حضرت صالح بن موسیٰ کاظم کے مزار کے احاطے سے باہر آئے ۔ آج جماران اور سعدآباد پیلس کمپلکس کے بعد اس درگاہ سے باہر آنے پر سب کو کام و دہن کی پڑگئی ۔ ان سب میں خود میں بھی شامل ہوں۔ اس کا اندازہ تو علی فاطمی کو بھی تھا۔ چنانچہ وہ ہمیں ساتھ لے کر ہمارے ہی ہوٹل کے قریب ایک ریسٹورنٹ میں لے آئے۔ جو رات میں رنگ و نور کی بارش کرتا اور دن میں سچ مچ بارش کا ماحول بنائے رکھتا تھا۔ لگتا تھا کہ اتنے بڑے ریسٹورنٹ میں صرف ہم ہی آئے ہیں اورباقی لوگ اپنا دوپہر کا کھانا کھا کر سہہ پہر سے پہلے پہلے چلے گئے ہیں مگر ہم تو سہہ پہر سے بھی کافی بعد میں آئے تھے لہذا ہمیں دن بھر کی رونقوں کی یادوں پر گزارا کرکے کھانا آنے کا کرنا تھا۔ پھر یکایک ایرانی موسیقی بج اُٹھی سازوں کی آواز آنے لگی۔ شادیانے سے بجنے لگے۔ ارے یہاں تو بارات آئی ہے۔ دولہا دلہن اپنے قریب رشتہ داروں کے ساتھ آئے ہیں ۔شادی کے گیت گائے جا رہے ہیں۔ دلہن نے سفید لباس پہن رکھا ہے۔ دولہا نے سیاہ سوٹ پہنا ہوا ہے۔ دلہن کا قد نمایاں طورپر دولہا کے قد سے دراز ہے۔ ڈیرھ درجن باراتیوں سمیت دولہا دلہن اپنے لئے مخصوص نشستوں پر جا کر بیٹھتے ہیں۔ دولہا دلہن کیلئے الگ سے کوئی اسٹیج نہیں ہے۔ وہ ریستوران کی ایسی ہی کرسیوں پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں جیسی کرسیوں پر ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔ موسیقی جاری ہے۔ ایسے میں ہمارے لئے کھانے سے پہلے زیتون کی چٹنی اور روٹیاں لاکر رکھی جاتی ہیں۔ ہم سب نے مزے لے لے کر چٹنی کے ساتھ روٹی کھانی شروع کردی جس سے بُھوک دوآتشہ ہو گئی۔ پھر جب پورا کھانا رکھا گیا تو اپنی حد تک تو مجھے یوں لگا کہ اس روز اگلی پچھلی ساری کسریں نکال دی گئیں۔
کھانا کھانے اور شادی کے گانے سننے کے بعد ہم اپنے ہوٹل میں لوٹ آئے۔ ہوٹل پہنچتے ہی علی فاطمی نے فرمان جاری کیا کہ ایک گھنٹے کے بعد ہم ایران ٹی وی اسٹیشن چلیں گے۔ ہم نے ایک گھنٹہ لابی میں ہی بیٹھ کر گزار دیا۔ ہمارے دوسرے ساتھی وقت پر اپنے اپنے کمروں سے باہر نکل آئے۔ ہم سب گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی ایران ٹی وی کے ہیڈ کوارٹر کی جانب روانہ ہو گئی۔ ہم اس ہیڈ کوارٹر کے مرکزی دروازے پر پہنچے تو ہماری گاڑی کو روک لیا گیا۔ ہم اس ہیڈ کوارٹر کا اپنے اسلام آباد کے ٹی وی ہیڈ کوارٹر سے موازنہ کرنے لگے۔ اس کا رقبہ پی ٹی وی کے رقبے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہاں کے ٹی وی کو فارسی میں صدا و سیمای اسلامی ایران کہا جاتا ہے۔ انقلاب سے پہلے اس کا نام قومی ایرانی ریڈیو و ٹیلی ویژن تھا۔ انقلاب کے بعد یہاں کے نشریاتی ادارے سرکاری کنٹرول میں ہیں اور انقلاب سے پہلے بھی اسے حکومت ہی کنٹرول کرتی تھی۔ یہ ادارہ ایشیاء پیسیفک براڈکاسٹنگ یونین کا ممبر ہے۔ اسے خطہ کی سب سے بڑی میڈیا آرگنائزیشن سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے سربراہ کا تقرر براہِ راست ایران کے سپریم لیڈر آیتہ اللہ خامنہ ای کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ اس آرگنائزیشن کا سالانہ ریونیو 95 کروڑ ڈالر ہے۔ایران میں ریڈیو کا قیام 1929ء میں ہوا تھا جبکہ یہاں ٹی وی کا قیام 1958ء میں ہوا۔اس ادارے کے ملازمین کی تعداد 13 ہزار بتائی جاتی ہے جبکہ دنیا بھر کے 20 ممالک میں اس کی شاخیں ہیں۔ یہاں پر 12 مقامی ٹی وی چینل ہیں جبکہ چار بین الاقوامی نیوز ٹی وئ چینل ہیں۔ صوبائی سطح پر 30 ٹی وی چینل ہیں۔ ان میں آدھے چینل ایران کی فارسی کے علاوہ دیگر زبانوں کےچینل ہیں مثلاً آذربائیجانی اور کردی کے الگ الگ ایک سے زیادہ چینلوں کے علاوہ فارسی کے الگ الگ لہجوں کے الگ الگ چینل ہیں۔ ایران میں مقامی سامعین کیلئے 12 ریڈیو اسٹیشن ہیں جبکہ بین الاقوامی اور غیرملکی سامعین کیلئے 30 ریڈیو اسٹیشن ہیں۔
ہمیں ہیڈکوارٹر کے مرکزی دروازے پر کافی دیر کھڑے رہنا پڑا۔ اب ہمارے دماغ میں رہ رہ کر مرزا غالب کا یہ شعر گردش کررہا ہے۔
بندگی میں بھی وہ آزادہ وخود بیں ہیں کہ ہم
اُلٹے پھر آئے درِ کعبہ گر وا نہ ہوا
مگر ہم صحافیوں کی بنیادی تربیت ہی یہی ہوتی ہے کہ ہمیں خبر، اطلاع، کسبِ علم اور اخبار یا چینل کیلئے کسی بھی قسم کی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا ہے بلکہ ان مقاصد کیلئے انا پسند اور خود بیں بالکل نہیں ہونا۔ چنانچہ ہم نے چچا غالب کی آزاد روی اور خود بینی سے چشم پوشی کی اور گاڑی میں بیٹھ کر لذتِ انتظار سے سرشار ہونے لگے۔
کافی دیر انتظار کے بعد گاڑی سے اُتر کر سکیورٹی کلیئرنس کیلئے استقبالیہ کی طرف جانے کیلئے کہا گیا۔ ظاہر ہے ہمارے پاس سکیورٹی کیلئے سوالیہ نشان بننے والی کوئی چیز نہیں تھی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم سے فون رکھوا لئے جائیں۔ مگر کیوں؟ ہم کوئی بن بلائے مہمان تو نہیں تھے۔ ہاں مگر ہمارے اپنے ملک میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں مہمانوں کو عزت و احترام سے بلایا جاتا ہے مگر وہاں پہنچنے پر فون رکھوا لئے جاتے ہیں۔ خیر، خدا خدا کرکے استقبالیہ پر پہنچے۔ کچھ ہی دیر میں پتہ چلا کہ ہمارے مترجم علی زین نقوی کا نام ہمارے وفد کی فہرست میں شامل نہیں۔ انہیں بیٹھ جانے اور ہمیں اندر چلے جانے کیلئے کہا گیا۔ میرا دل بہت بوجھل ہو گیا۔ اپنے ملک میں غالباً میں اس حالت میں واپس لوٹ جاتا۔ ہم بالکل خودبیں تو نہیں مگر یہ کیا کہ ہمارے کسی ہمسفر کو کسی مقام پر روک لیا جائے اور ہم گردن اُٹھائے اس مقام کی طرف چل پڑیں۔ پھر ہم نے دل کو سمجھایا کہ دنیا میں ہر جگہ سکیورٹی والے قواعد کے مطابق کام کرتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ ہم سے ایک ہفتہ پہلے چلے آنے کے باعث یہاں کی سکیورٹی والوں نے علی زین نقوی کو ہمارے وفد سے الگ کی ہستی سمجھ لیا ہو۔ ہم سکیورٹی کی عمارت سے نکل کر ایرانی ٹی وی ہیڈ کوارٹر کے احاطے میں ایک کھلی سڑک پر آگئے ۔ یہاں ایک مہربان نے اردو میں اپنا تعارف کراتے ہوئے اپنا نام سید حسام الدین بتایا۔ ہم نے فوراً علی زین نقوی کے روکے جانے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اتنے میں ہماری گاڑی اندر اسی مقام پر پہنچ چکی تھی۔ سید حسام الدین کہنے لگے کہ آپ لوگ اپنی گاڑی میں بیٹھیں میں علی زین نقوی کو لے کر اپنی گاڑی میں لے آتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ سکیورٹی ایریا کی طرف چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد وہ زین کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر ہمارے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ اب پتہ چلا کہ ایران ٹی وی کی عمارت اسلام آباد میں ہمارے پی ٹی وی کی عمارت سے کہیں زیادہ بڑے رقبے پر بنائی گئی ہے۔ پہلے یہ ریڈیو کیلئے مخصوص عمارت تھی، پھر جب ٹی وی آیا تو اسی عمارت میں ایران ٹی وی بھی قائم کردیا گیا۔ اس طرح نشریات کے تمام اداروں کو یکجا کر دیا گیا۔ یہ بات ہم نہیں پوچھ سکے کہ یہ جو ہم پچاس سال پہلے ریڈیو ایران زاہدان کی اردو نشریات سنا کرتے تھے وہ بھی اسی مقام سے نشر ہوتی تھیں یا زاہدان میں کوئی الگ اسٹیشن موجود تھا۔ زاہدان تو ہم نے کئی بار دیکھا ہے مگر زاہدان ریڈیو کا خیال کبھی نہیں آیا۔
ہماری گاڑی کو ٹی وی ہیڈ کوارٹر کے دروازے سے مرکزی عمارت تک پہنچنے کیلئے کافی فاصلہ طے کرنا پڑا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ علی زین کو روکے جانے کی کلفت کے باعث ہمیں یہ فاصلہ زیادہ لگا ہوا۔ سید حسام الدین ہمیں ساتھ لے کر لفٹ کے ذریعے کسی دوسری منزل پر لے آئے۔ ہم نے انہیں اپنا مکمل تعارف کرانے کی درخواست کی۔ وہ ایرانی ٹی وی کےاردو سیکشن کے پروڈیوسر انچارج ہیں۔ نقوی صاحب نے پوچھا کہ پاکستان کے کس شہر سے ہیں۔ انہوں نےکہا کہ میراپورانام سیدحسام الدین مہاجری ہے، آپ کے خیال میں میرا تعلق کس شہر سے ہوگا۔ نقوی صاحب نے جھٹ سے کہا کہ اب تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ آپ کراچی سے ہوں گے۔ وہ کہنے لگے کہ اب تو آپ یہ بھی کہیں گے کہ میرا گھر لیاقت آباد میں ہوگا۔ نقوی صاحب کہنے لگے کہ اچھا لیاقت آباد کے کس علاقے میں گھر ہے۔ اب سید حسام الدین مہاجری نے کہہ کر ہم سب کو حیران کردیا کہ میں اصلی نسلی جدی پشتی ایرانی ہوں۔ میں نے بہت گہری سانس لی اور پوچھا کہ آپ ایسی اچھی اردو صحیح تلفظ کے ساتھ کیسے بول لیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرے والد میرے بچپن میں 1981ء میں کراچی میں ایران کے قونصل جنرل بن کر آئے تھے اور میں نے ابتدائی تعلیم گرائمر اسکول میں حاصل کی تھی۔ اویس ربانی بولے مگر وہ تو انگلش میڈیم اسکول ہے۔ اس پر مہاجری بولے ، وہ ہے تو انگلش میڈیم اسکول مگر میرے کلاس فیلو تو اردو بولنے والے بھی ہوتے تھے۔ اس کمرے میں کئی کرسیاں اورمیزیں ہیں۔ یہ اردو سیکشن ہے اور یہاں اردو کے کاپی ایڈیٹر ، مترجم اور عملہ کے دیگر بیٹھتے ہیں(جاری ہے)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر