نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

باغی، جمہوریت پسند اور حق گو "اللہ معافی”۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک ملتانی عزیز مجھے طویل عرصہ سے فوج کا باغی اور جمہوریت پسند ہونے کے ساتھ حق گو سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب ان کی تینوں غلط فہمیاں دور ہوگئیں کیونکہ پچھلے ایک سال کے دوران بغاوت جمہوریت پسندی اور حق گوئی کے حوالے سے ان کے قائم کردہ معیار پر پورا نہیں اتر سکا آجکل انہیں یہ تینوں خوبیاں انصافیوں اور ہمنوائوں میں دیکھائی دیتی ہیں۔

دعا گو ہوں کہ ان کی امید و توقع قائم رہیں مزید دعا ان کی صحت و سلامتی کے لئے ہے۔ سچ بھی یہی ہے کہ میں فوج کا باغی ہوں نہ جمہوریت پسند اور نہ ہی حق گو۔

حرف جوڑ کر نصف صدی سے مزدوری کرتا ہوں یہ روزمرہ کی تازہ محنت ہے مثلاً مجھے پشاور کے ایک اخبار کے لئے ہر ماہ 15 کالم لکھنا ہوتے ہیں کوشش ہوتی ہے کہ 15کی بجائے کسی طرح 16کالم ہوجائیں کم ہوئے تو پیسے کم ملیں گے (حق خدمت فی کالم ملتا ہے) کم ملے تو گھر کا کرایہ دینے میں جوڑتوڑ کرنا پڑے گی۔ ملتان کے جس اخبار سے منسلک ہوں اس کے لئے اداریہ تو 30یا 31ہی لکھنا پڑتے ہیں کالم کی ہفتہ وار چھٹی کرلیتا ہوں۔ یعنی ہر ماہ اس اخبار کے لئے 56سے 58تحریریں لکھنا لازم ہے۔

اب انصاف کیجئے کہ جس مزدور کو ہر ماہ تقریباً 73تحریریں لکھ کر روزی روٹی کرنی ہو وہ بغاوت، جمہوریت اور حق گوئی کرے یا مکان کا کرایہ دینے کے ساتھ یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کو یقینی بنائے۔

یہ نہ پوچھ لیجئے گا کہ اتنی جان جوکھم والی محنت مزدوری کا حق خدمت کیا ملتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل اس موضوع پر ایک دوست نے سوشل میڈیا پر بحث اٹھاتے ہوئے سوال کیا تھا۔ تب میں نے عرض کیا کہ دونوں اخبارات اس محنت کا جو معاوضہ دیتے ہیں اگر یہاں لکھ دوں تو پھر عزت بچانے کے لئے خودکشی واجب ہوگی۔

کہنے لگے کوئی اور کام کرلیجئے۔ عرض کیا یہی المیہ ہے کہ اور کوئی کام نہیں آتا ماسوائے حرف جوڑنے کی مزدوری کے۔

خیر اس جملہ معترضہ کو اٹھارکھئے عرض یہ کررہا تھا کہ قلم مزدور کو حرف جوڑنے کی جتنی آزادی میسر ہے اس کا فائدہ ضرور اٹھاتا ہے ۔ جتنی آزادی ہے لکھنے کی اس کے لئے دونوں اخبارات کی انتظامیہ کا شکریہ۔

اداریہ اخبار کی پالیسی کے مطابق لکھنا پڑتا ہے۔ بنیادی طورپر میں اداریہ نویس ہی ہوں۔ سال 1991ء سے قبل اداریہ نویسی میں تسلسل نہیں تھا البتہ جن جرائد میں اس سے قبل رہا وہاں ہفتہ وار یا ماہانہ داریہ لکھنا ہوتا تھا ۔ پاکستانی ہفتہ وار اور ماہانہ جرائد کی بھی اپنی دنیا رہی بالخصوص سیاسی ہفتہ روزوں اور ماہناموں کی۔

وہاں آپ نام کے ایڈیٹر ہوتے ہیں لیکن دفتری معاون سے کاپی پیسٹنگ تک کے فرائض گلے پڑے ہوتے ہیں۔ سال 1990ء میں ہفت روزہ ’’رضاکار‘‘ لاہور میں بطور ایڈیٹر طویل ملازمت کے بعد الگ ہوا تو بابا مقبول احمد مرحوم نے اپنے جریدے ماہنامہ ’’زنجیر‘‘ میں ادارت کی پیشکش کی۔

تنخواہ پچھلی تنخواہ سے ایک ہزار روپے زیادہ تھی چیلنج بھی تھا کہ کیونکہ مجھ سے قبل ’’زنجیر‘‘ کی ادارت حسن نثار کررہے تھے اور استاد محترم اکرم شیخ معاون مدیر تھے۔

’’زنجیر‘‘ میں بطور مدیر ڈیڑھ برس خدمات سرانجام دیں۔ 92 صفحات کے ماہانہ جریدے کے 86 صفحات، پبلشر نوٹ سمیت خود لکھنا پڑتے تھے۔ سیاسی انٹرویو، چاروں صوبوں کی سیاسی ڈائریاں، سیاسی و تاریخی مضامین، تجزیہ، سماجی موضوع پر ایک آدھ تحریر۔ ایک دو کالم وغیرہ۔ ایسے میں کوئی مہربان دوست ایک آدھ تحریر دے دیتا تو سانس لینے کا موقع مل جاتا تھا۔

زنجیر میں ملازمت سے قبل روزنامہ ’’مساوات‘‘ لاہور میں کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ ابتداً ہفتہ میں 2یا 3کالم لکھتا تھا پھر محسن بھائی (شہید سید محسن نقوی) اور استاد محترم حمید اختر صاحب کے حکم پر روزانہ کالم لکھنے لگا زنجیر کی ملازمت ختم ہوئی تو مساوات سے مستقلاً منسلک ہوگیا۔

زنجیر کے دنوں میں ہی وہ تاریخ ساز انکشاف بلکہ یوں کہہ لیجئے بم پھوٹا تھا کہ کوئی پیپلز میڈیا سیل بنا تھا حسن نثار اس کے سربراہ تھے پی پی پی کے اولین اقتدار میں وہ اس میڈیا سیل کے نام پر محترمہ بینظیر بھٹو سے 19لاکھ روپے ماہانہ لیتے رہے۔

سیل کے ارکان کی تنخواہوں کے نام پر اس گھٹالے پر قبل ازیں ایک سے زائد بار تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوں باردیگر لکھنے کا فائدہ کوئی نہیں۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ قلم مزدوری روزی روٹی کا وسیلہ ہے۔ پچھلی نصف صدی کے دوران چند ادارے ایسے بھی ملے جن کے مالکان کے ذمہ آج بھی واجبات ہیں۔ سال 2005ء میں غلام شبیر خان لشاری نے لاہور سے روزنامہ ’’آواز خلقت‘‘ شروع کیا مہربان محترم لالہ عمر علی خان بلوچ کے حکم پر اس اخبار کی ادارت سنبھالی۔ صبح 10سے رات ایک اور کبھی دو بجے تک مسلسل دفتری امور سرانجام دینے کا نتیجہ عارضہ قلب کی بیماری کی صورت میں برآمد ہوا۔ یہ مہربان ’’دوست‘‘ اب پتہ نہیں کہاں ہوتے ہیں ان کے ذمے چند ماہ کی تنخواہیں ہیں۔ اس سے قبل سال بھر سے اوپر روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور میں ایڈیٹوریل ایڈیٹر کے طور پر فرائض ادا کئے۔ الحمدللہ مجیب الرحمن شامی جیسے اسلام پسند ور اصولی مالک کے ذمہ بھی چند تنخواہیں بقایا ہیں مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2006ء میں جب مجھے ہارٹ اٹیک ہوا تو میری اہلیہ نے انہیں اطلاع دی انہوں نے جواباً ہسپتال بارے دریافت کیا اور بولے نصف گھنٹے میں بقایا جات ہسپتال پہنچ جائیں گے۔ آج 2023ء کا سال ہے 17برس گزرگئے نصف گھنٹہ پورا نہیں ہوا۔

’’دی فرنٹیئر پوسٹ‘‘ کے بیگار کیمپ کی ساڑھے چار سال پر پھیلی داستان بڑی دکھ بھری ہے لڑے مرے تھے جن کے لئے ان میں سے کچھ تو وضو کرتے رہے اور کچھ نے عقب سے یوں وار کئے کہ گھائو اب تک بھرے نہیں

البتہ ایسا منظم فراڈ زندگی بھر نہیں دیکھا تب خاتون خانہ بولیں آپ اعتراف کیجئے کہ مردم شناس نہیں ہوں ۔ ’’دی فرنٹیئر پوسٹ‘‘ میں ساڑھے چار برس کی ایڈیٹری میں چار پانچ تنخواہیں ہی مل پائیں پچھلی تنخواہیں اور کارکن ساتھیوں کا وسیلہ رزق بچاتے بچاتے یہ تجربہ ہوا کہ ہم سے بڑا احمق کوئی نہیں وہ لوگ اچھے رہے جو رحمت شاہ آفریدی کی چاپلوسی کرکے کچھ نہ کچھ لے گئے۔ ساتھیوں میں ایک سے بڑا ایک فنکار نکلا۔

اور تو اور مجھ جیسے مزدور کے ’’مساوات‘‘ کے ذمہ بھی کچھ واجبات ہیں۔ فقیر راحموں کہتا ہے سارے واجبات اب قیامت کو ملیں گے۔ بھلا جس قسم کی قیامت ہم بھگت رہے ہیں کوئی اور قیامت اس سے بھی خوفناک ہوگی کیا؟ بات قلم مزدوری سے شروع ہوئی تھی دور نکل گئی۔

بھلا ایک مزدور جس نے روزانہ کی بنیاد پر روزی روٹی کرنی ہو نظریات کے تام جھام سے کیسے جی بہلاسکتا ہے۔ بس یہی کافی ہے کہ ان برسوں میں جو درست سمجھا وہی عرض کیا اس عرض کئے میں سے کسی نے بغاوت کی چنگاری جمہوریت پرستی اور حق گوئی دیکھ تلاش کرلی تو یہ اس کی اعلیٰ ظرفی ہے ہم نے یہ تینوں کام نہیں کئے۔ اپنے مطالعے، مشاہدے اور حالات کے مطابق درست تفہیم کی روشنی میں عرض کرتے رہنا فرض ہوتا ہے بغاوت نہیں۔ اچھا بغاوت کی بھی کس سے جائے؟

یہ ملک تو سکیورٹی اسٹیٹ تھا ہے اور رہے گا۔ کسی قسم کا انقلاب یہاں نہیں برپا ہونا۔ اس ملک کے اسلام پسند اور سوشلسٹ دونوں زمینی حقائق سے نابلد ہیں۔ جمہوریت پسند کہلانے والے طبقاتی جمہوریت کے واری صدقے ہوتے ہیں۔

متروک نظاموں میں سے خیر تلاش کرنا سرابوں کے پیچھے دوڑتے رہنے کے سوا کچھ نہیں دستیاب سیاسی جماعتیں طبقاتی نظام کے جبڑے سے کچھ کھینچ کھانچ کر عام لوگوں کو دے دیں تو غنیمت سمجھ لیجئے اس سے زائد کی توقع مت کیجئے۔

ہمارے ملتانی عزیز بھی اصل میں تبدیلی پسندوں کے رہنما عمران خان کو بغاوت کی علامت سمجھتے ہیں، ان کے اور بہت سارے دوسرے لوگوں کے خیال میں اس بغاوت سے جمہوریت کی شمع روشن ہوگی۔

اس سادگی پر مرجانے کو بھی جی نہیں کرتا کیونکہ بغاوت کی علامت آج بھی آرمی چیف سے ملاقات اور مذاکرات کی "موسیقی” سے جی بہلارہا ہے اسے ایجنسیوں نے 25سال پہلے بتایا تھا تمہارے سوا سب چور ہیں اس نے مان لیا جب ایجنسیوں نے بتایا کہ تمہاری سرپرستی میں چوریاں ہورہی ہیں تو نہیں مانا۔

حرف آخر یہ ہے کہ اس قلم مزدور بارے غلط فہمیاں نہ پالا کیجئے یہ آپ کی صحت اور باہمی تعلق دونوں کے لئے مفید رہے گا۔ کم لکھے کو زیادہ سمجھ لیجئے خواب دیکھنا چھوڑدیجئے۔ اور یہ بھی کہ جو نظام ماضی میں شرف انسانی کی اعلیٰ مثالیں قائم نہیں کرپائے وہ اب بھی خاص تیر نہیں مارپائیں گے۔

ان نظاموں کی جگالی کرنے سے بہتر ہے کہ طبقاتی جمہوریت کے کوچے میں سے عوامی

جمہوریت کا راستہ بنانے کی شعوری کوشش کیجئے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author