ عباس شاہ محمد خدابندہ کا تیسرا بیٹا تھا۔ ایران تاریخ کے مورخین نے شاہ عباس کا شمار ایران کے عظیم بادشاہوں میں کیا ہے۔بیٹے عباس نے والد محمد خدابندہ کی زندگی میں ہی تخت سنبھال لیا تھا۔ خدا بندہ بیٹے کے تخت نشین ہونے کے سات سال بعد تک زندہ رہا۔(جاری ہے)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر