نذیر لغاری سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور ادیب ہیں اور مختلف قومی اخبارات ، رسائل ،جرائد اور اشاعتی اداروں میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، ان کی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کراچی ایئرپورٹ پر ہفتہ 8 جولائی کی رات پہنچے تھے، تھوڑی دیر بعد 9 جولائی کو رات لگ بھگ دوبجے تہران روانہ ہوئے تھے اور اسی روز علی الصباح امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچے تھے اور اتوار 9 جولائی کا مصروف دن گزار کر اور میلاد ٹاور، طبیعت پُل، انقلاب اور دفاع مقدس میوزیم دیکھنے کے بعد کتاب باغ کا چکر لگا کر سو چکے تھے۔ آج 10 جولائی ہے۔ میں حسبِ معمول صبح جلدی اُٹھ کر سید منظر نقوی کو جگاتا ہوں ، ہم دونوں تیار ہو کر ناشتے کیلئے ہوٹل اس ہال میں آجاتے ہیں جو ناشتے، لنچ اور ڈنر کیلئے مخصوص ہے۔ میں نے اس مقام کو ریسٹورنٹ یا کیفے عمداً نہیں لکھا کیونکہ یہ کہیں سے بھی کیفے یا ریسٹورنٹ نہیں لگتا۔ ہم دونوں ناشتہ کرکے اُٹھ آتے ہیں۔ کچھ دیر میں ہمارے نوجوان دوست اویس ربانی اور علی زین نقوی اُٹھ کر کچھ لمحے ہوٹل کی لابی میں بیٹھتے ہیں اور پھر ناشتہ کرنے اُسی ہال میں چلے جاتے ہیں۔ اتنے میں وزارت خارجہ کے ایک افسر علی فاطمی آ جاتے ہیں ، اُن کے ساتھ گاڑی کا ڈرائیور بھی ہے۔ علی فاطمی اور ڈرائیور محمد گزشتہ روز بھی ہمارے ساتھ تھے مگر وہ قدرے ہم سے دُور دُور ہی رہے۔ آج محمد رضا شعبانی نہیں آئے تھے غالباَ وزارت خارجہ نے انہیں کوئی اور ذمہ داری سونپ دی تھی۔ کچھ دیر میں اویس ربانی اور زین نقوی ناشتہ کر کے آ گئے۔
ہم نے علی فاطمی سے آج کے پروگرام اور آنے والے دنوں کے پروگرام کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم ایرانی خبر رساں ایجنسی “ارنا” کے دفتر چلیں گے، باقی پروگرام کے بارے میں بعد میں بتایا جائے گا۔ ہم جب سے صحافت میں ہیں، ایران کے بارے میں ہماری خبروں کا ذریعہ ارنا نیوز ایجنسی ہی ہوتی ہے، جس کی خبریں ہمیں اے ایف پی یا رائیٹر کی معرفت ملا کرتی تھیں۔ بعد میں یہ خبریں ہماری اپنی پاکستانی ایجنسی اے پی پی یا پی پی آئی کے ذریعے بھی ملا کرتی تھیں۔
ارنا اسلامک ری پبلک نیوز ایجنسی کا مخفف ہے اور فارسی میں اس کا نام خبرگزاری جمہوری اسلامی ہے۔ یہ خبر رساں ایجنسی لگ بھگ 90 سال پہلے 13 نومبر 1934ء کو “پارس نیوزایجنسی” کے نام سے قائم ہوئی تھی۔ جب یہ نیوز ایجنسی قائم ہوئی تو وہ آخری شاہ ایران محمد رضا پہلوی کے والد رضا شاہ پہلوی کا زمانہ تھا۔ جو خود ایک فوجی افسر تھے اور اقتدار پر قبضہ کر کے بادشاہ بن بیٹھے تھے ۔ایران کے اسلامی انقلاب برپا ہونے تک ارنا کا نام پارس نیوز ایجنسی ہی رہا ۔ انقلاب کے دوسال بعد1981ء میں پارس نیوز ایجنسی کا نام تبدیل کرکے اسلامک ری پبلک نیوز ایجنسی رکھ دیا گیا۔
ہمارا قافلہ ارنا کے دفتر کی طرف روانہ ہوا۔ ہم تہران کے چھٹے ضلع کے علاقے خیابانِ مجلسی کی ولی عصر اسٹریٹ پر جا رہے ہیں۔ علی فاطمی ہماری رہنمائی کرنے کیلئے ڈرائیور کے برابر میں گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہیں۔ گاڑی تہران کی سڑکوں، شاہراہوں، گلیوں سے گزرتی ایک بڑی شاہراہ سے گلی میں مڑی اور سب سے پہلی عمارت کے گلی میں کھلنے والے دروازے کے سامنے آ کر رُک گئی۔ علی فاطمی کے گاڑی سے اُترنے کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں بھی گاڑی سے اُتر آنا ہے مگر علی نے ہمیں گاڑی میں بیٹھے رہنے کا کہہ کر خود ارنا کی انتظامیہ کو ہماری آمد کے بارے میں بتانے چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد ہمیں ساتھ لے کر عمارت کے اندر لے گئے۔ جہاں ارنا کی انتظامیہ کے ایک رکن سے ہمارا تعارف کرایا۔ وہ ہمیں ایک کانفرنس روم میں لے آئے۔ جہاں ہم نے کرسیاں سنبھال لیں۔ میز کی ایک جانب میں اور منظر نقوی صاحب بیٹھ گئے اور دوسری جانب اویس ربانی صاحب اور علی زین نقوی صاحب بیٹھ گئے۔ علی زین نے ہماری گفتگو میں مترجم یا ترجمان کی ذمہ داری انجام دینی تھی۔ اب ہمیں ارنا کی انتظامیہ کے اعلی عہدیدار کا انتظار ہے جن سے ہماری گفتگو ہونی ہے۔ ہمیں زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا۔ کچھ ہی دیر بعد ایک سُرخ و سفید خُوبرو و خوش اندام ہماری ہی عمر کے صاحب دروازے سے اندر داخل ہوئے اور اپنا نام لیتے اور ارنا سے اپنی وابستگی کے بارے میں بتاتے ہوئے ہم سے بہت گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔ اُن کا نام رضا خوش لہجہ تھا۔ وہ سچ مچ خوش لہجہ ہی تھے۔ ہم نے اپنا تعارف کرایا اور اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔
رضا خوش لہجہ بتا رہے ہیں کہ ان کی خبر رساں ایجنسی 9 زبانوں میں خبریں جاری کر رہی ہے اور اب اردو ہماری ایجنسی کی خبر رسانی کی دسویں زبان کے طور پر شامل ہو رہی ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں آزمائشی کام شروع کر دیا ہے۔ ہم پاکستان کے اخبارات اور نشریاتی اداروں سے تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا یہ تجربہ ہے کہ مغربی میڈیا ہر ملک کے بارے میں اپنے مفادات کے تابع بیانیہ بناتا ہے اور ایسی خبریں تیار کرتا ہے جس سے حقائق کو زیروزبر کر دیا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایران، شام، لبنان، فلسطین، پاکستان، یمن، عرب اور اسلامی ممالک کے بارے میں مغرب اپنی پالیسی پہلے اپنے میڈیا کے ذریعے سامنے لاتا ہے اور پھراپنے دیگر اداروں کے ذریعے اس پالیسی کے تحت کارروائیوں کیلئے پیشقدمی کرتا ہے۔ ہمیں اپنی اشیاء، اپنے معاملات، اپنے مسائل اور ان کے حل کے اسباب کو اپنی ہی آنکھوں اور اپنے ہی ابلاغی ذرائع سے اور اپنے ہی زاویۂ نظر سے دیکھنا ہو گا۔خوش لہجہ نے بتایا کہ خبرگزارئ جمہوری اسلامی کے ایران کے 31 صوبوں اور لگ بھگ تمام بڑے بڑے شہروں میں دفاتر موجود ہیں۔ ہم 48 ممالک میں کام کرتے ہیں۔ جن ممالک میں ہمارے نمائندے موجود ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اسلام آباد میں ہمارا قدیم دفتر موجود ہے۔ ہم نے پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے ساتھ ایم او یو پر دستخط کئے ہیں۔ ہم دونوں خبر رساں ایجنسیاں ایک دوسرے کے ساتھ خبروں، تصویروں اور ویڈیوز کا تبادلہ کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے تجربہ کار صحافی اور خبرنگار دونوں ممالک میں موجود ہونے چاہیئں۔ خوش لہجہ نے انکشاف کیا کہ اگلے ماہ اگست 2023ء میں ہماری نیوز ایجنسی ارنا اردو میں اپنی سروس کا آغاز کرے گی۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ارنا اسلام آباد کے علاوہ کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ اوردیگر بڑے پاکستانی شہروں میں اپنے دفاتر قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہم ایک دوسرے کے بارے میں اطلاعات کے تبادلے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے بارے میں مضامین بھی لکھیں گے۔
رضا خوش لہجہ کی گفتگو کے بعد مجھ سے بات کرنے کیلئے کہا جاتا ہے۔ میں ایران انقلاب، ایران عراق جنگ، ایرانی معیشت، ایران میں صنعت و سیاحت کے شعبوں میں ایران کی پیشرفت پر بات کرتا ہوں۔ میں تیسری دنیا کی سیاست، معیشت، سماجی، سائنسی اورتعلیمی ارتقاء کے بارے میں مغربی میڈیا کے مخصوص طرزِعمل کے بارے میں بھی بات کرتا ہوں۔ فلسطین اسرائیل، انڈونیشیا میں تیمور ، سوڈان اور جنوبی سوڈان کے تنازعات، کشمیر اور تحریک آزادئ کشمیر کے بارے میں مغربی میڈیا کی اپروچ کے بارے میں بھی اپنانقطۂ نظر پیش کرتا ہوں۔ میرے بعد منظر نقوی صاحب بھی اظہار خیال کرتے ہیں۔ وہ یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ وہ کراچی میں ایران پاکستان میڈیا کانفرنس کی میزبانی کیلئے تیار ہیں۔ ہم پاک چین دوستی میں منظر نقوی صاحب کی مثبت کوششوں کے مداح بھی ہیں اور گواہ بھی ہیں۔ ان کی طرف سے ایران پاکستان میڈیا کانفرنس کی میزبانی کی پیشکش ایک انوکھا اور منفرد تصورہے۔ اُن کے بعد اویس ربانی صاحب نے اپنی گفتگو سے سماں باندھ دیا۔ وہ اقبال کے اردو اور فارسی اشعار کے برمحل استعمال سے اپنی گفتگو سے ایک سماں باندھ دیتے ہیں۔
ان رسمی کلمات کے بعد رضا خوش لہجہ ہمیں ارنا کی انٹرنیشنل ڈیسک پر لے جاتے ہیں جہاں کمپیوٹر پر اردو پیج کھلا ہے اور آج کی تازہ خبریں موجود ہیں۔ یہاں سے ایک وسیع وعریض ہال میں لے جایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کسی اخبار یا نیوز ایجنسی کے پاس اتنا بڑا ہال نہیں جہاں مختلف ڈیسکوں پر کام ہو رہا ہو۔ اس ہال میں آکر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ یہاں درجنوں مختلف ڈیسکوں پر کام کرنے والوں میں خواتین کی تعداد مرد حضرات سے زیادہ نہیں بلکہ کہیں زیادہ ہے۔ مجھے تو مرد اکا دکا ہی نظر آتے ہیں۔ ہر سمت خواتین چھائی ہوئی ہیں۔ ہم مرکزی سیاسی نیوزڈیسک پر جاتے ہیں۔ ایک خاتون کھڑی ہو جاتی ہیں اور ہمیں خوش آمدید کہتی ہیں۔ میں ہر نیوز ڈیسک پر خواتین کی موثر اور بھرپور نمائندگی پر اپنی خوشی کا اظہار کرتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ آپ کے شعبہ کی سربراہی کس کے پاس ہے۔ ایسے میں ایک اور خاتون اُٹھ کر ہمارے پاس آتی ہیں۔ وہ نیوز ڈیسک پر چیف نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ آپ کے ساتھ آپ کے ماتحت مرد حضرات کا طرزعمل کیسا ہوتا ہے ؟ وہ کہتی ہیں کہ اس ڈیسک یا ہماری کسی بھی ڈیسک پر کوئی صنفی تفریق نہیں ہے۔ ہم مرد اور عورت کی حیثیت میں نہیں بلکہ ایک صحافی، ایک خبر نگار، ایک رپورٹر اور ایک کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ہمارا ماحول دوستانہ اور خوشگوار ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہاں پر کس تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر ملازمت ملتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہاں سیاسیات ، معاشیات، بین الاقوامی تعلقات، ابلاغیات، ابلاغی علوم، صحافت، تاریخ، ادب یا کسی اور مضمون میں ماسٹر کرنے والوں کو ملازمت کیلئے اہل سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مختلف ڈیسکوں پپر 800 افراد پر مشتمل عملہ میں 60 فیصد خواتین ہیں۔
اب تک ایران کے بارے میں بیرونی دنیا عورت دشمن مفروضہ کہانیاں ہی جانتی ہے۔ مثلاً ایک عورت کو دوپٹے کے بغیر دیکھ کرتشدد کا نشانہ بنایا گیا، بعض واقعات میں اس خاتون کو موت کی نیند بھی سُلا دیا گیا۔ مگر میں یہاں پر تو کچھ اور ہی دیکھ رہا ہوں۔ اور کزشتہ روز سے تو بالکل ہی کچھ اور ایران نظر آ رہا ہے۔ یہاں تو خواتین مردوں کے قدم سے قدم ملا کر چل رہی ہیں۔ بلکہ بعض مقامات پر تو خواتین مردوں سے بہت آگے ہیں۔
ہم سیاسی نیوزڈیسک سے اسپورٹس ڈیسک، کامرس ڈیسک، مارکیٹنگ ڈیسک، مذہبی ڈیسک، شوبز فلم ڈیسک اور سٹی ڈیسک پر جاتے ہیں۔ مذہبی ڈیسک پر بتایا جاتا ہے کہ ایران سے ہر سال اربعین پر 70 سے 80 لاکھ افراد عراق میں نجف، کربلا اور دیگر مقدس شہروں کا سفر کرتے ہیں اور اس دوران میں معلومات کی فراہمی کیلئے ہماری ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اربعین پر عراق میں دنیا بھر میں سب سے بڑا سالانہ اجتماع ہوتا ہے۔ عراق اتنے بڑے اجتماع کیلئے غذا سمیت دیگر ضروریات کیلئے انتظامات کیسے کرتا ہوگا۔
ہمیں ارنا کی مختف ڈیسکوں پر جا کر کام کرنے کا ماحول دیکھ کر خوشی کے ساتھ اطمینان بھی ہوا کہ شنیدہ کے بود مانند دیدہ، ہم اسی لئے زندگی بھر اپنے رپورٹرز کے ساتھ جھگڑا کرتے رہے کہ موقع پر جاکر رپورٹنگ کرنے سے واقعات کے نئے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ اب ہم اپنے ہوٹل واپس آ رہے ہیں، اپنے ایک اور پروگرام کی خاطر تازہ دم ہونے کیلئے ۔(جاری ہے)یہ بھی پڑھیے:
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری
About The Author Continue Reading
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر