مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بٹگرام،چئیرلفٹ میں پھنسے 6 بچوں سمیت8فراد کو بچانے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری

پہاڑی علاقوں میں چونکہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کے درمیان آبی گزرگاہیں موجود ہوتی ہیں یا بعض اوقات ایک گاؤں ایک پہاڑ پر جبکہ نزدیک ترین گاؤں دوسرے پہاڑ پر موجود ہوتا ہے، اس لیے وقت کی بچت کے لیے مقامی افراد عموماً ڈولی کو ہی آمد و رفت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بٹ گرام کی تحصیل  آلائی میں ایک کھائی پر مقامی افراد کی آمد و رفت کے لیے نصب دیسی ساختہ کیبل کار میں پھنسے چھ بچوں سمیت آٹھ افراد کو بچانے کے لیے امدادی کارروائیاں جاری ہیں تاہم ابھی تک کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔

حکام کے مطابق اس کیبل کار (جسے مقامی زبان میں ڈولی کہا جاتا ہے) میں پھنسے بچے صبح سکول جا رہے تھے جس دوران ڈولی کی ایک کیبل ٹوٹ گئی، جس سے وہ زمین سے 274 میٹر یعنی 900 فٹ بلندی پر فضا میں معلق ہو گئی۔

واضح رہے کہ یہ واقعہ منگل کی صبح مقامی وقت کے مطابق تقریباً صبح سات بجے پیش آیا تھا۔

ڈی آئی جی ہزارہ طاہر ایوب کے مطابق جائے حادثہ کے سامنے والی پہاڑی پر ہیلی پیڈ بنا دیا گیا ہے، جہاں ریسکیو آپریشن کے لیے ضروری تمام سامان سے لیس گاڑی پہنچا دی گئی ہے۔

آلائی کے اسٹنٹ کمشنر جواد حسین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’اس وقت پاکستان فوج کے دو ہیلی کاپیٹروں کی مدد سے ریسیکو آپریشن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک ہیلی کاپیٹر کیبل کار کے اوپر موجود ہے۔ پاکستانی فوج کے سپیشل سروسز گروپ کے ایک اہلکار نے دو مرتبہ کیبل کار تک پہچنے کی کوشش کی۔‘

جواد حسین کے مطابق ’کیبل کار میں پھنسے ہوئے افراد کو پانی اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء پہنچا دی گئی ہیں۔‘

پاکستان کے قائم مقام وزیر اعظم نے امدادی کارکنوں کو بٹگرام کے نزدیک پیش آنے والے اس ’خطرناک‘ واقعے میں شرکت اور نگرانی کے احکامات جاری کیے ہیں۔

پاکستان کی فوج اس ریسکیو آپریشن کی نگرانی کر رہی ہے جس میں آرمی ہیلی کاپٹرز بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اب سے کچھ دیر قبل ہیلی کاپٹر سے رسی کی مدد سے لٹکے ہوئے کمانڈو نے ڈولی کے قریب آنے کی کوشش کی تھی تاہم ہوا کے پریشر کے باعث ڈولی نے جھولنا شروع کر دیا۔

یاد رہے کہ ڈولی دو رسیوں کی مدد سے آپریٹ کی جاتی ہے جبکہ حادثے کا شکار ہونے والی اس ڈولی کی ایک رسی ٹوٹ چکی ہے۔

اس وقت شانگلہ اور بشام کے علاقوں سے لوگ مدد کے لیئے الائی کی طرف جارہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عموما اس طرح کی صورتحال میں امدادی سرگرمی کرنے میں تجربہ رکھتے ہیں۔

تصویر

الطاف حسین مقامی سکول میں استاد ہیں اور اس وقت وہ اس جگہ موجود ہیں جہاں ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میں صبح سے یہاں موجود ہوں۔ صبح سے اب تک تین ہیلی کاپٹر آئے ہیں جنھوں نے 40 سے 45 منٹ تک اس جگہ کا جائزہ لیا مگر پھر وہ چلے گئے۔‘

کیبل کار میں پھنسے ایک شخص گلفراز نے نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کو فون پر بتایا کہ ’خدا کے لیے ہماری مدد کریں۔‘ انھوں نے تصدیق کی کہ اس کیبل کار میں آٹھ افراد سوار ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’گذشتہ تین گھنٹوں میں ایک طالبعلم بے ہوش ہو گیا تھا، اس ڈولی میں موجود بچوں کی عمریں 10 سے 15 سال کے درمیان ہیں۔‘

گلفراز کے مطابق ’ہمارے علاقے کے لوگ یہاں کھڑے ہیں ہمارے لیے دعا کر رہے ہیں اور رو رہے ہیں۔‘ اس موقع پر گلفراز نے حکام سے فوری مدد بھیجنے کی اپیل کی۔

دستیاب تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیبل کار ایک دریا کے اوپر 274 میٹر کی بلندی پر مُشکل پہاڑی سلسلے کے بیچوں بیچ پھنسی ہوئی ہے۔

رائٹرز کے مطابق ایک امدادی کارکُن نے کہا ہے کہ ’ریسکیو ٹیمز حادثے کی جگہ پر پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹروں کے ساتھ ریسکیو آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں مگر یہ آپریشن انتہائی پیچیدہ ہے۔‘

پاکستان کے دور دراز علاقوں بالخصوص خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں مقامی افراد آمد و رفت کے لیے کیبل کار کی طرز پر بنائی گئی دیسی ساختہ لفٹ استعمال کرتے ہیں جنھیں عمومی طور پر پیٹرول یا ڈیزل انجن کی مدد سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔

اس دیسی ساختہ کیبل کار کو ’ڈولی‘ کہا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کے ایسے دشوار گزار علاقوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کے لیے استعمال ہوتی ہے جہاں مناسب ذرائع آمد و رفت جیسا کہ سٹرکیں یا پُل موجود نہیں ہوتے۔

پہاڑی علاقوں میں چونکہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کے درمیان آبی گزرگاہیں موجود ہوتی ہیں یا بعض اوقات ایک گاؤں ایک پہاڑ پر جبکہ نزدیک ترین گاؤں دوسرے پہاڑ پر موجود ہوتا ہے، اس لیے وقت کی بچت کے لیے مقامی افراد عموماً ڈولی کو ہی آمد و رفت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

مسافت زیادہ نہ ہو تو عموماً ہاتھ کی مدد سے بھی ڈولی کو چلا لیا جاتا ہے، مگر زیادہ اونچائی اور زیادہ مسافت والی ڈولیاں پرانے انجن کی مدد سے چلائی جاتی ہیں۔

ڈولی عمومی طور پر کسی بھی پرانی اور ناکارہ گاڑی کے ڈھانچے میں مناسب تبدیلیاں کر کے بنائی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسے آپریٹ کرنے کے لیے عمومی طور پر علاقے کے ڈپٹی کمشنر سے تحریری اجازت نامہ لیا جاتا ہے۔ مقامی افراد عمومی طور اپنی آمد و رفت کے حساب سے آپریٹر کے ساتھ ماہانہ کرایہ طے کر لیتے ہیں جو ادا کیا جاتا ہے۔

%d bloggers like this: