میں اپنے دوستوں کے ہمراہ ملت محل سے باہر نکلتا ہوں۔ سیڑھیاں اُترنے سے پہلے ہمارے ہمسفر احباب ملت محل کے سامنے موجود مناظر کو کیمرے میں محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ محل کے سامنے تو وہی تیرانداز کھڑاہے محل کے اندر ایک مقامی ایرانی سے اُس کے نام اور کام کے بارے میں سُنا تو دل نے چاہا کہ ایرانی لوک داستانوں، لوک شاعری اور لوک روایات کے اس بڑے ہیرو کی داستان کے بارے میں آپ کو بھی بتایا جائے۔ ہم سیڑھیاں اترتے اترتے اس کے قریب آگئے، یہ شخص ایک پہاڑی پر کھڑا ہوکر پورا زور لگا کر ایک سمت کو ہوا میں تیر پھینک رہا ہے۔ یہ کسی جنگی واقعہ کا منظر نہیں ہے اور نہ ہی کسی دشمن کی طرف تیر پھینک رہا ہے۔ یہ ایرانی لوک روایات کا بہت ہی طاقتور ہیرو ہے۔ اس کی طاقت ہر اندازے سے بڑھ کر ہے۔ اس کا نام ارش کمان گیر ہے۔ گویا کمان کو ہاتھ میں لئے ہوئے اس ہیرو کا نام فارسی میں ارش لکھا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے Arash لکھا اور بولا جاتا ہے۔ لوک روایات کے مطابق یہ تہران کے شمال میں کوہ البرز کی بلندترین چوٹی دماوند پر کھڑا ہے۔ البیرونی کا خیال ہے کہ اس کے نام کا اصل ماخذ ارشک ہوگا۔ جو ایران کی 247 قبل مسیح کی پارتھی سلطنت کے دور کا ہیرو رہا ہوگا جو آرساسد سلطنت بھی کہلاتی تھی۔ یہ سلطنت ایران کے مشرق میں دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ مختلف روایات میں ارش کا نام مختلف انداز سے بولا گیا۔ اویستا میں اس کا نام اریخشا کہا گیا۔ اس لفظ کے معنی پُرانی لغت میں بہت ہی برق رفتار تیر بتائے گئے ہیں۔
کہانی کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ شاہی افتخار اور عظمت کے معاملے پر ایرانیوں اور تورانیوں میں جھگڑا کھڑا ہوگیا۔ تُورانی جنرل افراسیاب کی فوجوں نے منوچہر کی افواج کو گھیرے میں لے لیا۔ دونوں کے تنازع میں معاملات زیادہ پیچیدہ شکل اختیار کر گئے اور دونوں سلطنتوں کے مابین جھگڑا سرحدوں کے ازسرِ نو تعین تک جا پہنچا۔ ایرانی اپنی سرزمین کو انتہائی مقدس سمجھتے تھے اور ان کے خیال میں اس مقدس سرزمین پر کسی غیر ایرانی کو قبضہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ افراسیاب اور منوچہر کے مابین یہ طے ہوا کہ سرحدوں کی حدود کا تعین تیر کرے گا۔ کوہِ البرز کی دماوند کی چوٹی سے پھینکا گیا تیر جہاں بھی جا گرے گا، ایران کی سرحدیں وہاں تک ہوں گی۔ اس پر ایک فرشتہ منوچہر کے پاس آیا اور اس نے منوچہر سے کہا کہ وہ ایک خاص قسم کی کمان اور تیر تیار کرائے تاکہ اسے سرحدوں کے تعین کیلئے کوہِ البرز سے بہت دورتک پھینکا جائے۔ تیر پھینکنے کیلئے ارش کا انتخاب ہوا جو سلطنت کی پوری آبادی میں سب سے طاقتور تھا۔ اس کے پاس انوکھی اور بے مثال طاقت تھی۔ وہ پیشہ ور تیرانداز تھا جو بہت دور دور تک تیر پھینکا کرتا تھا۔ ارش کو دھرتی کے فرشتے نے کہا کہ وہ تیر اُٹھائے اور اسے اپنی کمان سے اپنی پوری طاقت کے ساتھ بہت ہی دور تک پھینکے۔ ارش نے کہا کہ میں پہلے اپنے آپ کو اپنے وجود کی پوری توانائی کے ساتھ کمان میں منتقل کردوں گا اور پھر میں تیر میں سما جاؤں گا۔ پھر ہوا میں بظاہر تیر اُڑ رہا ہوگا مگر درحقیقت میں خود ہی پرواز کر رہا ہوں گا۔ ارش کمان گیر اپنی پاکیزہ اور مقدس سرزمین کی حدود سے باخبر تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ اس کی دھرتی کے جغرافیہ کا سارا دارومدار اُس کے تیر پھینکنے پر ہے۔ پھر وہی ہوا جو اس نے کہا تھا۔ اس نے اپنی قمیض اُتاری اور اپنے جسم کی طاقت کو مجتمع کرنے کا مظاہرہ کیا اور دھرتی کے فرشتے سے کہا کہ میری طرف دیکھو میں تندرست ہوں اور میرے اندر کوئی خامی اور کمزوری نہیں ہے۔ پھر ایران کی لوک داستانوں کا سب سے بڑا ہیرو دماوند کی چوٹی پر چڑھ گیا۔ یہ ایران میں کوہ البرز کی سب سے بڑی چوٹی ہے۔
خدا ہرمز نے ہوا کے فرشتے کو حکم دیا کہ وہ اس تیر کی دیکھ بھال کرے، اس کا خیال رکھے۔ ارش نے تیر کمان میں ڈالا اور خود اپنی پوری طاقت سمیٹ کر اپنے بازوؤں میں سمٹ گیا، پھر وہ کمان بن گیا اور جب کمان دہری ہو گئی اور جب تیر کو چھوڑا گیا تو ارش اپنی ساری طاقت سمیت تیر بن گیا۔ لوگوں نے دماوند کی چوٹی پر جاکر دیکھا وہاں کوئی بھی نہیں تھا، ارش تیر بن کر ہواؤں میں اُڑ چکا تھا۔ صبح کے وقت تیر چھوڑا گیا وہ دوپہر تک دریائے آمو کے پاس 2250 کلومیٹر دور جا گرا جو آج ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان سرحد ہے۔ یوں ایران اور تُوران کے مابین دریائے آمو سرحد قرار پایا اور اس سرحد کا تعین ایران کی لوک داستانوں کے نہایت طاقتور ہیرو ارش کمان گیر نے کیا۔ اس کے بعد کسی بھی شخص کو ارش ملا نہ اُس کی لاش ملی۔ مگر پہاڑوں کا سفر کرنے والے مسافر اب بھی یہ بتاتے ہیں کہ وہ جب راستہ بھول جاتے ہیں تو ارش کی آواز سنتے ہیں۔ جو صحیح راستہ تلاش کرنے میں اُن کی مدد کرتا ہے اور راہگیر مسافروں کی زندگیاں بچ جاتی ہیں۔
ارش ایران کی لوک روایات کا حصہ ہے۔ اس کے بارے میں لوک شاعری کی کئی یادگار نظمیں موجود ہیں۔ ایران کے لوگ ہر سال ارش تیرانداز کا جشن مناتے ہیں اور یہ جشن صدیوں سے منایا جا رہا ہے۔
جدید فارسی شاعری میں بھی ارش تیرانداز پر بڑی نظمیں موجود ہیں۔ ہمارے عہد کے فارسی شاعر بھی ارش کمان گیر پرنظمیں لکھ رہے ہیں۔ ارش کے بارے میں ایرانی شاعر سیاوش کسرائی اور فارسی شاعرہ تُوران شہریاری نے معرکتہ الاراء نظمیں لکھی ہیں۔ اب آپ سیاوش کسرائی کی نظم ارش کمان گیر پڑھیں مگر یہ ضرور یاد رکھیں کہ لوک داستانوں اور لوک روایات میں بڑے بڑے ہیروز کا ذکر ملتا ہے جو محیرالعقول کارنامے انجام دیتے ہیں۔ سندھ بلوچستان، سرائیکی وسیب، پنجاب، پختونخوا، گلگت بلتستان اور کشمیر کی سرزمین بھی ایسی لوک داستانوں اور ایسے ہی ماورائی ہیروز کے قصوں سے بھری پڑی ہے مگر تاریخ کے اصل ہیرو عوام ہوتے جو نیستی سے ہستی کشید کرتے ہیں، جو لاامکان سے امکانات پیدا کرتے ہیں اور جن کی محنت سے یہ دنیا موجودہ شکل میں موجود ہے۔ اب آپ سیاوش کسرائی کی نظم ارش کمان گیر پڑھیں۔
کہے یا ان کہے یہاں پر بہت سے نکات ہیں
کھلا آسمان ہے
گلابی سورج ہے
پھولوں کے باغ ہیں
فضا کھلی ہوئی اور پھیلی ہوئی ہے
برف کے نیچے پُھول اُگ رہے ہیں
بلوریں شیشےمیں مچھلی رقص کر رہی ہے
پہاڑ کی چوٹی پربارش کے قطرے پڑنے پرمٹی کی مہک آ رہی ہے
آمدورفت جاری ہے
بھاگ دوڑ ہو رہی ہے
محبت جاودانی ہے
غم محسوس ہوتا ہے
جب لوگ خوش ہوں تو رقص کرنے کو دل مچلتاہے
کام کرنے کو جی چاہتا ہے
ہاں ہاں، زندگی خُوبصورت ہے
زندگی ہمیشہ رہنے والی آتشکدہ کی آگ ہے
اگرتم اسے دمکتا دیکھوگے، تو یہ دیکھو گے کہ ہر ایک سرحد پر شعلے رقصاں ہیں
اور اگر دمکتا نہ دیکھو تو وہ خاموش ہوگی اوروہ ہماری بھول ہوگی
ایرانی فوج کچھ زیادہ پریشان نہیں ہے
رسی کو رسی سے کھینچنے میں بے حسی سی طاری ہے
بچے چھتوں پر کھڑے ہوئے ہیں
لڑکیاں گلیوں میں بیٹھی ہیں
مائیں دروازوں سے لگ کر کھڑی ہیں
وہ غمزدہ ہیں
لوگ وحشی سمندر کی مانند ہیں
جیسے سمندر میں ہواؤں کے جھکڑ چل رہے ہیں اور وہ غصے میں ہے
اور ایک شخص موتی کی طرح جنم لیتا ہے
یہ میں ہوں، ارش
یوں وہ دشمن سے محوِ گفتگو ہو جاتا ہے
یہ میں ہوں، ارش، آزاد فوجی آدمی
اب میں تیار ہوں
مجھ سے میرے پُرکھوں کے بارے میں مت پوچھو
میں محنت کش کا بیٹا ہوں، میں جدوجہد کی اولاد ہوں
میں ایسے دوڑتا ہوں جیسے آسمان کا برق رفتار ٹوٹا ہوا ستارہ ہوں
ارش سکون کے ساتھ شہر پر ایک نظر ڈالتا ہے
بچے چھتوں پر ہیں
لڑکیاں گلیوں میں بیٹھی ہیں
مائیں غمزدہ ہیں، دروازوں کے پاس بیٹھی ہیں
مرد راستے میں ہیں
ایک نغمہ ہے جس میں کوئی الفاظ نہیں، بس غمزدہ کر دینے والا دُکھ ہے
جمے ہوئے نپے تلے قدم اُٹھانے کیلئے کون سا گیت گایا جا سگتا ہے
ایسے قدم جو اپنی منزل سے خُوب اچھی طرح باخبر ہوں
اس کے دشمن ایک طنزیہ ہنسی کے ساتھ سڑک کھول دیتے ہیں
بچے چھتوں پر سے اُسے پکارتے ہیں
مائیں دعائیں کرتی ہیں
لڑکیاں ہاتھوں میں ہار لئے کھڑی ہیں اور انہیں مضبوطی سے تھام رکھا ہے
محبت اور طاقت اس کے سنگ ہے
ارش ، مگر وہ اب بھی خاموش ہے
وہ البرز پہاڑ پر چڑھ گیا
اور جو آنسو گرا ہے، وہ اس کے پیچھے چلے گا
رات کے وقت
وہ لوگ جو پہاڑ پر ارش کی طرف دیکھ رہے تھے
وہ واپس آگئے
ان کے پاس ارش کے وجود کی کوئی نشانی نہیں تھی
اُن کے پاش کمان تھی مگر تیر نہ تھا
ہاں ہاں ۔۔۔ارش نے اپنی زندگی اور اپنی روح کو تیر کے اندر ڈال دیا تھا
اس نے ہزاروں اور لاکھوں افراد جتنا کام کردیا تھا
میں منظر نقوی کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوں اور کہتا ہوں کہ انقلاب نے رضا شاہ پہلوی اور اس کے اقتدار کو روند دیا مگر انقلاب نے ایران کو پامال نہیں کیا۔
سعدآباد پیلس کمپلکس سے ہم امام موسیٰ کاظم کے صاحبزادے صالح بن امام موسیٰ کاظم کے مزار پر جاتے ہیں۔ ظالم بادشاہوں کے محلات اور درباروں سے نکل کر مظلوموں کے مزاروں اور خانقاہوں پر آنے کا ایک الگ ہی تجربہ تھا۔ یہاں پر ہم نے مزار کے احاطے کے باہر ایران کے اُن سائنسدانوں، اُن کے ساتھیوں اور اہلِ خانہ کی قبریں دیکھیں جو سامراج کی سائنسی برتری کو چیلنج کرنے میں کامیاب ہوئے اور ایران کو سائنس کے اگلے جدید دور میں لے گئے مگر اپنی زندگیاں ہار گئے اور انقلاب کی کامیابی کیلئے اپنی حیات کو ایران پر وار گئے۔(جاری ہے)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر