اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آبی وسائل: چند سوالات، تجاویز۔۔۔||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ظفر اقبال وٹو صاحب انجینئر ہیں، آب پاشی کے منصوبوں کے ماہر، مختلف ڈیمز پراجیکٹس پر پاکستان اور بیرون ملک کام کر چکے ہیں۔ ڈارفر، سوڈان میں ایک ڈیم کے سلسلے میں مقیم رہے، وہاں کا دلچسپ سفرنامہ انہوں نے لکھا تھا، جسے ہم نے روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز کے سنڈے میگزین میں شائع بھی کیا۔ ظفر اقبال وٹو صاحب کی دریائے ستلج کے حوالے سے ایک تحریر چند دن پہلے اپنے کالم میں شائع کی۔ ان کی تین مزید متفرق تحریریں بھی شامل کر رہا ہوں۔ ان سب میں ایک مخلص پاکستانی انجینئر کادردِدل اور کرب جھلک رہا ہے۔ پاکستانی آبی ذخائر میں پانی جمع ہونے سے یہ انجینئر خوش ہوتا ہے اور اسے تب کوفت اور تکلیف ہوتی ہے کہ یہ قیمتی پانی یوں ہی ضائع ہوجائے گا۔ اپنی سمجھ اور تجربے کے پیش نظر وہ تجاویز بھی دیتے ہیں اور مملکت خدادار کے مستقبل کے حوالے سے مثبت امیدوں کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ یہ تجاویز اور سوالات اہم حلقوں تک پہنچیں گے۔ موجودہ نگران حکومت اور مقتدر حلقے بہت سی چیزیں ٹھیک کرنے کااعلان کر رہے ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ پانی کے حوالے سے بھی بعض اہم فیصلے کر لئے جائیں۔ ظفر اقبال وٹو لکھتے ہیں:’’پاکستان کے تینوں بڑے آبی ذخیرے تربیلا ، منگلا اور چشمہ 17 اگست کو ایک ہی دن ایک ساتھ برلب بھرگئے۔ پانی کی دنیا کے لئے یہ ایک بہت بڑی خبر تھی لیکن پاکستان کی معیشت کے لئے آکسیجن بھری یہ خبربٹ گرام چیئر لفٹ جیسی توجہ نہ پاسکی۔ تینوں ذخیروں میں کل ملا کر 13 ملین ایکڑ فٹ پانی جمع ہے جوکہ آنے والی سردیوں میں نہ صرف فصلوں کے لئے دستیاب ہوگا بلکہ بجلی بھی بنے گی۔ غیر یقینی موسمی صورت حال اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے درمیان واپڈا اور ارسا کی یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔ مشرقی دریاوں میں پانی کی بہتر صورت حال بھی اس کی ایک وجہ بنی۔ علاقائی سطح پر دیکھا جائے تو اسی وقت میں انڈیا میں بھی ستلج پر بکھڑا ڈیم اور بیاس پر پولنگ ڈیم بھی بھر گیا۔ ’’یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تربیلا ، منگلا اور چشمہ جیسے ذخیروں کے کْل حجم سے دْگنے حجم کے برابر پانی ایک ہی جگہ پوٹھوہار میں ذخیرہ کرنے کی قدرتی جگہ ہونے کے باوجودبھی ہم ادھر یونیٹی ڈیم بنانے کا حوصلہ نہیں کر پارہے اور بہت دیر کر چکے ہیں۔ اس جگہ بننے والا ڈیم چائنہ کے تھری گور جز ڈیم سے بھی بڑا ہوگا۔ سوال مگر یہی ہے کہ اس کی ہمت کون کرے گا؟‘‘ پچھلے دنوں پوٹھوہار میں منی ڈیمز کے حوالے سے ایک صاحب عرفان خان کی ڈیم سٹوری سننے کو ملی۔ اس پر تو پھر کبھی ، مگر سردست اتنا کہ پوٹھوہار میں تین ہزار کے قریب مِنی ڈیمز بنے ہیں، بہت سے بیکار بھی کھڑے ہیں، مگر ان پر توجہ دے کر ان کے مسائل دور کئے جا سکتے ہیں۔ ظفر اقبال وٹو صاحب اس حوالے سے لکھتے ہیںـ:ـ ’’ مِنی ڈیم ‘‘ وہ ڈیم ہوتا ہے جوکہ تقریباً 100 ایکڑ فٹ حجم تک کا پانی ذخیرہ کرسکے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق خطہ پوٹھوہار(جہلم، پنڈی، چکوال اور اٹک) کے اندر 1500سے زیادہ منی ڈیم بنے ہوئے ہیں تاہم منی ڈیموں کی اصل تعداد شائد تین ہزار سے بھی زائد ہے۔ ABAD کے دعوے کے مطابق صرف پوٹھوہار میں چھ ہزار منی ڈیم بنانے کی مناسب جگہ موجود ہیں۔ ’’پوٹھوہار کا علاقہ 22 ہزار اسکوائر کلومیٹر سے زیادہ ہے ۔جہاں سالانہ 2 ملین ایکڑ فٹ پانی بارش سے آتا ہے۔ تاہم اس وقت اس پانی کا صرف 20 فی صد ہی استعمال کیا جارہا ہے۔ سواں اور ہرو اس خطہ کے دو اہم دریا ہیں۔ ان دریاوں پر کوئی بڑا ڈیم تو نہیں بنا لیکن سمال ڈیم آرگنائزیشن نے 57 سمال ڈیم بنائے ہوئے ہیں جن کی اسٹوریج کیپیسٹی 0.22 ملین ایکڑ فٹ ہے جبکہ 0.35 ملین ایکڑ فٹ کیپیسٹی کے 11 ڈیم تعمیر ہو رہے ہیں۔ جن سے ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ اراضی کاشت ہو سکے گی۔ ’’پوٹھوہار میں منی ڈیم کی تعمیر زیادہ تر ABAD کا ادارہ کرتا ہے جوکہ 1978 میں قائم ہوا تھا جس کے ذمے بارانی علاقوں میں پانی کے وسائل کو بہتر بنانا تھا۔ آباد نے 12 سمال ڈیم،1092 منی ڈیم، 1351 تالاب اور 4698 کنوئیں اور تالاب بنوائے جن سے 86 ہزار سے زیادہ اراضی کی آب پاشی ہو سکتی تھی۔ ’’اب تک تعمیر ہونے والے منی ڈیم حکومت کی جانب سے کسانوں کو ستر سے اسی فی صد کی سب سڈی دے کر بنائے گئے ہیں۔ کسان ڈیم تو بنوا لیتے ہیں لیکن ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں لیتے۔ یہ سب ڈیم زرعی مقاصد کے لئے تعمیر کئے گئے ہیں لیکن ان میں سے 80% ڈیموں کا پانی زراعت کے لئے استعمال ہی نہیں ہوتا۔ان ڈیموں سے 17 ہزار ایکڑ اراضی پر آب پاشی ہو سکتی ہے لیکن اس وقت یہ زیادہ تر مچھلی پالنے کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔ ’’ ان ڈیموں پر زراعت نہ ہونے کی بڑی وجہ کسانوں کی غربت ہے کیونکہ اکثر کسان چھوٹے چھوٹے قطعات اراضی کے مالک ہوتے ہیں اور ان کے پاس منی ڈیم کو چالو حالت میں رکھنے، نظام آب پاشی بنانے، زمین ہموار کرنے یا پمپ موٹر لگانے کے پیسے ہی نہیں ہوتے۔ اکثر زمینیں ڈیم سے اوپر ہوتی ہیں جہاں پانی لفٹ کرنا پڑتا ہے۔ سولر نے آکر کچھ آسانی پیدا کی ہے لیکن سولر کے بھی اپنے سو خرچے ہیں۔اسی طرح کھاد، کیڑے مار ادویات اور اچھی کوالٹی کے بیجوں کا بروقت ملنا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ’’اسی طرح منی ڈیموں کے اپنے بھی کئی مسائل ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ ڈیم میں مٹی کا جم جانا ہے جس کی صفائی پر ہر سال بہت خرچہ ہوتا ہے۔ان کا ڈیزائن بھی بعض دفعہ صحیح نہیں پاتا کیونکہ پانی پر کوئی تفصیلی اسٹڈی نہیں کی جاتی۔ کچھ جگہیں ہموار ہونے کی وجہ سے ذخیرہ شدہ پانی زمین کی سطح پر حد سے زیادہ پھیلنے کی وجہ سے بخارات بن کر جلدی اڑ جاتا ہے۔منی ڈیموں کے علاوہ ڈائریکٹریٹ آف سائل کنزرویٹو پوٹھوہار کے علاقے میں بہت سے جوہڑ اور تالاب بھی بنوا رہا ہے۔ضرور ت اس بات کی ہے ان تمام ڈیمز کو دیکھا جائے اور ان کی خرابیاں دور کر کے انہیں فنکشنل بنایا جائے تاکہ ہزاروں ایکڑ بیکار پڑی اراضی کاشت ہوسکے۔ ‘‘ کراچی کے حب ڈیم کے حوالے سے انجینئر ظفر اقبال وٹو کی ایک دلچسپ تحریر ،ان کا کہنا ہے :’’ اگست کے پہلے ہفتے میں کراچی کے نواح میں حب ڈیم پانی کے مکمل بھرنے کے نشان تک بھر چکا۔ اسپل وے مسلسل چل رہے ۔ واپڈا کا عملہ ڈیم کے مختلف حصوں کی نگرانی کر رہا ۔یہ ڈیم پچھلے سال بھی پانی سے مکمل بھر گیا تھا اور 2020 میں بھی بھرا تھا۔ اندازہ ہے کہ ایک دفعہ بھرنے کے بعد حب ڈیم تین سال تک کراچی کی پانی کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔ ’’پچھلے تین سالوں سے حب ڈیم کے اسپل وے سے پانی کا متواتر اخراج اور اس کاسمندر برد ہونا ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ حب ڈیم کے اوپر کی طرف دریا پر کوئی مناسب جگہ ڈھونڈ کر ایک ’’کیری اوور‘‘ ڈیم بنا یا جائے تاکہ حب ڈیم کو خطرے میں ڈالنے یا اسپل وے سے حب ڈیم کے حجم کے برابر پانی اسپل اوور کرکے سمندر برد کرنے کی بجائے کراچی کے لئے ذخیرہ کیا جاسکے۔ ’’حب ڈیم کراچی کی تین سال تک پانی کی ضروریات پوری کر سکتا ہے اور کیری اوور ڈیم بننے سے یہ وقت چند سال مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔مزید برآں اسپل اوور پانی کو بھی سمندر برد کرنے کی بجائے دریائے حب کے اندر مناسب جگہ پر بیراج بناکرروکا جا سکتا ہے اور اس کا رخ نشیبی زمینوں یا آف لائن اسٹوریجز کی طرف موڑا جاسکتا ہے۔زیر زمین پانی ری چارج کیا جا سکتا ہے۔ ’’حب ڈیم میں ستر فی صد تک پانی بلوچستان کا آرہا ہ۔ بلوچستان کو لسبیلہ کینال سے زیادہ سے زیادہ 170 کیوسک پانی ہی مل سکتا ہے۔ لیکن نہر میں اکثر 100 کیوسک سے زیادہ پانی چھوڑا ہی نہیں جاتا۔اب حکومت ِ بلوچستان نے حب ڈیم کے کیچمنٹ میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے کی اسٹڈی کروائی ہے تاکہ مقامی ضروریات کا پانی تھوڑا تھوڑا وہیں پر ہی جمع کیا جائے جہاں سے پانی کا بہاؤ شروع ہوتا ہے۔ ’’ حب ڈیم کراچی والوں کو واقعی برسوں کی ضروریات کا پانی دے سکتا ہے لیکن اس ڈیم کا پانی کراچی پہنچ کر بِکتا ہے ۔یہ ایک بہت بڑا کاروبار ہے۔حب ڈیم سے کراچی کو پانی سپلائی کرنے والے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا ہوگا۔ کراچی واٹر سپلائی بورڈ کی صلاحیت بہتر بنانا ہوگی اور واٹر گورننس بہتر بنا کر کراچی کے عوام کو ٹینکر مافیا سے نجات دلوانا ہو گی۔‘‘

 

 

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: