سید حسام الدین مہاجری نے دفتر میں دیگر دوستوں کا ہم سے تعارف کرایا۔ ایک نشست پر سید گلشن عباس نقوی بیٹھے تھے۔ یہ اردو کے کاپی ایڈیٹر ہیں۔ ان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ ایک اور نشست قمر عباس کی ہے۔ وہ فارسی اور انگریزی سے خبروں یا دیگر نشریاتی مواد کا اردو میں ترجمہ کرتے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ کس شہر سے تعلق ہے تو انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق بھارت سے ہے۔ ہم نے شہر کا نام پوچھا تو کہنے لگے کہ اب تو ہمارے شہر کے نام پر آپ کے اسلام آباد کے ایک علاقے کو بڑی شہرت ملی ہے۔ ہم نے استفہامیہ نظروں سے اُن کی طرف دیکھا تو وہ بولے کہ میرا تعلق فیض آباد سے ہے۔ ہم نے دل میں سوچا کہ ہمارے ہاں فیض آباد کی ہڑتالوں اور دھرنوں کو اتنی شہرت ملی ہے کہ اب لوگ اسلام آباد کو فیض آباد کے حوالے سے جاننے لگے ہیں۔ اور اُدھر یہ عالم ہے کہ بھارتی ریاست یوپی کی شناخت کبھی ایودھیا ہوا کرتا تھا، اب بابری مسجد کی شہرت سے فیض آبادنے ایودھیا کی شہرت کو گہنا دیا ہے۔ بھارت کا یہ شہر دریائے ساریو کے کنارے پر واقع ہے، جہاں کے آس پاس سے قرہٓ العین حیدر کے شہرۂ آفاق ناول آگ کا دریا کی اُٹھان ہوتی ہے۔فیض آباد لکھنئو سے 130 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔ فیض آباد ریاست اودھ کے حکمرانوں کا پہلا دارالحکومت تھا اور یہاں کئی نوابوں کی یادگاریں ہیں۔ یہاں بہو بیگم اور گلاب باغ میں نواب شجاع الدولہ کے مقابر کی دور دور تک شہرت پھیلی ہوئی ہے۔ بہو بیگم کی رہائش موتی محل میں رہی جہاں جواہر باغ واقع ہے اور یہاں پر ہی بہو بیگم کا مقبرہ ہے۔
میں نے دل میں سوچا کہ قمرعباس سے پوچھوں کہ کیا انہیں اودھ کے نواب سے کسی تعلق کی بنیاد پر ایران ٹی وی میں ملازمت کا مستحق سمجھا گیا مگر یہ سوچ کر چپ رہا کہ یہ مذاق سنجیدہ بھی ہو سکتا ہےاور فیض آباد کے قمر عباس ناراض بھی ہو سکتے ہیں اور اُلٹا مجھ سے پوچھ بھی سکتے ہیں کہ اسلام آباد کے فیض آباد کا جنرل فیض اور سید خادم حسین رضوی سے کیا تعلق ہے۔ ایسے کسی سوال پر تو میں خود ہی لاجواب ہو سکتا تھا۔ ہم ابھی وہیں بیٹھے تھے کہ مہر ٹی وی کے اینکر محمد مہدی شرافت بھی وہاں پہنچ گئے۔ کوئی پانچ چھ سال پہلے ایران کا مہر ٹی وی اپنے پروگراموں میں کراچی سے ہمیں شامل کیا کرتا تھا۔ اب شرافت صاحب کو موقع مل گیا تھا کہ وہ یہ کہیں کہ شرافت سے اُٹھو اور مہر ٹی وی کی لائیو نشریات میں اپنا تجزیہ پیش کرو۔ منظر نقوی صاحب بھی ہماری طرح انچولی کراچی سے مہر ٹی وی کے پروگرام میں شریک ہوا کرتے تھے۔ ہم نے اپنی دلی خواہش ظاہر کی ہمارے نوجوان ساتھیوں کو بھی ہمارے ساتھ بٹھایا جائے مگر انہوں نے کہا کہ اسٹوڈیو میں صرف دو مہمانوں کے ہی بیٹھنے کی جگہ ہے تو میں نے کہا میری جگہ اویس ربانی صاحب کو بٹھا دیا جائے مگر انہوں نے کہا کہ وہ ہمارے ناموں کا پرومو چلا چکے ہیں۔ اب ناچار ہم نے اسٹوڈیو میں بیٹھنا تھا اور ابھی بیس منٹ باقی تھے۔ ایسے میں اچانک راشد صاحب اندر آئے۔ مجھے وہ آشنا آشنا سے لگے اور انہوں نے کسی امتحان میں ڈالے بغیر کہا کہ پانچ سال قبل ہم کربلا میں ایک ہوٹل میں ملے تھے جہاں پر اُن کے علاوہ ہم بھی مقیم تھے۔ اور یہ وہی راشد صاحب تھے جنہیں جب یہ معلوم ہوا کہ ہم ایران آ رہے ہیں تو انہوں نے ہمارے ڈیرہ اسمعیل خان کے ڈاکٹر قمر عباس کو ہمارے مترجم کے طور پر ہمارے ہوٹل میں بھجوا دیا تھا۔ راشد صاحب سے ملنا بہت خوشی کی بات تھی اور ہم نے اپنی خوشی کا اظہار بھی کیا۔
ہم یہاں تین سال قبل کے واقعہ کے بارے میں کسی سے پوچھنا تھا جو مغربی میڈیا میں بہت اُچھالا گیا تھا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ اچانک 31 مارچ 2020ء کو مغربی میڈیا میں یہ بریکنگ نیوز چلنا شروع ہوگئی تھی کہ صبح صبح ایرانی ریڈیو اور ٹی وی کے ہیڈ کوارٹر کے قریب کوئی بڑی آتشزدگی ہوئی ہے بعض مغربی چینلوں پر یہاں دھماکے کی خبر بھی دی جا رہی تھی۔
مغربی میڈیا یا کسی بھی میڈیا کے بارے میں فارمولا تصورات رکھنا مناسب نہیں مگر بدقسمتی سے سوویت یونین کے انہدام سے پہلے روس اور سوویت ریاستوں، چین، شمالی کوریا، کیوبا، ویت نام اور ایران انقلاب کے بعد ایران کے بارے میں مغربی میڈیا کی کوریج کا اندازاور خبروں کا متن تیار کرنے کا انداز بہت انوکھا ہوتا ہے۔ بعینہہ اگر معاملہ فلسطین اور اسرائیل کا ہو تو فلسطینی مقتول کو ظالم اور اسرائیلی فوجی سپاہی کو بیچارہ مجبور محض بیان کیا جائے گا۔ اس دن کی خبروں کے بارے میں ہم نے بھی الگ الگ ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ دھماکہ ہونے اور آگ لگنے کے دو الگ الگ واقعات الگ الگ مواقع پر ہوئے تھے مگر مغربی میڈیا نے ان واقعات کو باہم مربوط اور منسلک کرکے اپنے طور پر ایک جیسے نتائج نکالے تھے مگر ایران کے عام لوگ اور تہران کے عام شہری بڑی حد تک بالغ نظر اور سچ مچ سمجھدار واقع ہوئے ہیں اور وہ اس طرح کی ایجنڈا خبروں سے متاثر نہیں ہوتے۔
مہاجری صاحب ہمیں ساتھ لے کر اسٹوڈیو میں آگئے۔ مجھے درمیانی نشست پر بٹھایا گیا۔ میرے ایک طرف پروگرام اینکرمحمد مہدی شرافت تشریف فرما ہوئے جبکہ دوسری جانب منظر نقوی صاحب بیٹھے۔ پروگرام ترقی پذیر دنیا کا میڈیا، اسلامی ممالک کا میڈیا اور مغربی دنیا کے میڈیا کا موازنہ اور تجزیہ کرنا تھا۔ اس احقر سے گفتگو کا آغاز کرنے کو کہا گیا۔ میں نے میزبانوں کے شکریئے کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کیا کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک کا میڈیا ایران کی جو تصویر اپنے ناظرین اور سامعین کے سامنے پیش کرتا ہے دراصل اس سے بہت مختلف ہے۔ میں پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ ایرانی معاشرہ میں عورت کو جس قدر اسپیس، مقام، مرتبہ اور مواقع ملے ہیں ایسے مواقع دیگر ترقی پذیرممالک تو کجا بہت سے ترقی یافتہ ممالک کو بھی نہیں ملے ہیں۔ میڈیا کے شعبہ میں عورت کیلئے مواقع، اختیارات، فیصلہ سازی کی اتھارٹی اور انتخاب کا جو حق ملاہوا ہے وہ ترقی پذیر معاشروں کی عورت کا ایک خواب ہی ہو سکتا ہے۔ تمام شعبوں میں خواتین کیلئے مواقع میں ماضی کے مقابلے میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ سائنس ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، صنعت و حرفت اور کاروبار میں میں ایرانی عورت بہت آگے آئی ہے۔ اسی طرح فلم کے شعبہ میں ایرانی عورت نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ میڈیا میں بالعموم خواتین کو سیاسی رپورٹنگ کے بہت کم مواقع ملتے ہیں مگر ایران کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی میں سیاسی رپورٹنگ، ایوان صدر کی رپورٹنگ ، پارلیمانی رپورٹنگ، عدالتی رپورٹنگ، کھیلوں کی رپورٹنگ اور ڈیسک پر خبروں کے ڈسپلے کا اختیار بھی خواتین کے پاس موجود ہے۔ میں نے جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطی اور بڑی حد تک یورپ میں بھی خواتین کیلئے صحافت میں اس قدر مواقع نہیں دیکھے۔ اس کے برعکس ہمیں مغربی میڈیا یہ بتاتا ہے کہ ایرانی عورت اپنے گھر سے باہر نہیں آسکتی ۔ وہ بازار میں داخل نہیں ہو سکتی۔ اُسے تو گھر میں قیدی بنا دیا گیا ہے۔ مگر یہاں آکر ہم نے دیکھا کہ یہاں مرد اور عورت قدم سے قدم ملاکرزندگی کی دوڑ میں یکساں طور پر شریک ہیں۔
جناب منظر نقوی نے بھی ایران میں مغربی میڈیا کے دہرے طرز عمل پر بات کی۔ انہوں نے بھی ایران میں خواتین کیلئے مواقع کے بارے میں کھل کر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے گزشتہ روز خاتون کو تہران کی سڑکوں پر بس چلاتے دیکھا۔انہوں نے کہا کہ میں نےخواتین کو شہری ہوا بازی، ہوٹل کی صنعت، مارکیٹنگ اور دیگر شعبوں میں آزدانہ طور بااختیار ہو کر کام کرتے دیکھا۔ اس موقع پر ہم سے پوچھا گیا کہ ترقی پذیر ممالک اور اسلامی دنیا کے ممالک کے مابین تعاون کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔ میں نے عرض کی کہ اسلامی دنیا میں مختلف موضوعات پر تعاون کے بارے میں اجلاس، سیمینار، کانفرنسس اور اجتماعات ہوتے رہتے ہیں۔ ترقی پذیر اور اسلامی ممالک کو اسلامی میڈیا کانفرنس یا تھرڈ ورلڈ میڈیا سیمینار کا اہتمام کرنا چاہیئے۔ جب تک ہم ایک دوسرے کے ممالک کے مسائل اور مواقع کے بارے میں آگاہ نہیں ہوں گے۔ ہم آگے کس طرح بڑھ سکیں گے۔
پروگرام کے اختتام پر اسٹوڈیو سے باہر آگئے۔ اور گاڑی میں بیٹھ کر ہوٹل واپس آگئے۔ کل ہم نے یونیورسٹی آف تہران جانا ہے۔(جاری ہے)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر