مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شکریہ کہنے کی عادت اپنائیں۔۔۔||سجاد جہانیہ

”اس کے باوجود آپ کو اخلاقی طور پر پہلے کھڑے بندے سے اجازت لینی چاہیے تھی۔ چلئے اجازت نہ سہی بعد میں شکریہ کا ایک لفظ تو کہ دینا چاہیے۔ آپ سے پہلے والی برقع پوش بھی ایسے ہی چلی گئیں، اب اپ بھی جا رہی ہیں شکریہ کہے بغیر“

سجاد جہانیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ستمبر کے ابتدائی دنوں میں سے ایک گرم دن تھا۔ لو یا سورج کی تپش والی گرمی نہ تھی۔ فضا میں بخار سا رچا ہوا تھا جو جسم کے پور پور سے عرق نمکین کشید کرتا تھا اور ہوا دم سادھے ہوئے تھی۔ بوسن روڈ پر جہا‌ں ایجوکیشن یونیورسٹی اور ایمرسن یونیورسٹی پہلو بہ پہلو نشست کیے ہوئے ہیں، ان کے سامنے سڑک پار کر کے جو دو بینک ہیں، یہ انہی میں سے ایک بنک کے اے ٹی ایم کا واقعہ ہے۔ جب میں وہاں پہنچا تو کوئی صاحب اندر تھے اور دو نوجوان اے ٹی ایم خالی ہونے کے منتظر۔ میں بھی قطار میں ہو گیا۔ دونوں نوجوان اپنی باتوں سے طالب علم لگتے تھے۔

اتنے میں باری باری دو رکشے آ کر رکے اور ان میں سے دو ایسی طالبات نکلیں جن کے آؤٹ فٹ میں بعد المشرقین تھا۔ شریعت کی طرف سے پردے کے جو تقاضے مولوی صاحب نے ہم تک پہنچائے ہیں، ایک تو ان سے بھی دو ہاتھ آگے تھی اور دوسری بے پردگی کے اس معیار سے بڑھی ہوئی جنہیں دیکھ کے اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ جایا کرتا ہے۔ حیرت ہے کہ فرنگی حکومت میں ریلوے کی کلرکی، تحصیل داری، سیشن عدالت کی ججی کرتے اور خان بہادر کا خطاب وصول فرماتے جناب اکبر الہ آبادی کو غیرت غنودگی میں رہی، آئی بھی تو بے پردگی دیکھ کر

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا

خیر چھوڑئیے۔ دونوں لڑکیاں بھی انتظار میں کھڑی ہو گئیں۔ جونہی اندر والے صاحب نے دروازہ کھولا، دونوں نوجوان غڑاپ سے اندر گھس گئے۔ مجھے نوجوانوں کی حرکت کچھ اچھی نہ لگی۔ کیا فرق پڑتا جو لڑکیوں کو پہلے اے ٹی ایم استعمال کرنے دیتے۔ دل ہی دل میں، میں نے گویا خود سے کہا کہ ابھی یہ باہر نکلتے ہیں تو میں پہلے ان دونوں لڑکیوں کو اندر بھیجوں گا۔ ایک تو بچیاں ہیں دوسرا ان کے رکشے انتظار میں ہیں اور پھر نسائی احترام کا بھی تقاضا ہے کہ ان کو پہلے موقع دیا جائے۔ میں اسی خودکلامی میں تھا کہ نوجوان باہر نکل آئے۔ قبل اس کے کہ میں ان کو آفر کرتا کہ آپ پہلے اے ٹی ایم استعمال کر لیں، دونوں میری طرف دیکھے بغیر، گویا میں وہاں موجود ہی نہیں ہوں، ایک شان بے نیازی کے ساتھ اندر چلی گئیں۔ میں ہونقوں کی طرح کھڑا رہ گیا۔ میں نے سوچا جلدی میں ہیں سو اندر چلی گئیں، واپسی پر ضرور شکریہ ادا کریں گی کہ ”انکل! آپ کا شکریہ آپ نے اپنی باری پر ہمیں جانے دیا“

اے ٹی ایم میں سے پہلے باپردہ لڑکی نکلی اور مجھے درخور اعتنا گردانے بغیر میرے سامنے سے گزرتی ہوئی رکشے میں جا بیٹھی۔ تھوڑی دیر بعد قدرے جدید تراش خراش والے آؤٹ فٹ میں بے پردہ لڑکی نکلی اور بالوں کو جھٹک کر ماتھے سے ہٹاتی ایک شان استغنا کے ساتھ اپنے رکشے کی طرف بڑھی۔ میرے پاس سے گزر کر ایک دو قدم ہی آگے نکلی ہوگی کہ میں نے آواز دی: ”بیٹا بات سنیں“

وہ رک گئی اور سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔

میں نے کہا: ”آپ جب آئی تھیں، آپ نے دیکھا نا کہ میں کیو میں ہوں۔ آپ نے یہ نوٹس کرنے کے باوجود کہ آپ کے والد کی عمر کا بندہ لائن میں لگا ہے، مجھ سے پہلے اندر جانے کی اجازت تک لینا گوارا نہیں کیا۔“

”وہ۔ انکل بات یہ ہے کہ میں جلدی میں تھی“

”اس کے باوجود آپ کو اخلاقی طور پر پہلے کھڑے بندے سے اجازت لینی چاہیے تھی۔ چلئے اجازت نہ سہی بعد میں شکریہ کا ایک لفظ تو کہ دینا چاہیے۔ آپ سے پہلے والی برقع پوش بھی ایسے ہی چلی گئیں، اب اپ بھی جا رہی ہیں شکریہ کہے بغیر“

وہ لمحہ بھر خاموش رہی، چہرے پر شرمندگی کی ہلکی سی سرخی لہرائی اور رکشے کی طرف قدم اٹھایا۔ میں نے پھر ذرا بلند آواز سے کہا: ”ایک اور بات۔“

وہ ٹھٹھکی: ”جی؟“
”اگر آپ اجازت لینا اور شکریہ ادا کرنا بھول جاؤ تو بھی ایک آپشن معذرت کا ہوتا ہے“ ۔

میں منتظر رہا کہ رکشے میں پیر دھرنے سے قبل اس کے الوداعی لفظ یہ ہوں گے : ”سوری انکل“ ۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ میرے کان اجازت، شکریہ اور معذرت کے لفظ سننے کو ترستے ہی رہے۔

گاڑی میں بیٹھتے ہوئے میں نے خود سے سوال کیا کہ لڑکی کو ڈانٹنے کی وجہ اس کو اخلاقیات سکھانا تھا یا وہ غصہ جو اخلاقی ٹارزن بننے کا موقع چھن جانے کی بنا پر میرے اندر پیدا ہوا؟ ظاہر ہے اگر وہ دونوں اپنی باری سے تجاوز نہ کرتیں اور میں خود سے انہیں کہتا کہ پہلے آپ اے ٹی ایم استعمال کر لیں تو میں اخلاقیات کا ٹارزن بن جاتا۔

بہرحال جو بھی ہے خدارا اپنے بچوں کو شکریہ ادا کرنا اور سوری کہنا ضرور سکھائیں۔ فرمان نبوی ﷺ ہے ”لا یشکر اللہ من لا یشکر الناس“ (جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا)۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

سجاد جہانیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: