اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لہجے میں تلخی آنا فطری ہے!۔۔۔||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اپنا کالم پوسٹ کیا تو کمنٹس میں مختلف احباب نے اپنا فیڈ بیک دیا۔ ظاہر ہے مشکلات ایسی ہیں کہ ہر کوئی پریشان ہے اور لہجے میں تلخی آنا فطری ہے۔ میں ایسے اختلافی کمنٹس کا ہرگز برا نہیں مانتا اور نہ انہیں ڈیلیٹ کرتا ہوں۔

میرے چند سوال ہیں کہ کیا ایسے میں اگر ہم اپنے سے نیچے والے کمزور لوگوں کی کچھ مدد کر سکتے ہیں تو کرنی چاہیے یا نہیں ؟
کیا سیاستدانوں، حکمرانوں پر تنقید کرتے رہیں، انہیں الٹا لٹکانے کے یا دیگر مشورے دیتے رہیں یا پھر جو ہمارے بس میں ہے وہ کر گزریں ؟ کیا ایسا کہنا کمزوری، بزدلی یا حریت فکر کے منافی ہے ؟ایسا کہنے والا مزاحمتی نہیں کہلا سکتا؟

کیا پاکستان میں سٹورز پر امپورٹڈ اشیا فروخت ہونا بند ہوچکی ہیں ؟
کیا نوٹیلا چاکلیٹ یا دوسرے چاکلیٹ سپریڈ مارکیٹ سے اٹھا لئے گئے ہیں ؟ ان کا اب کوئی خریدار باقی نہیں رہا؟
کیا لوگ چیز (پنیر )نہیں لیتے، دکانوں ، سٹورز پر یہ نظر نہیں آتیں؟ یہ غائب ہوچکی ہیں یا انہیں لینے والی کوئی غیر مرئی مخلوق ہے؟
کیا بیکن ہائوس، گرائمر سکول، سٹی سکولز، پاک ترک اور اسی طرح کے دیگر سکولز بند ہوچکے ہیں؟
کیا نجی کالج، یونیورسٹیوں میں بچے پڑھنے کے لئے نہیں جاتے؟
یا یہ تعلیمی ادارے اپنی لاکھوں کی فیسیں معاف کر کے مفت پڑھانا شروع کر چکے ہیں ؟

صرف پنجاب سکولز کے طلبہ کی تعداد ہی گن لی جائے کتنی ہے؟ صرف لاہور میں کم از کم تیس چالیس ہزار یہ طلبہ ہوں گے، مختلف کورسز میں ان کی اوسط فیس سوا لاکھ ڈیڈھ لاکھ سالانہ سے کم نہیں۔ جبکہ نجی یونیورسٹی کے ہزاروں طلبہ تین سے چار لاکھ روپے سالانہ فیسییں دے رہے ہیں۔ پنجاب بھر کو دیکھیں گے تو یہ تعداد لاکھوں تک چلی جائے گی۔

کیا لاہور شہر یا دیگر شہروں کے ہوٹلوں، ریسٹورینٹس میں کھانے والے کم ہوچکے ہیں؟کیا یہ ہوٹل ویران پڑے ہیں اور لنچ، ڈنر کے وقت وہاں اداسی بال کھولے سورہی ہے ؟

کیا دنبہ کڑاہی، مٹن کڑاہی کا رواج ختم ہوچکا ہے؟ شنواری ، چرسی تکہ اور اس طرح کے دیگر کھانے کے مراکز پر رش نہیں ہوتا؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک کلو مٹن کڑاہی کتنے ہزار کی بنتی ہے؟
کیا دوست احباب اگر اپنے ایک ہفتہ وار کھانے کو ملتوی کر کے اس کی رقم سے دو تین گھرانوں کا ضرورت کا راشن نہیں لے سکتے؟

کیا لاہور میں جوہر ٹائون، گلبرگ، ڈیفنس، ایم ایم عالم روڈ بلکہ لکشمی، گڑھی شاہو، اکبر چوک، برکت مارکیٹ، صدر، اقبال ٹائون اور دیگر علاقوں میں بے شمار ریستوران میں کھانے کے وقت آسانی سے میز نہیں ملتی ؟ کیا ایسا نہیں ہوتا؟
یہ صرف لاہور کی بات کہی ہے کیونکہ یہاں کا ذاتی مشاہدہ ہے۔

تو یارو اس کا مطلب ہے کہ صرف ایک شہر لاہور میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ صرف اپنی دال روٹی کے علاوہ بھی کچھ دیگر چیزوں پر خرچ کر رہے ہیں۔
میں مانتا ہوں کہ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح نے ان کے لئے بھی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ جن کی ماہانہ گروسری دس بارہ ہزار تھی، وہ اب بیس ہزار سے اوپر چلی گئی یا دیگر اخراجات بڑھ گئے،اب پہلے جیسا کھلا خرچ نہیں ہوسکتا۔
اس کے باوجود بہرحال ایسا نہیں کہ پورا شہر فاقے کر رہا ہے ۔
صاحب حیثیت لوگ بھی موجود ہیں اور مڈل کلاس بھی جن کے لئے زندگی مشکل ہو رہی ہے، مگر بہرحال انہیں فاقوں کا سامنا نہیں۔
ایسے لوگ بھی ہیں جن کا گزارا مشکل ہوگیا ہے اور کچھ نہ کچھ مانگنے کی ضرورت پڑتی ہے مگر وہ کسی طرح کام چلا رہے ہیں۔
ایسے لوگ بہرحال اب زیادہ ہو رہے ہیں جن کے لئے روزمرہ زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے۔ سروائیول مشکل ہوگیا ہے۔ وہ روٹی تو کسی طور کھا ہی لیتے ہیں، مگر بجلی کے بل نہیں دے سکتے ۔
میرے آج کے کالم کا مقصد صرف اس جانب توجہ دلانا تھا کہ سیاسی احتجاج اور تنقید اپنی جگہ۔ وہ بھی چلتی رہے ، لعن طعن بھی کرتے رہیں اور استحصالی طبقات کا محاسبہ بھی ضرور کریں۔
جب ووٹ کے ذریعے موقعہ ملے تب تو بڑی بے رحمی سے کریں اور لازمی کریں۔ سوال مگر یہ ہے کہ تب تک جو ہمارے سامنے دم توڑ رہے ہیں، انہیں دیکھتے رہیں، تماشا دیکھتے رہیں؟
نہیں بلکہ اصول یہی ہے ، شرعی تقاضا بھی یہی ہے کہ اپنے وسائل میں جس حد تک کٹ لگ سکتا ہے، وہ لگائیں اور اپنے کسی ضرورت مند بھائی بہن کی مدد کریں۔

ظاہر ہے یہ تقاضا ان سے نہیں ہے جن کے لئے گزارا کرنا مشکل ہے اور ان کے لئے پانچ سو کا کٹ لگانا بھی ممکن نہیں۔
انہیں میرے کالم یا اس پوسٹ سے پریشان اور برہم ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ اللہ آپ کے حال کو جانتا ہے، محاسبہ اور جوابدہی ہمارے حالات اور وسائل کے مطابق ہی ہوگی۔
اللہ پاک ہم سب کے لئے آسانیاں عطا فرمائے ۔

میرا اب بھی یہی کہنا ہے کہ ہم میں سے کچھ کے لئے یقینی طور پراپنے اخراجات میں کچھ کٹ لگانا ممکن ہوسکتا ہے۔ وہ کٹ لگائیں اور دو تین ہزار سے بھی کسی کی مدد کر دیں، اس کا راشن آجائے گا، کچھ نہ کچھ ہوجائے گا۔
کسی کے گھر ایک لٹر آئل کا پیکٹ بھی بھجوا دیں تو تین چار دنوں کے لئے کھانا پکانا ممکن ہوجائے گا۔ آٹے کا تھیلہ، دو چار کلو چاول یا دالوں کے چھوٹے پیکٹس وغیرہ وغیرہ۔ بہت کچھ ہوسکتا ہے۔
آلو پیاز ہی لے دیں اپنی ملازمہ کو، ڈرائیور کو، گلی محلے کے گارڈز کو، دفتر کے ملازمین کو۔ ہر اس شخص کو جس کا کسی نہ کسی انداز سے آپ سے کوئی کنکشن ہے، وہ آپ کو نظر آتا ہے، آپ اسے جانتے ہین، آپ کا اس کا کوئی تعلق ہے، اگر اس کی تھوڑی سی بھی مدد کر سکین تو کریں۔
آپ کی ملازمہ یا ملازم کے گھر اگر دس بارہ ہزار کا بل آگیا ہے اور آپ اس میں حصہ ڈال سکتے ہیں تو ڈال دیں یار۔ وہ اپنی تنخواہ آپ سے لے رہے ہیں مگر اس بحرانی دورمیں اگر آپ اپنے کسی کام کی چیز کو ملتوی کر کے ، کوئی شاپنگ موخر کر کے اس ملازم یا کسی سفید پوش ہمسائے، کسی ضرورت مند عزیز کی خاموشی سے مدد کر سکتے ہیں تو کر گزریں۔

اور ہاں یہ تو وہ ہے جو میری سمجھ میں آیا، میں نے لکھ ڈالا۔ آپ لوگ زیادہ بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔ ضرور کریں۔ میں آپ لوگوں کی تحریریں بھی اپنی وال پر شیئر کر دوں گا۔ خواتین بجٹ زیادہ بہتر بنا سکتی ہیں اور وہ تجاویز بھی اچھی دیتی ہیں۔

بات یہی ہے کہ ہم کھڑے تماشا دیکھتے رہیں، تلملاتے رہیں، بڑبڑاتے رہیں یا اس مصیبت میں گھرے لوگوں کی عملی طور پر مدد کر دیں۔ جس حد تک ممکن ہو، جتنی بھی ہوسکے۔

نوٹ: اگر آپ لوگوں کو یہ بات ٹھیک لگے تو اسے شیئر کرنے کے بجائے کاپی پوسٹ کریں تاکہ زیادہ لوگ اسے پڑھ سکیں۔
اس قسم کی تحریریں شیئر کرتے ہوئے مصنف کے نام دینے کی بھی ضرورت نہیں۔ مجھے اس سے بالکل ہی فرق نہیں پڑتا ۔ اصل بات یہ ہے کہ پیغام دوسروں تک پہنچیں اور کسی کو تو فائدہ ہوجائے۔

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: