اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قائد اعظم!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بانی پاکستان قائد اعظم کی بات کرنے سے پہلے اس کا افسوس اور تعزیت ضروری ہے کہ مراکش میں زلزلہ سے دو ہزار سے زائد افراد شہید ہو گئے اور ہانگ کانگ میں بارشوں سے سخت جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں دو صدیوں کی بارشوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحمت فرمائے اور کُل جہان کی خیر ہو۔ ہم پاکستانی اور بانی پاکستان کو بھی یاد کرتے ہیں مگر یہ سب کچھ زبانی کلامی ہے۔ آج 11 ستمبر ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم وفات، ملک بھر میں تقریبات منعقد ہوں گی، مزار قائد پر گارڈز کی تبدیلی ہو گی، حکمران پھولوں کی چادریں بھی چڑھائیں گے۔ اخبارات خصوصی ایڈیشن شائع کریں گے۔ ٹی وی پر قائد کے فرمودات نشر ہوں گے۔ ٹی وی سکرین پر قائد کی یاد میں پروگرام ہوں گے۔ وہی تقریریں ہوں گی جو ہر سال کی جاتی ہیں لیکن یہ کوئی نہیں بتائے گا کہ قائد کی روح ان دنوں کس کرب سے گزر رہی ہے۔ کاش کوئی صاحب بصیرت، اہل وطن کو بتائے کہ قائد اعظمؒ کی روح ہماری ابتری پر کس قدر پریشان ہے۔ وہ دیکھ رہی ہو گی کہ ان کے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ ان کی کرسی پر اب تک کس کس طرح کے لوگ بیٹھ چکے ہیں؟ قائد نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ پاکستان میں حکمران ، عدلیہ کو زیر کرنے کے لیے یہ کچھ کر گزریں گے۔ قائد اعظم نے قوم کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت دی، بعد میں آنیوالوں نے اسے دو لخت کرا دیا اور اب بقیہ پاکستان بھی سنبھالا نہیں جا رہا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قائداعظم تاریخ ساز شخصیت تھے مگر ہم نے اُن کے ساتھ جو کچھ کیا اس کا تذکرہ نہایت ہی دل اعزاری کا باعث ہے۔ آج بھی بلوچستان کے لوگ علاج کیلئے کراچی آتے ہیں مگر قائد اعظم کو علاج کیلئے بلوچستان بھیجا گیا، واپسی کھٹارہ ایمبولینس میں ہوئی اور جس حالت میں 11 ستمبر 1948ء کو قائد کی وفات ہوئی اس پر تحقیق اور ریسرچ ضروری ہے۔ بات صرف قائد اعظم تک محدود نہ رہی بلکہ اُن کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ جو کچھ ڈکٹیٹر ایوب خان کے دور میں جو سلوک ہوا اس پر بھی تحقیق ہونی چاہئے۔ قائد اعظم کی زندگی پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے بارے میں جاننا ضروری ہے کہ قائد اعظم 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں کھارادر کی بستی میں وزیر مینشن میں پیداہوئے۔ اصل وطن راج کوٹ تھا۔ ان کے والد جناح پونجا چمڑے اور کھالوں کا کاروبار کرتے تھے اور آپ کی پیدائش سے کچھ عرصہ قبل ہی کاروبار کی وسعت کیلئے راج کوٹ سے کراچی منتقل ہوئے تھے۔قائدا عظم اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے ، آپ نے 1885ء اور 1886ء میں گوکل داس تیج پرائمری سکول بمبئی میں ، پھر سندھ مدرسۃ الاسلام اور کرسچن مشن ہائی سکول کراچی میں تعلیم پائی۔ مئی تا دسمبر 1914ء برطانیہ میں اس کانگریسی وفد میں بطور رکن شامل رہے جو انڈیا کونسل کے مجوزہ آئینی اصطلاحات پر غور کرنے کیلئے انگلستان بھیجا گیا تھا ۔ دسمبر 1915ء اور جنوری 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے آٹھویں اجلاس میں شریک ہوئے ۔ اکتوبر 1916ء میں بمبئی پراونشل کانفرنس منعقدہ احمد آباد کی صدارت کی ، مرکزی قانون ساز اسمبلی میں بر اعظم پاک و ہند کے کسی بھی پارلیمنٹرین سے زیادہ عرصے تک اور سب سے زیادہ تدبر، حکمت ، جرات اور حریت سے شاندار کردار ادا کیا ۔ 1919ء میں مسلم لیگ کے بارہویں اجلاس کی صدارت کی۔ 1920ء میں چودہ سالہ رفاقت کے بعد کانگریس کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے۔ 1922ء میں آل پارٹیز کانفرنس بمبئی کے سیکرٹری منتخب ہوئے ۔قائد اعظم کا اہم کارنامہ لاہور میں 1940ء کی قرارداد ہے ۔ حالانکہ اس وقت لاہور یونینسٹ پارٹی کا مرکز کہلاتا تھا ۔قیام پاکستان کے بعد 14 اگست 1947ء کو پاکستان کے گورنر جنرل بنے اور 11 ستمبر 1948ء کو وفات پائی ۔ آپ اندازہ کیجئے کہ قیام پاکستان سے پہلے نواب بہاولپور نے ریاست کی طرف سے ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا جس پرایک طرف مملکت خداداد بہاولپور اور دوسری طرف پاکستان کا جھنڈا تھا ،پاکستان قائم ہوا تو قائداعظم ریاست بہاولپور کی شاہی سواری پربیٹھ کر گورنر جنرل کا حلف اٹھانے گئے ،پاکستان کی کرنسی کی ضمانت ریاست بہاولپور نے دی ،پہلی تنخواہ کی چلت کیلئے پاکستان کے پاس رقم نہ تھی تو نواب بہاولپور نے پہلے تنخواہ کی چلت کے لئے 7کروڑ روپے کی خطیر رقم دی۔ قائد اعظم نواب بہاولپور صادق محمد خان کو محسن پاکستان کہتے تھے ۔قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ قیام پاکستان سے قبل بھی ایک پاکستان ڈھائی سو سال پہلے موجود تھا اور اس کا نام ریاست بہاولپور تھا ۔ تحریک پاکستان قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کیلئے ریاست بہاولپور کا کردار ناقابل فراموش ہے مگر افسوس کہ آج ان باتوں کا تذکرہ تاریخ پاکستان اور نصاب کی کسی کتاب میں موجود نہیں۔قائداعظم کا بہاولپور سے اتنا تعلق تھا مگر افسوس کہ نصاب میں اس کا تذکرہ نہیں ہے قائداعظم وسیب سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے پاکستان کے لئے وسیب خصوصاً ریاست بہاولپور کی خدمات کا اعتراف کرتے تھے۔ اب باتوں کو نئے سرے سے دیکھنے اور پاکستان کی عصری اور حقیقی تاریخ مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: