تالار فردوسی میں داخل ہوئے تو اس وسیع وعریض آفیٹوریم کےعجیب دلفریب خوابناک ماحول میں بڑی دلکشی محسوس ہوئی۔ دائیں اور بائیں دیواروں پر شاہنامہ کی داستانوں کے کرداروں کے مہارت سے بنائے گئے نقش حقیقت کی عکاسی کر رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ دیواروں پر موجود کردار ہم سے مکالمہ کرنے کیلئے دیواریں چھوڑ کر ہمارے رُوبرو آ کھڑے ہوں گے۔فردوسی نے شاہنامہ لکھنے میں 33 سال صرف کئے۔ اور ہمارے کھڑی شریف کے میاں محمد نے 33 سال کی عمر میں اپنی شہرۂ آفاق مثنوی سیف الملوک لکھ کر مکمل کر لی تھی۔ فردوسی نے ایک ہزار 46 سال قبل 977ء میں شاہنامہ لکھنے کا آغاز کیا اور وہ اسے 1010ء تک لکھتا رہا۔ کئی مقامات پر شاہنامہ کے اشعار کی تعداد 60 ہزار اور بعض دیگر مقامات پر 50 ہزار بتائی گئی ہے۔ شاہنامہ میں مختلف بادشاہوں کی داستانیں ہیں جن میں مختلف کردار ہیں جو ان داستانوں کو ایک ہزار سال بعد بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس شاہنامہ کے بعض کردار حقیقی جبکہ بعض دیگر دیومالائی ہیں۔ شاہنامہ کا آغاز دنیا کے وجود میں آنے سے ہوتا ہے اور اس کی داستانیں مسلمانوں کے ہاتھوں ایران کی فتح تک چلتی ہیں۔
فردوسی کے اہم کرداروں کے نام حروف ابجد کے اعتبار سے کچھ اس طرح ہیں۔ الف سے ارش، افراسیاب، آبتین ،ارنواز، ارمین اور ارمان ہیں۔ ارش کمان گیر کی داستان آپ ملت محل کے باب میں پڑھ چکے ہیں۔ افراسیاب شاہنامہ کا مرکزی کردار ہے۔ آبتین فریدون کا باپ ہے۔ ارنواز جمشید کی دوبیٹیوں میں سے ایک بیٹی ہے۔ ضحاک ارنواز اور اس کی بہن شہرناز کو زبردستی اُٹھا کر اپنے محل میں لے آتا ہے اور ان سے شادی کر لیتا ہے مگر جب فریدون ضحاک کو شکست دے کر اسے کوہِ دماوند میں قید کردیتا ہے تو وہ پھر جمشید کی بیٹیوں سے شادی کرلیتا ہے۔ اسی طرح دیگر کردار مختلف روپ میں سامنے آتے ہیں۔
(ب )سے فردوسی کے چار معروف کردار بابک، برباد، بیژن اور بہرام ہیں۔
ای(E) سے فردوسی کے کردار کانام اسفندیار ہے۔ اس کے دیگر اہم کردار کیکاؤس، رستم کے سات مزدور ، اس کا بیٹا سہراب اور مازندران ہیں۔ شاہنامہ میں 47 بادشاہوں، تین ملکاؤں کی داستانیں بیان کی گئی ہیں۔
ہمارے سامنے کیکاؤس کی تصویر پینٹنگ کی شکل میں ہے۔ ایرانی مصوری میں رنگوں کا استعمال نہایت مہارت اور مکمل ترتیب سے کیا جاتا ہے۔ پینٹنگ میں داستانیں اور ان کے زاویے، اشکال در اشکال، آئینہ در آئینہ نظرآتے ہیں۔ وہ فریدون ہے جو کوہ البرز پر دوڑا چلا جا رہا ہے۔ ضحاک اور کاوہ آہن گر کا قصہ آپ پڑھ چکے ہیں۔ جس میں کاوہ آہن گر عوام کا ایک ہجوم لے کر ضحاک کے محل تک آتا ہے پھرضحاک کے تخت و تاج کا فیصلہ عوام اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔
شاہنامہ میں ایک کردار فریدون کا بھی ہے۔ اس کا سابقہ بھی ضحاک سے پڑتا ہے۔ ضحاک بچپن سے غصیلا، جذباتی، مشکلات کھڑی کرنے والا تھا۔ وہ گھوڑوں کا شوقین تھا۔ اس نے دس ہزار گھوڑے پال رکھے تھے۔ اس کہانی میں ضحاک کاوہ آہن گر کے 18 میں سے 17 لڑکوں کو قتل کرچکا ہوتا ہے اور وہ اپنے 18ویں بیٹے کی باری آنے پر بغاوت کرتا ہے اور بازار میں جاکر عوام کو جمع کرتا ہے۔ وہ اپنا ایک تہہ بند لاتا ہے اور اسے اپنا پرچم بناتا ہے۔ وہ کوہِ البرز سے فریدون کو ساتھ لے کر آتا ہے۔ ضحاک سے لڑائی سے پہلے فریدون کاوہ سے اپنے لئے ایک عصا بناکر دینے کو کہتا ہے۔ وہ ضحاک کے محل کی طرف چل دیتے ہیں۔ محل میں جمشید کی دو بیٹیاں ارنواز اور شیرناز (داستان میں ان دونوں کو جمشید کی بہنیں بھی کہا گیا ہے) زبردستی ملکہ بنا کر رکھی گئی ہیں۔ وہ دونوں فریدون کو دیکھ کر خوش ہوتی ہیں اور اسے کئی راز بھی بتاتی ہیں اور اس بات سے بھی آگاہ کرتی ہیں کہ ضحاک فتوحات کیلئے ہندوستان گیاہوا ہے۔
محل کا نگران ضحاک کو پیغام بھیج کر فریدون کی آمد کی اطلاع دیتا ہے۔ اس پر ضحاک فوراً اپنے محل میں لوٹتا ہے وہ خنجر نکال کر ارنواز اور شیرناز کو قتل کرنے کیلئے آگے بڑھتا ہے۔ اتنے میں فریدون آگے بڑھ کر اس پر تلوارسے حملہ کر دیتا ہے۔پھر وہ اپنا گرز اٹھا لیتا ہے۔ ایسے میں سروش یزد کمرے میں داخل ہوتا ہے اور وہ اسے ضحاک کو قتل کرنے کی بجائے اسے قید بنا لینے کا مشورہ دیتا ہے۔ فریدون اسے زنجیروں میں جکڑ دیتا ہے اور اونٹ پر لاد کر کوہِ دماوند پر لا کر اسے اسیر بنا لیتا ہے، داستان کےُمطابق وہ اب بھی وہاں بھی اسیر ہے۔
اب میں باہر نکل کر کوہِ دماوند کی چوٹی کی طرف دیکھوں گا کہ فریدون کا اسیرمجرم ضحاک کہاں پر قید ہے۔
میں پیچھے مڑکر فردوسی آدیٹوریم کے مرکزی دروازے کی طرف دیکھتا ہوں۔ دروازے کے بائیں جانب اوپر کی طرف فردوسی کی اپنی تصویر ہے۔ وہ گھوڑے پر سوار ہے۔ اس کے ساتھ اس کا اس کا اپنا اور ایران کا ہیرو رستم ایک اور گھوڑے پر سوار ہے۔ رستم کے کردار میں فردوسی نے پورے فارس کی بہادری بھردی ہے۔ اس کی طاقت کا کوئی اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔
شاہنامہ کے مطابق رستم زابلستان میں رہتا ہے۔ اسے بادشاہ کیکاؤس بہت پسند کرتا ہے۔ داستان کے مطابق رستم کا گھوڑا کھوجاتا ہے اور وہ اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ وہ سمنگان کی سلطنت میں پہنچتا ہے جہاں وہ وہاں کے بادشاہ کا مہمان بنتا ہے۔ وہاں پر اس کی شہزادی تہمینہ سے ملاقات ہوتی ہے۔ شہزادی کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ دنیا کا سب سے طاقتور شخص یہاں اپنے گھوڑے کی تلاش میں آیا ہے۔ تہمینہ نے رستم کی بہادری کے بہت سے قصے سن رکھے تھے۔ وہ رات کو اس کے کمرے میں جاتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ اگر تم مجھے ہرابھرا کردو اور تم سے میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو میں تمہارا گھوڑا دے دوں گی۔ وہ اسے حاملہ کر دیتا ہے اور اسے اس کا گھوڑا واپس مل جاتا ہے۔ جاتے جاتے وہ تہمینہ سے کہتا ہے کہ اگر بیٹی پیدا ہو تو میں تمہیں یہ زیور دے رہا ہوں، یہ اُس کی چوٹی میں لگانا اور اگر بیٹا پیدا ہو تو میں یہ بازوبند دے رہا ہوں، یہ اُس کے بازو پر باندھنا۔ نو ماہ بعد نے بیٹے کو جنم دیا تو اس کا نام سہراب رکھا گیا۔ برسوں بعد رستم اور سہراب ایک دوسرے سے ایک دوسرے کے مدِ مقابل ایک جنگ میں ملے۔ یہ جنگ زابلستان اور تُوران کے مابین ہو رہی تھی۔ کسی کی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ رستم کے مدِ مقابل آتا۔ سہراب نے بھی رستم کی بہادری کے قصے سن رکھے تھے مگر اسے یہ بتایا نہیں گیا تھا کہ اسے رستم کے مدمقابل بھیجا جا رہا ہے۔ دونوں کو معلوم نہیں تھا کہ جنگ کے آغاز میں وہ جس پہلوان سے لڑنے جارہے ہیں، وہ کون ہے؟ جنگ کے پہلے راؤنڈ میں سہراب نے رستم کو پچھاڑ دیا۔ یہاں پر رستم نے استادی دکھائی اور اس سے کہا کہ جنگی اصول کے تحت پہلے راؤنڈ میں تم مجھے قتل نہیں کر سکتے۔ سہراب نے اُسے چھوڑ دیا۔ رستم یزداں سے دعائیں مانگتا دوسرے راؤنڈ کیلئے اُترا اور نپاتُلا وار کرکے ایک نوکدار چیز سہراب کے بدن میں اُتار دی۔ سہراب اس سے کہتا ہے کہ میں رستم کا بیٹا ہوں اور میرا باپ تم سے میری موت کا بدلہ لے گا۔ بس یہی وہ مرحلہ تھا جب دونوں باپ بیٹوں کا ایک دوسرے سےتعارف ہوا۔ رستم بیٹے کی بات بہت سُن کر غم سے نڈھال ہو گیا۔ وہ اسے کئی حکیموں اور طبیبوں کے پاس لے گیا مگر سہراب جانبر نہ ہو سکا۔ تہمینہ کو جب بیٹے کی موت کی اطلاع ملی تو اس کی بھی سانس پرواز کر گئی۔
میں مڑ کر فردوسی اور سہراب کی قدِ آدم تصویر کو دوبارہ دیکھتا ہوں اور دل ہی دل میں دنیا کے اس بڑے شاعر سے پوچھتا ہوں۔ استاد کیا کہانی کو کوئی اور خُوبصورت موڑ نہیں دیا جا سکتا تھا؟
تصویر کی طرف میری محویت دیکھ کر ڈاکٹر علی شہیدی میرے قریب آئے اور نہایت سادگی سے کہا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ سہراب کا تعلق سندھ سے تھا اور وہ سندھی تھا۔ میرے لئے یہ ایک حیرت انگیز انکشاف تھا۔ میری طرح منظر نقوی بھی اس انکشاف پر ہکا بکا رہ گئے۔ ہم تالار فردوسی سے باہر آجاتے ہیں، پھر فیکلٹی سے بھی باہر آتے ہیں، سامنے فردوسی کا مجسمہ اسی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ ہم یونیورسٹی سے باہر آکر اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہیں۔ ہم کوہِ دماوند میں ضحاک کو تلاش کرتے ہیں مگر وہ نہیں ملتا۔ اب ہم نے اپنے ہوٹل جانا ہے اورپھر وہاں سے نکل کر ایران کا فصائی دفاعی نظام دیکھنا ہے۔ ایران کی حیرت انگیز سائنسی، فنی اور ٹیکنالوجی کی مہارت کے معجزے دیکھنے ہیں۔ کیا کوئی ملک دنیا میں تنہا کر دیئے جانے کے بعد بھی ایسی محیرالعقول ترقی کر سکتاہے؟(جاری ہے)
یہ بھی پڑھیے:
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر