نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امام خمینی میوزیم۔ انقلاب تصویروں کے آئینے میں(12)||نذیر لغاری

نذیر لغاری سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور ادیب ہیں اور مختلف قومی اخبارات ، رسائل ،جرائد اور اشاعتی اداروں میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، ان کی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے گھر اور میوزیم سے باہر آتے ہوئے میں سوچتا ہوں کہ سر پر ہماری سرائیکی طرز کی پگڑی باندھے کلین شیو آیتہ اللہ ہاشمی رفسنجانی کے انقلابی بننے کی قوتِ محرکہ کیا رہی ہوگی۔ اصل بات یہ ہے کہ شاہ ایران کے بدترین طرزحکمرانی نے اہلِ ایران کو بیزار کر دیا تھا، وہ کسی بھی صورت میں ایک انقلابی تبدیلی چاہتے تھے اور 1951ء سے 1953ء تک محمد مصدق کے دور میں مکمل عوام دوست دور کے تجربے کے بعد اُن کا تختہ اُلٹے جانے کو ایرانی عوام نے دل سے قبول نہیں کیا۔ ایران کے عوام شاہ ایران کے دور سے بھی پہلے اُن کے والد کے زمانے سے سامراج مخالف انقلابی جدجہد کا ہراول دستہ بنے ہوئے تھے۔ سوویت بالشویک انقلاب کے بعد ایران میں انقلابی مدوجزر موجود تھا۔ مگر فروری 1981ء کے ایرانی انقلاب میں تھکا ہوئے سامراج اور ایران عوام کی نفرت کا شکار بادشاہ آریا مہر کے سامنے آیتہ اللہ خمینی کے آگے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ امریکہ اور یورپ کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا کہ وہ ایرانی عوام کے انقلابی عمل اور انقلابی قیادت کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کریں۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو یہ انقلاب ہزاروں دیگر راستے تلاش کر لیتا۔ جو سامراج اور استعمار کی بہت بڑی تباہی پر منتج ہوتا۔پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امریکہ، یورپ اور عالمی سامراجی طاقت کے مراکز نے اس انقلاب کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا مگر میں نے ایران کے اس سفر میں انقلاب کو اب بھی ایک قوت کے طور پر آگے بڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ ویسے بھی انقلاب کوئی لمحاتی عمل نہیں ہوتا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح انقلابِ فرانس دو صدیوں سے زائد مدت گزرنے کے بعد اب بھی رواں دواں ہے اسی طرح انقلابِ ایران 44 سال گزرنے کے بعد اب بھی رواں دواں ہے اور یہ ایرانی
عوام کا انقلابی شعور ہی ہے جس نے نئی انقلابی مثبت روایات کو جنم دیا ہے۔ جس کا حوالہ میں ایرانی سماج میں عورت کے مقتدر ہونے کے معاملے میں دے چکا ہے۔ ایرانی عورت محض شوپیس نہیں ہے بلکہ وہ ایک فرد کے طور پر زندگی کے ہر شعبہ میں آگے بڑھتی نظر آتی ہے۔

  
ہم صدر ہاشمی رفسنجانی کے گھر اور میوزیم سے چند قدم آگے چلنے کے بعد امام خمینی میوزیم کے دروازے پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں انقلاب ایک دستاویزی شہادت کے طور وقوع پذیر ہوتا نظر آتا ہے۔ آپ یہاں انقلاب کو اس زمانے میں واقع ہوتے دیکھتے ہیں جس زمانے میں اس کی کامیابی کے بارے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
ہم امام خمینی میوزیم میں داخل ہوئے تو پہلی نظر ایک پینٹنگ پر پڑتی ہے جس میں آیتہ اللہ خمینی ایک کرسی پر بیٹھے ہیں۔ انہوں نے ایک دراز جبہ پہن رکھا ہے، سر ہر سیاہ دستار ہے۔ ان کے پیچھے اُن کے صاحبزادے احمدخمینی کھڑے ہیں۔ دونوں کا لباس بالکل ایک جیسا ہے۔ پینٹنگ کا پس منظر بہت ہی خوبصورت ہے۔ ایک دوسری تصویر ان کی جوانی کی ہے۔ یہاں پر زیادہ تر تصاویر بلیک اینڈ وہائٹ ہیں۔ جوانی کی یہ تصویر اس دور کی ہے جب ایران میں شاہی جبرو استبداد کے خلاف ایرانی عوام کے غصے اور ناراضگی نے انقلابی رنگ اختیار کرنا شروع کر دیا تھا۔ جوانی کی تصویروں میں آیتہ اللہ خمینی عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے نظر آتے ہیں۔ بعض تصاویر میں وہ علماء اور طلباء سے گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر انقلاب کے دور کی تصاویر لگائی گئی ہے۔ ان تصاویر میں آیتہ اللہ خمینی کی پیرس سے تہران پہنچنے کی تصاویر ہیں۔ شاہ کے بعد شاہ پور بختیار بھی فرار ہو چکا ہے۔ ریاست کا اقتدار آیتہ اللہ خمینی کے انقلابی رفقاء کی کونسل نے سنبھال لیا ہے۔ مہدی بازرگان کو وزیر اعظم بنایا جا چکا ہے۔ وہ ایک نامور ایرانی اسکالر، معلم، مدرس اور جمہوری جدجہد کے ایک سپاہی رہے ہیں۔وہ تہران میں پیدا ہوئے، زیورخ میں اُن کا انتقال ہوا اور قم میں تدفین ہوئی۔ وہ تحریک آزادئ ایران، نیشنل فرنٹ اور ایران پارٹی کے سرگرم رکن رہے۔ فروری میں انقلاب کی کامیابی کے بعد آیتہ خمینی نے انہیں ملک کا وزیراعظم نامزد کیا۔ میوزیم میں عوام کے انقلابی جوش وخروش کی تصویروں سے انقلاب کی رفتار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہر انقلاب اس امر کی یقین دہانی ہوتا ہے کہ جب عوام طاقت کے ہر سرچشمہ کو براہِ راست اپنے ہاتھوں میں لینے کا فیصلہ کرلیتے ہیں تو دنیا کی کوئی بھی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔ ایک تصویر میں ایران کے موجودہ سپریم لیڈر علی حسینی خامنہ ای اور دیگر علماء آیتہ اللہ خمینی کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ ایک اور تصویر میں علی خامنہ ای آیتہ اللہ خمینی کو ایک دستاویز پیش کررہے ہیں۔ یہاں پر ایک تصویر ایسی بھی ہے جس میں انقلاب کے بعد دوسرے صدر محمد علی رجائی اور وزیراعظم علی خامنہ ای آیتہ اللہ خمینی سے باہم صلاح مشورہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک تصویر میں آیتہ اللہ خمینی خواتین کے ایک وفد سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں یاد دلا رہے ہیں کہ خواتین کی انقلاب میں بطور انقلابی عملی شرکت کے بغیر انقلاب کی کامیابی ممکن نہیں تھی۔ میوزم میں ایک بہت دلچسپ چیز آیتہ اللہ خمینی کی ایک غزل کا فریم ہے۔ وہ صاحب دیوان غزل گو شاعر تھے۔ جس طرح انقلاب کے رہبر کے طور پر ان کی حیثیت مسّلمہ ہے اسی طرح وہ فارسی غزل کے بھی سکہ بند مسّلمہ شاعر ہیں۔ آپ اُن کی غزل پڑھیں اور پھر میں اس کا ترجمہ پیش کرتا ہوں۔ اس سے آپ اُن کی شاعری کے شناسا ہوں گے۔

Advertisement

من بخالِ لبت اے دوست گرفتار شدم
چشمِ بیمار ترا دیدم و بیمار شدم
فارغ از خود شدم و کس انالحق یزدم
ہمچو منصور خریدار سر دار شدم
غمِ دلدار فکندہ است بجانم شرری
کہ بجان آمدم و شہرۂ بازار شدم

Advertisement

در میخانہ کشائید برویم شب و روز
کہ من از مسجد و از مدرسہ بیزارشدم
جامہ زُہد و ریا کندم و بر تن کردم
خرقۂ پیر خراباتی وہُشیار شدم
واعظِ شہرکہ از پندخود آزارم داد
از دم رند مے آلودہ مدد کار شدم

Advertisement

بخدا رید کہ از بتکدہ یادی بکنم
من کہ باد است بت میکدہ بیدار شدم 

 

 

اب اس غزل کا منظوم اردو ترجمہ پڑھیئے۔ یہ ترجمہ دیوان امام خمینی کے مترجم جناب ابنِ علی واعظ نے کیا ہے۔
خالِ لب کا تیرے اے دوست گرفتار ہوں میں

Advertisement

چشمِ بیمار کو دیکھا ہے تو بیمار ہوں میں
کوس اناالحق کا بجایا ہے مثلِ منصور
اتنا بیخود ہوں، خریدار سرِ دار ہوں میں
غمِ دلدار نے بھر دی وہ مری روح میں آگ
جان سے بیزار ہوں اور شہرۂ بازار ہوں میں
وا رہے میرے لئےمیکدہ کا در شب و روز

Advertisement

مسجد و مدرسہ دونوں ہی سے بیزار ہوں میں
جامۂ زہد وریا پھینک دیا اور پہنا
خرقۂ پیرِخرابات تو ہُشیار ہوں میں
واعظ شہر کی باتوں نے ستایا جومجھے
رندِ مے خوار کا ہمدم وہمکار ہوں میں
یاد بتخانہ کروں اب کہ میکدہ نے

Advertisement

خواب سے مجھ کو جگایا ہے توبیدار ہوں میں
ہم غزل کے حال و قال اور موج مستی کو اپنے وجود میں محسوس کرتے ہوئے روایتی انداز میں واہ واہ کہہ کر داد دیتے ہیں۔ اتنے میں نشروآثارِ خمینی کے بین الاقوامی امور کے جناب اسرار عسکر خانی کی آواز ہمیں چونکا دیتی ہے۔ ہم نے ابھی امام بارگاہ حسینیہ جانا ہے۔ اسرار عسکر خانی ہمیں ساتھ لے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔(جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

About The Author