پرواز کے دوران میری نظرطیارے کی بڑی اسکرین پر پڑی تو پتہ چلا کہ طیارہ تہران کی حدود میں داخل ہوچکا ہے۔ میں نے منظر نقوی صاحب کو سوتے سے جگا دیا اور کہا کہ سرکار تہران آگیا۔ انہوں نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہنے لگے “یہاں سمندر کہاں سے آ گیا”
میں نے کہا” کہ یہ پہاڑوں اور صحرا کی رات کا سمندر ہے۔” امام خمینی ایئرپورٹ کے نام سے موسوم سلام ایئرپورٹ تہران سے تیس کلو میٹر جنوب میں واقع ہے۔ رات کے وقت باہر کی تاریکی سمندر کی مانند گہری اور پُراسرار لگتی ہے۔ چند منٹوں کے بعد جہاز خلاء کی وسعتوں سے دھرتی کی پناہوں میں آگیا۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے جناح ٹرمینل کے انٹرنیشنل لاؤنج کے گیٹ نمبر 26 سے ٹیکسی کرکے پرواز کرنے والا طیارہ امام خمینی ایئرپورٹ پر بھی گیٹ نمبر 26 پر آکر رُک گیا۔ گویا آج ہمارا لکی نمبر26 قرار پایا ہے۔
جہاز سے باہر آئے۔ امیگریشن کے مرحلے سے گزرے اور ڈاکٹر سعید طالبی نیاکے سامان کے حصول کیلئے اسٹرپ کے سامنے پہنچ گئے۔ غالباً اویس ربانی صاحب نے بھی اپنا سامان بُک کرایا تھا، وہ بھی ڈاکٹرطالبی نیاکے ساتھ سامان کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ تہران ایئرپورٹ کی گھڑیوں پر رات کے ساڑھے تین بج رہے تھے۔ ایران اور پاکستان کے وقت میں ڈیڑھ گھنٹے کا فرق ہے۔ منظر نقوی صاحب کے موبائل فون پر خودکار نظام کے تحت پاکستان کا وقت ایران کے وقت میں بدل چکا تھا۔ کچھ دیر بعد میرے فون نے بھی ایران کے اوقات اور میری اوقات سے سمجھوتہ کر لیا۔ میں اور منظر نقوی اپنا اپنا دستی بیگ لے کر ایک طرف کو بیٹھ گئے جب کہ ڈاکٹرطالبی نیا، ڈاکٹرتہرانی اور اویس ربانی اپنے سامان کا انتظار کرنے لگے۔ ایسے میں ایک نوجوان میرے اور منظر نقوی صاحب کے سامنے آکر کھڑا ہوا اور اپنا تعارف رضا شعبانی کے نام سے کرایا اور یہ اطلاع دی کہ ہم اب اس نوجوان کے حوالے ہیں۔ اس نوجوان نے اپنا تعلق ایران کی وزارتِ خارجہ سے بتایا۔ میں بیس سال پہلے بھی ایرانی وزارتِ خارجہ کے افسروں کی مہمان نوازی اور مہمان داری سے فیضیاب ہو چکا ہوں۔ ان دنوں صحافیوں کا ایک 9 رکنی وفد ایران کے دورے پر آیا تھا جن میں ارشاد احمد حقانی(جنگ)ضیاءالدین (ایکسپریس ٹریبیون)، طارق وارثی(نوائےوقت) ایاز بادشاہ(مشرق) سہیل قلندر (ایکسپریس پشاور) معین حیدر(سابق صدر لاہور پریس کلب ) اور دیگر شامل تھے۔ بیس سال بعد ایرانی وزارت خارجہ کے ایک اور افسرسے ملنے کا تجربہ خوشگوار محسوس ہوا۔
ایئرپورٹ پر دس بارہ نشستوں کی ایک بڑی گاڑی ہمیں لینے کیلئے آئی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر طالبی نیا اور ڈاکٹر تہرانی یہاں سے ہم سے رخصت ہوگئے اور رضا شعبانی گاڑی میں بٹھا کر ہمیں ایئرپورٹ کی حدود سے باہر آگئے۔ گاڑی کچھ دور آگے چل کر ایک پٹرول پمپ کی طرف مڑ گئی۔ جب ڈرائیور پٹرول بھروانے لگا تو ہم نے رضا سے پٹرول کے نرخ پوچھے۔ رضا نے یہ بتا کر ہمیں حیرتوں کی ہوا میں اچھال دیا کہ یہاں پٹرول کی قیمت پاکستانی کرنسی میں دس روپے فی لیٹر ہے۔ گویا یہ بڑی گاڑی ہمارے ہاں کے چار لیٹر پٹرول کی قیمت میں اپنی ٹینکی مکمل بھروا لے گی۔
یادش بخیر 16 سال قبل جب میں چوتھی بار ایران آیا تھا تو یہاں اس وقت شدید بین الاقوامی پابندیوں کے باعث پٹرول اور ڈیزل کی راشننگ ہو رہی تھی۔ مگر اب امریکی پابندیوں کے باوجود خطے میں سیاسی حالات اور صورتحال تبدیل ہونے کے باعث ایران مشرق وسطی کے ممالک میں سب سے زیادہ تیل پیدا کررہا ہے۔ ایران اب بھی دنیا کی 21ویں بڑی معیشت ہے۔ ایران میں بین الاقوامی سرمایہ کاری میں خاطرخواہ اضافہ ہو رہا ہے۔ 2017ء میں تو بین الاقوامی سرمایہ کاری میں حیران کن اضافہ ہوا تھا اور اب بھی عالمی سرمایہ کاری سے ایرانی معیشت کو بڑی تقویت حاصل ہو رہی ہے۔ ایرانی معیشت کا حجم یورپ کے بہت سے امیراور متمول ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔
گاڑی کی ٹینکی فُل کرانے کے بعد ڈرائیور تہران شہر کی طرف شاہراہ پر گاڑی دوڑانے لگا۔ یہ گاڑی تہران کے شمال میں واقع کوہِ البرز کے طویل پہاڑی سلسلے کے پہاڑ توشال کی جانب بڑھ رہی ہے۔ رضا شعبانی ہمیں بتاتے ہیں کہ ایئرپورٹ سے ہمارے ہوٹل کا فاصلہ 40 کلومیٹر سے زائد ہے اور ہم لگ بھگ ایک گھنٹے میں وہاں پہنچیں گے۔
صبح کاذب سےصبح صادق پیدا ہو رہی تھی، رات بھر جلنے والی بتیاں اب اہستہ اہستہ بجھنے لگی تھیں۔ تاہم سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ زیادہ تر گاڑیوں کی بتیاں اب بھی روشن تھیں۔ ہم پرانے مہرآباد ایئرپورٹ اور برج آزادی سے آگے شہر کے مرکزی علاقے کی طرف جا رہے ہیں۔ ہماری منزل پارک وے ہوٹل ہے۔ جب ہم اس ہوٹل کی جانب مڑتے ہیں تو ان گنت ہوٹلوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہم گلستان محل، عصری فنون کے عجائب گھر، میلاد ٹاور اور دیگر کئی عمارتوں کو پیچھے چھوڑ آئے۔آگے مختلف ہوٹلوں کے مہمانوں کیلئے سڑک پر ہی پارکنگ ایریاز بنائے گئے ہیں۔ ہر ہوٹل کے آگے سڑک پر دونوں جانب ایک خاص ترتیب کے ساتھ گاڑیاں پارک کی گئی ہیں۔ تقریباَ ہر ہوٹل کے آگے گاڑیوں کو باہر ہی روکنے کیلئے ایسے گیٹ بنائے گئے جیسے کراچی کے مختلف علاقوں میں سڑکوں اور گلیوں میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے گیٹ لگائے جاتے تھے یا جیسے ہمارے ہاں مختلف ہوٹلوں کے آگے بیریئر لگائے جاتے ہیں۔ مگر تہران کے ہوٹلوں کے باہر نہ تو کوئی واک تھرو گیٹ نظر آئے اور نہ ہی سکیورٹی کا عملہ نظرآیا۔
ہوٹل پارک وے کوئی کثیرالمنزلہ عمارت نہیں تاہم یہ ایک دومنزلہ وسیع عمارت نظر آتی ہے۔ اس ہوٹل کا اپنا پارکنگ ایریا بھی ہے جہاں دودرجن بھر سے زائد گاڑیوں کے کھڑے ہونے کی گنجائش ہے۔ ہماری گاڑی ہوٹل کے بیریئر کے قریب پہنچ کر رک گئی تو ہم اپنے میزبان رضا شعبانی کے ہمراہ گاڑی سے نیچے اُتر آئے، سورج طلوع ہوچکا تھا اور چہار جانب اُجالا پھیل چکا تھا۔ بیریئر سے آگے ہوٹل کے داخلی دروازے تک جو راہداری بنائی گئی ، اسے فرش کے ساتھ گھاس کی باریک کیاریوں کی شکل دی گئی تھی۔ جو علی الصباح بہت خوشنما لگی۔ ہم مسافر ہوٹل کی لابی میں آگئے ۔ یہاں ہمارے وفد کے چوتھے رکن، کراچی یونیورسٹی کے طالب علم اور ہمارے فارسی سے اردو کے نوجوان مترجم علی زین نقوی بھی ہوٹل پہنچ چکے تھے۔ ہمیں دوشیئرنگ کمرے دیئے گئے۔ مجھے اور منظر نقوی صاحب کو کمرہ نمبر105 ملا جب کہ اویس ربانی صاحب اور علی زین نقوی صاحب کمرہ نمبر104 کے مکین بنے مگر شام کو منظر نقوی کمرہ نمبر109 میں منتقل ہوگئے تھے۔ ہم سب رات بھر کے جاگے ہوئے تھے چنانچہ ہم سونے کیلئے چلے گئے۔
چند گھنٹے کی نیند لے کر تروتازہ ہوگئے اور کمروں سے باہر آگئے۔ دوپہر ہو چکی تھی۔ ہم نے ریسٹورنٹ کی کھلی فضاء میں آ کر کرسیاں سنبھال لیں۔ ہم نے ابھی دوپہر کے کھانے کا آرڈر نہیں دیا تھا کہ ایک نوجوان نے آ کر اردو میں پوچھا کہ کیا آپ لوگ راشد صاحب کے مہمان ہیں۔ ہم میں سے کسی نے بھی ایران میں راشد صاحب سے اپنی شناسائی کا اقرار نہیں کیا۔ نوجوان واپس پلٹ کر جانے لگا تو میں نے کہا بھائی نوجوان سے پُوچھ تو لیا جائے کہ وہ کون ہے اور ہم سے کیا پوچھنا چاہ رہا ہے؟ نوجوان کو بُلا کر نام پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میرا نام قیصر عباس ہے، میرا تعلق ڈیرہ اسمعیل خان سے ہے اور میں تہران یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر چکا ہوں۔ پھر میرے اور دوسرے دوستوں کے ناموں کے بارے میں جان کر اس نے کہا کہ مجھے آپ لوگوں کے ترجمان کے طور پر راشد صاحب نے بھیجا ہے۔ راشد صاحب سے دوسرے تیسرے روز ملاقات میں معلوم ہوا کہ اُن سے میری کربلا میں ملاقات ہو چکی ہے اور انہوں نے ہماری آمد کی اطلاع پاکر ہمارے ترجمان کے طور پر قیصر عباس کو بھیجا تھا۔ اس اثنا میں ہمارے میزبان رضا شعبانی، ان کے ایک ساتھی مسٹر علی اور ڈرائیور بھائی محمد بھی آچکے تھے۔ اُن کے آنے سے پہلے ہم ایک دوسرے سے یہ کہہ رہے تھے کہ کیا ہمیں تھکن اُتارنے کے موقع کے نام پر ہوٹل میں رکھا جائے گا یا باہر بھی لے جایا جائے گا۔
اب ہماری رضا شعبانی سے آشنائی دوستی میں بدل چکی تھی، مگر یہ سطور لکھتے ہوئے ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ دوستی عارضی ہے یا مسقل ہے۔ ہماری کئی ایرانی سفارتکاروں سے دوستی ہوئی اور کافی عرصہ چلتی بھی رہی مگر اس دوستی اور اس کے رابطوں کو برسوں بیت جاتے ہیں۔ کہنے کو تو آیتہ اللہ خمینی کے پوتے آغا حسن خمینی سے بھی میری شناسائی دوستی میں بدلی، انہوں نے مجھے اور میرے بیٹے سرفراز خان کو اپنی کتابوں کا تحفہ بھی دیا مگر ہمارے رابطوں کا تسلسل برقرار نہ رہ سکا۔ ایرانی سفارتکاروں آغا زائری، بختیاری صاحب، علی موسی صاحب ، حدادی صاحب اور سعید توفیقی صاحب سے ہماری دوستی شناسائی سے بڑھ کر تھی۔ مگر میرے ایران جانے میں پندرہ سولہ سال کے وقفے نے ان احباب کی یادوں کو تازہ رکھا مگر ملاقاتوں اور رابطوں کا تسلسل باقی نہ رہا۔
ہم نے رضا سے پوچھا کہ کیا ہم ہوٹل سے باہر نکلیں گے یا آج ہوٹل میں رہ کر کل کا انتظار کریں گے۔ رضا نے بتایا کہ ہم آپ کو ساتھ لے کر باہر نکلنے کیلئے آئے ہیں۔ آپ لوگ اپنے کمروں سے ہوکر گاڑی کی طرف آجائیں۔ میں نے محسوس کیا کہ باہر نکلنے کے اعلان سے ہمارے دوستوں کے چہرے کھل اُٹھے ہیں۔ ہم اپنا ضروری سامان ساتھ لینے اور چارجنگ کیلئے لگائے گئے فون اُٹھانے کیلئے اپنے اپنے کمروں کی طرف چل پڑے اور تھوڑی دیر بعد واپس لابی میں آگئے جہاں سے ہمارے کارواں نے باہر نکلنا تھا۔ ہم نے رضا سے پوچھا،” رضا اب ہماری منزل کیا ہے۔ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہم کسی سے ملنے جا رہے ہیں یا کسی مقام کو دیکھنے جا رہے ہیں۔ رضا نے بتایا کہ ہم ایران کی سب سے بلند عمارت دیکھنے جا رہے ہیں اور اس کا شمار دنیا بھر کی بلندترین تعمیرات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم میلاد ٹاور دیکھنے جا رہے ہی۔
یہ بھی پڑھیے:
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ