دسمبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایران نیشنل میوزیم۔ ڈھائی لاکھ سال کی نشانیاں(8)||نذیر لغاری

نذیر لغاری سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور ادیب ہیں اور مختلف قومی اخبارات ، رسائل ،جرائد اور اشاعتی اداروں میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، ان کی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سازبان خبرگزاری اسلامی کے دفتر سے ہوٹل پہنچے۔ یہاں پر ہم نے قیلولہ نہیں کرنا تھا بلکہ سہ پہر کو دوپہر کا لنچ کرنا تھا۔ ہوٹل پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ محمد رضا شعبانی موجود ہیں۔ رضا اور علی فاطمی دونوں ایرانی وزارتِ خارجہ سے تعلق رکھتے ہیں اورہم چاہتے ہیں کہ دونوں ہمارے ساتھ ہوں، لیکن انہیں اور اُن جیسے دیگر افسروں کو دنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے وفود کی رہنمائی کرنا ہوتی ہے۔ اس لئے انہیں دوسرے وفود کے ساتھ بھی جانا پڑتا ہے۔ ہم رضا شعبانی سے اپنی نئی منزل کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ ہمیں تہران کے ایرانی نیشنل میوزیم چلنے کی خبر سناتے ہیں۔


ہمیں احساس ہو رہا ہے کہ ہمارے میزبان ہمیں افراد اور شخصیات سے نہیں بلکہ ایران سے ملوانا چاہتے ہیں۔ اب اس میوزیم کو ہی لے لیں۔ یہ عجائب گھر ایران کے ڈھائی لاکھ سالوں کے ارتقاء کی داستان سناتا ہے۔ ایران میں زندگی اور انسان کی کہانی کیسے اور کہاں سے شروع ہوتی ہے۔

تہران کا یہ عجائب گھر گیارہ ہزار مربع میٹر رقبے پر قائم کیا گیا ہے۔ یہاں زیرِ زمین ہال سے ایران کی پتھر کے زمانے کی علامتوں کی نمائش سے حالات و واقعات کی ایک ایسی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے جب دس لاکھ سال پہلے انسان تہذیب کا آغاز کر رہا تھا۔ پتھر کا قدیم دور، پتھر کا درمیانہ دور، پتھر کا جدید دور، کانسی کا دور، ہر دور کی الگ الگ گیلریاں۔ ہم لاکھوں سال کی تہذیب کے ارتقاء کی علامتوں کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ انسان کون ہے؟ کیا ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ اسی سیارے کا ہے یا کسی اور سیارے سے آیا ہے؟

Advertisement


اس میوزیم میں انسانی ارتقاء کی قدیم ترین علامات کشاف رود (ایرانی دریائے کشاف) کی وادی سے لاکر رکھی گئی ہیں۔ بعض دیگر علامات تہران کے کوہ توچل کے قریب تجریش اور شمیران کے پڑوس میں دربند سے لائی گئی ہیں۔ پتھر کے دور کی سب سے قدیم اور سب سے اہم چیزیں یافتہہ کی غاروں کے علاقوں سے ملی ہیں۔ ان کا عہد 30 ہزار سے 35 ہزار سال قدیم بتایا جاتا ہے۔ یہاں پتھر کے دور کے انسانی اور مویشیوں کی زیبائش کے نو ہزار سال پرانے زیورات بھی ملے ہیں۔ یہاں سے انسانوں اور جانوروں کی باقیات اور ڈھانچے بھی دستیاب ہوئے ہیں۔


یہاں انسانی تہذیب کے ارتقاء کی کڑیاں بعض دیگر تہذیبوں کی علامتوں کے مماثل دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں ایسے زمانے کی اشیاء رکھی ہیں جب انسان نے برتن بنانا نہیں سیکھے تھے۔ جب انسان نے نوک دار پتھر بنا لئے تھے جنہیں وہ جانوروں کے شکار کیلئے استعمال کرتا تھا۔ پھر انسان نے پتھروں کی تراش خراش سے جانوروں کی اشکال اور علامتیں بنانا سیکھا۔ پھر اس نے مٹی کے برتن بنانا سیکھا۔ ان برتنوں پر نقش و نگار بنا کر انہیں پکا کر پختہ اور قابلِ استعمال بنانا سیکھا۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب انسان نے لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا۔ پھر انسان باقاعدہ تحریری معاہدات اور ان پر مہروں کا استعمال کرنا بھی سیکھ لیا۔ یہ سب کچھ ہزاروں سال پہلے ہوچکا تھا۔ وادئ سندھ، وادئ گنگ وجمن، وادئ دجلہ و فرات، وادئ نیل، وادئ کشاف، مصر، یونان، عراق، ایران، پاکستان اور دنیا کے دیگرممالک کی تہذیبوں کی علامتیں اور نشانیاں انسان کے ارتقاء کی داستانیں سناتی ہیں۔ ہم ایران کی نشانیوں اور علامتوں سے انسان کے تہذیبی ارتقاء کی داستان سننے اور دیکھنے کیلئے تہران کے قومی عجائب گھر میں موجود ہیں۔


رضا شعبانی کا مطالعہ اور مشاہدہ بہت وسیع اوراندازِ بیاں عالمانہ ہے۔ وہ اشیا کی جزئیات کو ماہرانہ انداز میں پوری تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ وہ ایرانی تہذیب کی داستان ایک مشاق قصہ گو کی طرح بیان کرتے ہیں اور پھر ان کی باتوں کا ہمارے علی زین نقوی کی طرف سے ترجمہ سونے پر سہاگہ ہوتا ہے۔ علی زین نقوی نے ایران میں تعلیم حاصل نہیں کی اور نہ ہی ایران میں فارسی سیکھی مگر وہ فارسی اتنی اچھی بولتے ہیں کہ ہم ایسی اچھی تو اردو بھی نہیں بول سکتے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ابھی وہ کراچی یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔

Advertisement


رضا شعبانی بتاتے ہیں کہ اس عجائب گھر کی تعمیر کا آغاز 1935ء میں ہوا۔ اسے فرانسیسی ماہرِ تعمیرات آندرے گوڈارڈ اور میکسائیم سیروکس نے ڈیزائن کیا اور ایرانی ماہر عباس علی معمار اور مراد ترمذی نے دو سال کی مدت میں 1937ء میں مکمل کیا۔ یہ عجائب گھر ساسانی طرزِتعمیر سے متاثر ہوکر بنایا گیا۔ خاص طور پر اس کی تعمیر میں طاقِ کسری کے تعمیراتی حُسن کو پیشِ نظر رکھا گیا۔ اس میوزیم پر پہلی نظر پڑتے ہی آثارِ قدیمہ کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ جیسے پرانے کھنڈرات کی کھدائی سے زمین سے پُر شکوہ تعمیرات سامنے آتی ہیں۔


میں 1755 قبل مسیح سے 1750 قبل مسیح کے دوران عراق کی بابلی تہذیب کے مرکز بابل سے ملنے والی بابلی بادشاہت کے چھٹے بادشاہ حمورابی کے پتھر پر کندہ کئے گئے قوانین کے بارے میں پڑھ چکا ہوں اور اُن قوانین کا مطالعہ بھی کر چکا ہوں۔ مگر اس عجائب گھر میں پتھروں کے تختوں پر کندہ عبارتیں دیکھ رہا ہوں جو میخی خط میں تحریر کی گئی ہیں۔ ہم اپنی موہنجودڑو، ہڑپہ اور مہرگڑھ سے ملنے والی تحریروں کو نہیں پڑھ سکے۔ ہم ایرانی کتبوں کو بھی نہیں پڑھ سکتے۔ عجائب گھر اپنے سارے راز ایکدم تو ہمارے سامنے نہیں کھولے گا مگر ہم یہ تو جان رہے ہیں کہ انسان نے ہزاروں برس پہلے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ یہاں کرمان شاہ میں ساراب کے ٹیلے کی کھدائی سے ملنے والے نو ہزار سال پرانے انسانی اور جانوروں کے اعضاء انسانی ارتقاء کی کہانی سناتے ہیں۔ ہمیں کانسی کے زمانے کے شخص کا مجسمہ ایک اور ہی داستان سُناتا ہے۔ یہاں پر ایک ایسی فطرت کی بنائی ممی رکھی ہے جسے نمک کا آدمی کہا جاتا ہے۔ یہاں پر مٹی اور گارے سے بنا ایک گھر دکھایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ 6 ہزار 300 سال قبل مسیح میں انسان ایسے گھروں میں رہتا تھا۔ مجھے تو یہ اپنا ہی مقامِ پیدائش اور اپنے بچپن والا گھر لگتا ہے۔ بیسویں صدی کے وسطی عشرے میں میں بھی تو ایسے ہی مٹی گارے کے گھر میں پیدا ہوا تھا، گویا میری عمر بھی چھ ہزار تین سو سال ہے۔ اس گھر کا نمونہ مغربی آذربائیجان سے لایا گیا ہے۔ یہاں سے ملنے والے مٹی کے برتن بھی ہمارے اپنے کمہاروں کے چاک پر بنائے گئے اور یہاں پر آگ کی آوی میں پکائے گئے برتن لگتے ہیں۔ برتنوں پر بنائے گئے نقش و نگار اور جانوروں کی اشکال بھی قدیم عہد اور آج کے زمانے میں باہم ربط پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔ وہی مٹکے، وہی گھڑے، وہی مٹی کی پلیٹیں، لوٹے، صراحیاں، دکھیاں، جھانولیاں، پاتریاں، پتروٹے، کُنیاں، تسلے اور تسلیاں، کپ، پیالے، پیالیاں اور ایسی ہی اور بہت سی چیزیں۔۔ یہ سب کچھ ہزاروں سال پرانا ہے۔ یہاں سب کچھ ہم نے بھی استعمال کیا۔ کیا انسان دائروں میں چکر لگا رہا ہے؟
اس میوزیم نے ایران کے ماضی قریب اور ماضی بعید کو حال سے مربوط کرکے مستقبل کے حوالے کر دیا ہے اور یہی انسانی ارتقاء کی کہانی ہے۔ یہاں لاکھوں سال پرانے آثار سے لے کر 13ویں صدی کی قاجار بادشاہت کے دور تک تمام زمانوں کو ایک ہی چھت کے نیچے لاکر رکھ دیا گیا ہے۔ یہاں تہذیبوں، ثقافتوں اور انسانی لسانی علامتوں اور تحریروں کا تنوع ایک ہی بات بتا رہا ہے کہ انسانی تاریخ معاشی اور معاشرتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ روٹی، کپڑے اور مکان کے حصول کی جدجہد ہی انسانی تہذیب کے ارتقاء کا سنگ میل رہا ہے۔ یہاں دارا کا دور گزرے صدیاں گزر گئیں۔ یہاں سے ہزاروں برس پہلے گزرنے والا سکندر جہلم اور ملتان سے گزرتا ہوا بابل میں پہنچ کر داعئ اجل کو لبیک کہہ چکا ہے مگر تاریخ کے سینے میں سلسلہ در سلسلہ واقعات پڑے ہیں اور اس میوزیم میں تو کئی زمانوں کو ایک ہی جگہ پر رکھ دیا گیا ہے۔ میں داریوش (دارا) کے مجسمے سے بہت سے واقعات سننا چاہتا ہوں مگر وہ تو خود ایک واقعہ بن چکا ہے جسے لکھ دیا گیا ہے۔

Advertisement

یہاں خوزستان سے ملنے والا ایک مجسمہ کا سر رکھا ہے۔ لگتا ہے کہ اس مجسمہ کو یونانیوں نے تراشا ہے اور یہ کسی حد تک سکندر کے مجسمے سے مشابہ ہے مگر یہ اشکانی دور کا مجسمہ ہے۔ ایرانی صوبہ خوزستان خلیج فارس کے ساتھ ہی عراق سے ملا ہوا ہے جو ایران عراق جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔ ہم کئی منزلوں پر پھیلے اس عجائب گھر کے ماقبل تاریخ کے لاکھوں، ہزاروں اور سینکڑوں برس پرانے آثار و باقیات کو دیکھتے دیکھتے واپس اس مقام پر آتے ہیں جہاں سے ہمیں عجائب گھر کے اندر لایا گیا تھا۔ واپسی پر ہمیں ایران کے اس قومی عجائب گھر کی منیجر محترمہ فیروزہ سپید نامہ ملیں۔ اُنہوں نے ہم سے میوزیم کے بارے میں تاثرات معلوم کئے۔ مجھے یہ خوف لاحق ہوا کہ وہ مجھے میوزیم کی ہی کوئی چیز سمجھ کر کسی شیشے کے شیلف میں نہ رکھوا دیں۔ مگر وہ تو بہت شائستگی سے بات کر رہی تھیں۔ ہم نے عجائب گھر کے بارے میں اپنے تاثرات بتائے جن میں ہماری حیرت، استعجاب، کچھ جاننے کی خوشی، مزید جاننے کی تڑپ اور جستجو شامل تھی۔ اس پر انہوں نے کہا” پھر تو آپ اس میوزیم کے برابر میں ایک اور میوزیم ضرور دیکھیں جو اسلامی آرکیالوجی اور آرٹ کا عجائب گھر ہے۔ ہم میوزیم کی عمارت کے باہر بائیں جانب مڑتے ہیں جہاں اس عجائب گھر کی سووینئر شاپ ہے۔(جاری ہے)

(جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

About The Author