اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عزت یا غیرت ہے کیا؟۔۔۔||عزیز سنگھور

پولیس کے مطابق کنویں سے برآمد ہونے والی لاشوں میں سے 2 مرد اور ایک لاش عورت کی تھی جس کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی گئی تھی۔ یہ سب لوگ بلوچستان کے ایک طاقتور سردار عبدالرحمان کھیتران کی بنائی گئی نجی جیل میں قید تھے۔

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوچستان میں داخلہ لیا۔

2018 میں فائن آرٹس میں نہ صرف بی ایس کی ڈگری حاصل کی بلکہ اپنی ذہانت کے باعث گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ شاہینہ نے 2019 میں بلوچی زبان میں بھی فرسٹ پوزیشن کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

شاہینہ بلوچ کا کوئی بھائی نہیں تھا، وہ پانچ بہنیں تھیں۔

یونیورسٹی آف بلوچستان میں جب فائن آرٹس کے فائنل ایئر کے طلبا و طالبات کی پینٹنگز کی نمائش کی گئی تو شاہینہ کی پینٹنگز نہ صرف شامل بلکہ ہر لحاظ سے نمایاں رہیں۔

شاہینہ کی بنائی گئی والدہ اور چار بہنوں کی پینٹنگز بھی نمائش میں توجہ کا مرکز رہیں۔ وہ صحافت کے پیشے سے بھی وابستہ تھی اور بلوچی میگزین دزگہار(سہیلی) کی مدیرہ بھی تھیں۔ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران وہ پی ٹی وی بولان کے بلوچی زبان میں مارننگ شو کی میزبانی بھی کرتی رہیں۔

وہ مکران جیسے دوردراز علاقے سے پہلی لڑکی تھیں جنہوں نے ٹی وی میں کام کیا۔

شاہینہ بلوچ کے قتل کے خلاف سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا تاہم قاتل قانون کی گرفت میں نہ آسکے۔ہر سال بلوچ معاشرے میں 5 ستمبر کو شاہینہ بلوچ کی یاد میں دن منایا جاتا ہے۔

اس سال بھی بلوچستان میں اسکی یاد میں دن منایاجارہا تھا کہ سوات میں اسی طرز کا دلخراش واقعہ پیش آیا۔ ایک بچہ اپنی ماں کی لاش سے لپٹا دھاڑیں مار رہا تھا۔ کسی اور نے نہیں اس کے اپنے باپ نے ہی ماں کو اس بچے سے چھین کر اسے یتیم کردیا۔
پاکستان میں عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کے ساتھ ساتھ انہیں نجی جیلوں میں بھی قید رکھا جاتا ہے۔ انکے خاندان والوں کو بھی قید کر لیا جاتا ہے۔ فروری 2023 میں بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ سے 3 لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔

پولیس کے مطابق کنویں سے برآمد ہونے والی لاشوں میں سے 2 مرد اور ایک لاش عورت کی تھی جس کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی گئی تھی۔ یہ سب لوگ بلوچستان کے ایک طاقتور سردار عبدالرحمان کھیتران کی بنائی گئی نجی جیل میں قید تھے۔

جب اس واقعہ پر آوازیں اٹھنے لگیں اورمعاملہ شدت اختیار کرگیا تو اس وقت کی حکومت کو اپنے ہی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کو گرفتار کرنا پڑا۔ سردار عبدالرحمان کھیتران کو بچانے کے لئے بلوچستان کے دیگر سرداروں نے جرگہ طلب کیا۔یہ طبقاتی مسئلہ تھا اور ایک طاقتور طبقے نے اپنی کلاس (طبقے) کی کھل کر حمایت کی۔

اس عمل سے سردار اور عام بلوچ میں فرق واضح ہوگیا۔

یہ جرگہ لندن میں مقیم، خان قلات میر سلیمان داؤد احمد زئی کے چھوٹے بھائی شہزادہ عمر نے کیا تھا۔ اس جرگیکی خان قلات میر سلیمان داؤد احمد زئی نے شدید مذمت کی، لندن سے بیان جاری کیا۔

خان قلات میر سلیمان داؤد احمد زئی نے سانحہ بارکھان کے حوالے سے اپنے بھائی شہزادہ عمر کے جرگہ بلانے کے عمل پر کہا کہ بلوچوں کے حقوق اور اداروں کے ہاتھوں بلوچوں پر مظالم اور عزت نفس کی پامالی پر مسلسل خاموشی کے برعکس صرف بارکھان کے مسئلے پر جرگہ بلانا سمجھ سے بالاترہے۔

خان آف قلات نے کہا کہ بدقسمتی سے حکومتی سطح پر بالواسطہ اور بلا واسطہ عام بلوچوں کا استحصال ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پامالی بھی ہوتی ہے۔

خان آف قلات نے کہا کہ عام بلوچ کے حقوق، جان و مال، عزت کی حفاظت کرنا ہی سرداروں،نوابوں، نوابزادوں اور شہزادوں کی بنیادی اور اولین ترجیح ہونا چاہیے۔
ایک اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ ایک ہزار سے زائد کو خواتین کو قتل کیا جاتا ہے، ان میں سے اکثریت کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل کے واقعات کی روک تھام کیلئے عورت کو ملکیت سمجھنے کا تصور ختم کرنا ضروری ہے۔

ہمارا معاشرہ اور ریاست اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک عورتوں کو ان کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق حاصل نہیں ہونگے۔

بشکریہ :ڈیلی آزادی کوئٹہ

یہ بھی پڑھیے:

مسنگ سٹی۔۔۔عزیز سنگھور

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور

کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ

عزیز سنگھور کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: