مئی 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاسی تاریخ کا ایک دلچسپ قصہ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ 1988ء کے 9ویں مہینے کی بات ہے کراچی میں نوابزادہ نصراللہ خان (مرحوم) کی جماعت کے صوبائی سربراہ مشتاق مرزا (مرزا صاحب اپنی سیاست سے زیادہ سالانہ حلیم پارٹی کی بدولت کراچی کی ہمہ قسم کی سیاسی و غیر سیاسی اشرافیہ میں خاصے مقبول تھے) کی قیام گاہ پر نیشنل پیپلزپارٹی کے سربراہ رئیس غلام مصطفی جتوئی پہنچے اور دونوں میں ایک سیاسی مشاورت شروع ہوگئی۔

لگ بھگ نصف گھنٹے کی مشاورت کے بعد مشتاق مرزا کے لینڈ لائن ( پی ٹی سی ایل ) نمبر سے ملتان کے ایک نمبر پر رابطہ ہوا۔ گھنٹی بجی، رسیور ملتان میں نوابزادہ نصراللہ خان کے بااعتماد رفیق اور پی ڈی پی کے رہنما حکیم محمود خان ایڈووکیٹ ( مرحوم ) نے اٹھایا۔

کیسے ہیں خان صاحب! مشتاق مرزا نے دریافت کیا۔ اللہ کا شکر ہے، جواب دیا گیا۔ کچھ بے تکلفانہ جملوں کے تبادلے کے بعد مشتاق مرزا بولے، خان صاحب! نواب صاحب کا فون اٹینڈ نہیں ہورہا۔ دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں اولاً یہ کہ پوری ایکسچینج خراب ہو یا پھر نواب صاحب رسیور اتار کر رکھ دیں۔

(یاد رہے ان دنوں نہ تو آج کی طرح موبائل فونز کی فراوانی ہوتی تھی اور نہ ہی پی ٹی سی ایل کی دھانسو دھار سہولتیں۔ خان گڑھ جو نواب صاحب کا آبادی قصبہ تھا میں ٹیلیفون کی انفرادی سہولت بھی بہت کم لوگوں کے پاس تھی)۔

خان نے جواب میں دریافت کیا مسئلہ کیا ہے؟ مشتاق مرزا بولے ’’بڑی اہم بات ہے۔

میرے گھر پر غلام مصطفی جتوئی تشریف رکھتے ہیں، ہمارے درمیان نصف گھنٹے تک اس موضوع پر مشاورت ہوچکی، ان کا کہنا ہے کہ جنرل حمید گل کی پیشکش کے باوجود میں مجوزہ سیاسی اتحاد، اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کا سربراہ نہیں بننا چاہتے۔ ان کی خواہش ہے کہ نواب زادہ نصراللہ خان اس اتحاد کے صدر بن جائیں ۔

آئی جے آئی کے امیدواروں کے لئے انتخابی اخراجات فراہم کرنے کے وعدے کے ساتھ یہ یقین دہانی بھی ہے کہ پیپلزپارٹی کے سنگل لارجسٹ پارٹی بننے کا راستہ روکنے کی بھی ہرممکن کوشش کی جائے گی۔

جتوئی صاحب کہتے ہیں اتحاد کے سربراہ کی حیثیت سے نواب صاحب پارلیمانی بورڈ کے سربراہ بھی ہوں گے اس طرح تمام اتحادی جماعتوں کو باوقار انداز میں نمائندگی مل جائے گی‘‘۔

آپ کی بات سر آنکھوں پر مرزا صاحب، مجھے کیا کرنا ہے۔ محمود خان نے دریافت کیا۔

مشتاق مرزا بولے،

خان صاحب! ’’آپ فوراً خان گڑھ کے لئے روانہ ہوجائیں۔ نواب صاحب سے ملاقات کریں اور ان تک یہ تمام گفتگو پہنچادیں اور یہ بھی کہ آپ نواب صاحب کو آمادہ کریں۔ آخر سیاسی کارکنوں کی قسمت میں عمر بھر کے دھکے ہی تو نہیں۔ قدرت موقع دے رہی ہے تو فائدہ اٹھانے میں کیا قباحت ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ دونوں پی پی پی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں کیونکہ بینظیر بھٹو کے برسراقتدار آنے سے فوج میں اضطراب پیدا ہوسکتا ہے‘‘۔

ملتانی خان (حکیم محمود خان) اس گفتگو کے جھٹکوں سے سنبھلے اور خان گڑھ کے لئے روانہ ہوگئے۔ لگ بھگ عصر کے وقت وہ نواب زادہ نصراللہ خان کے ہاں پہنچے۔ نواب صاحب نماز عصر سے فارغ ہوکر تسبیح پڑھ رہے تھے۔ اپنے وفادار سیاسی رفیق کو اچانک سامنے پاکر وہ مسکرائے پھر بولے بیٹھو، خیر سے آئے ہو، خبریں کیا ہیں؟

خان نے وجہ آمد بتلانے سے قبل دریافت کیا، نواب صاحب آپ کا نمبر خراب ہے؟ حسب عادت زیرلب مسکراتے ہوئے بولے ’’تین دن سے مرا پڑا ہے‘‘۔ تسبیح و دعا کے بعد نواب صاحب نے پھر سے سلسلہ کلام شروع کرتے ہوئے کہا، بابا محمود خان کیا خبریں ہیں؟ اب محمود خان نے مشتاق مرزا کے فون اور ان کی پوری گفتگو زیر زبر کے فرق کے بغیر نواب صاحب کو سنادی۔ خان کی بات ختم ہوئی، کمرے میں خاموشی چھاگئی۔

کچھ دیر کے بعد اس خاموشی کو نواب صاحب نے خود توڑا اور بولے بابا محمود خان تم کیا کہتے ہو؟

محمود خان کو اس مشورہ طلب انداز نے حوصلہ دیا اور اسے مشتاق مرزا کی گفتگو کا آخری حصہ یاد آیا۔

میں تو یہی عرض کروں گا جتوئی صاحب نے بلاوجہ مشتاق مرزا سے بات نہیں کی۔ پھر پیپلزپارٹی نے ایم آر ڈی کے اتحادیوں کے ساتھ کون سا اچھا سلوک کیا ہے وہ بھی تو تنہا پرواز کی طرف مائل ہے جبکہ ایم آر ڈی میں طے ہوا تھا کہ مل کر الیکشن لڑیں گے۔

اب بینظیر بھٹو کہتی ہیں کہ سوائے نواب زادہ صاحب اور میر غوث بخش بزنجو کے باقی کی تمام نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کریں گی۔ پی پی پی میں مروت نہیں تو ہم کون سا بندھے ہوئے ہیں۔

دنیا میں اتحاد تو بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں، ایم آر ڈی میں شامل ہونے سے قبل ہم بھی تو پاکستان قومی اتحاد کا حصہ تھے۔ میرے خیال میں تو آئی جے آئی میں شمولیت کے لئے کوئی امر مانع نہیں پھر سربراہ تو آپ ہی ہوں گے۔ پارلیمانی بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے سیاسی کارکنوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے۔

خان نے گفتگو روک کر نواب صاحب کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا اور پھر آخری جملہ کہہ کر بات مکمل کی۔ نواب صاحب سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ ہمیں بھی تو سیاست کرنا ہی ہے۔ پھر آئی جے آئی کیوں نہیں؟

مکمل توجہ سے پوری بات اور پیغام سن چکنے کے بعد نوابزادہ نصراللہ خان گویا ہوئے۔

محمود خان! ’’بابا، سیاست کے سینے میں دل ہو یا نہ ہو میرے سینے میں ضرور دھڑکتا ہے۔ نوابزادہ نصراللہ خان کے لئے ڈوب مرنے والی بات یہ ہوگی کہ ساری عمر اتحاد میں نے بنائے اور اب جنرل حمید گل کے تخلیق کردہ اتحاد میں صدارت اور چند نشستوں کے لئے شامل ہوجائوں‘‘۔

بابا! ہم جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دے کر ایک گناہ کرچکے، ایم آر ڈی اس گناہ عظیم کا کفارہ تھی۔ ہم جمہوری لوگ ہیں، ایجنسیوں کے سربراہوں کی انگلیوں پر اٹھے بیٹھے تو میلوں ٹھیلوں کے شاگرد ناچوں اور ہم میں کیا فرق رہ جائے گا۔

تم رات یہیں ٹھہرو صبح اکٹھے ملتان چلیں گے۔ اگلی صبح نواب صاحب اپنے سیاسی رفیق کے ہمراہ خان گڑھ سے ملتان کے لئے روانہ ہوئے۔ ملتان پہنچتے ہی انہوں نے مشتاق مرزا اور غلام مصطفی جتوئی سے ٹیلیفون پر تفصیلی بات کی اور دونوں کو اپنا دوٹوک فیصلہ سنادیا۔

نواب صاحب نے غلام مصطفی جتوئی سے یہ بھی کہا ’’آپ کے لئے میرا مشورہ ہے کہ آئی جے آئی سے دور رہیں‘‘۔ جتوئی صاحب بھلا کیسے دور رہتے۔ انہوں نے تو شیروانی بھی سلواچھوڑی تھی۔ نوابزادہ نصراللہ خان اب ہم میں نہیں مگر ایجنسیوں کی سیاست کے حوالے سے ان کا موقف پاکستانی سیاست کے ماتھے کا جھومر بن کر چمکتا رہے گا۔

مجھے یہ عرض کرنے دیجئے کہ پاکستانی سیاست کے اس ورق کو الٹنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ اصغر خان کیس میں 1990ء میں آئی جے آئی کی جماعتوں اور رہنمائوں کو ایجنسیوں کی طرف سے مال دینے کا بہت شوروغوغا ہوا۔ لاریب آئی ایس آئی کا وہ اقدام صریحاً غلط تھا لیکن سوال یہ ہے کہ آئی جے آئی کے قیام کے وقت پاکستان کی طاقتور ترین بلکہ منہ زور خفیہ ایجنسی نے جو ہتھکنڈے آزمائے اور 1988ء کے انتخابات کے دوران آئی جے آئی کے امیدواروں کو جو مالی تعاون فراہم کیا وہ لائق تحسین تھا یا 1990ء اور بعد کے انتخابات میں کی گئی منیجمنٹوں جیسا جرم؟

جرم تھا تو پھر انصاف اور آزادی اظہار کے بٹیروں سے کھیلنے والے یہ تو بتلائیں کہ حاضر سروس جرنیل پر سیاسی اتحاد بنوانے اور اتحاد کے امیدواروں کو مال پانی فراہم کرنے کے الزام میں مقدمہ کیوں نہیں چلنا چاہیے تھا ۔

کیا اس جرم کی سنگینی پرویز مشرف اور جنرل باجوہ کے جرم سے کم ہے اور کیا آئی جے آئی کے مال پر 1988ء کی انتخابی مہم کے دوران رقص کرنے والے توقیر کے مستحق ہیں یا احتساب کے؟ آدھا تیتر آدھا بٹیر بن کر رہنے کے بجائے صاف سیدھا فیصلہ کیجئے تاکہ تاریخ کی جوابدہی سے بچا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: