اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تحریک انصاف کے ہاتھوں سے پھسلتا خیبر پختونخوا کہاں جارہا ہے؟|| محمود جان بابر

پارٹی کے اندر سے موصول ہونے والے سگنلز کے مطابق بہت سے رہنما اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد یہ تسلیم کرچکی ہے کہ ان کے اچھے دن واپس لوٹ کر آنا اب اتنا آسان نہیں رہا۔ ان میں سے کچھ عمران خان کی آئندہ چند دنوں میں گرفتاری کے بارے میں بھی پریشان ہیں۔

محمود جان بابر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب یقین ہوچلا ہے کہ تحریک انصاف کا بڑا سیاسی مورچہ خیبرپختونخوا بھی شاید مزید زیادہ دیر اس کا نہ رہے۔ اس یقین کی چند وجوہات ہیں جن میں سب سے پہلی وجہ اس کے اندر سے اپنوں کی کچھ کاروائیاں بھی ہیں۔ ایسی خبریں ہیں کہ پارٹی کے اپنے لوگوں نے اپنے ہی لوگوں کی مخبریاں کردی ہیں، بعض ایسے بھی ہیں جو لگتے تو پارٹی کے ساتھ ہیں لیکن انہوں نے خود کو بچانے کے لئے انتظامیہ و پولیس کو تحریری اور بصری یقین دہانیاں کرادی ہیں کہ وہ مزید پارٹی کی کوئی لائن نہیں لیں گے۔

 

صوبے میں کئی جگہوں سے ایسی خبریں آرہی ہیں کہ پارٹی کے کچھ سابق منتخب اراکین اسمبلی نے ویڈیوز ریکارڈ کرکے پولیس کے پاس رکھوالی ہیں اور یہی وجہ ہے بہت سی گرفتاریاں نہ ہونے کی۔ پارٹی کے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اب بھی اس بات پر قائم ہیں کہ وہ مزاحمت یا مفاہمت کرکے بچ سکتے ہیں لیکن یہ تعداد اس تعداد کے مقابلے میں نمک کے برابر ہے جو کبھی پارٹی ٹکٹیں لینے کے لئے آپس میں لڑرہی ہوتی تھی۔ پارٹی کے چند ہی رہنما ایسے ہیں جو روپوش ہیں لیکن وہ پھر بھی آسانی سے سرنڈر ہونے کے لئے تیار نہیں لگتے۔

 

پارٹی کے اندر اس کے سب سے بڑے گڑھ پشاور کے بارے میں یہ خبریں گرم ہیں کہ ماضی قریب میں یہاں سے منتخب ہونے والے قریبا تمام پارٹی رہنما صوبے کے سابق وزیراعلی اور پارٹی کے سابق صوبائی صدر پرویز خٹک کے ساتھ رابطے میں ہیں جو انہیں ساتھ لے کر کسی بھی وقت ایک نئی پارٹی کا اعلان کرسکتے ہیں تاہم ابھی تک پرویز خٹک کا اپنا پلان سامنے نہیں آیا۔ وہ کافی احتیاط سے اپنے کارڈز کھیل رہے ہیں ان کے قریبی سمجھے جانے والے لوگوں میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ پارٹی بنانے کی صورت میں وہ تحریک انصاف کے ووٹرز سے محروم ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ فوری طور پر اپنی پارٹی بنانے کے اعلان سے احتراز برت رہے ہیں۔

 

جوں جوں وقت گذر رہا ہے صوبے میں کسی قسم کی قیادت سے محروم تحریک انصاف کے کارکنوں کو یقین ہوتا جارہا ہےکہ پنجاب کی طرح یہاں بھی آنے والے دن آسان نہیں ہونگے پھر بھی وہ جھنڈا لگاو مہم کے ذریعے پارٹی کارکنوں اور اپنے حمایتیوں کو خود سے منسلک رکھنے کی ایک کوشش کررہے ہیں یہ دوسری بات ہے کہ بہت سے وہ جو اپنی گاڑیوں کے نمبر پلیٹوں کا رنگ بھی پارٹی کے جھنڈے کے رنگ میں بناتے تھے اب یہ جھنڈا لگانے کو تیار نہیں۔سوشل میڈیا پر تو پھر بھی یہ کوشش کہیں کہیں کامیاب نظر آرہی ہے البتہ گلیوں اور محلوں میں اس کی کامیابی کے امکانات ہر گذرتے دن کے ساتھ معدوم ہورہے ہیں۔

 

تحریک انصاف جس کے بارے میں کچھ عرصہ پہلے تک یہ اندازے تھے کہ حالات یہی رہے تو وہ تیسری بار بھی خیبرپختونخوا میں حکومت بنائے گی کی حالت 9 مئی کے بعد یہ ہوگئی ہے کہ آئندہ انتخابات میں اگر اس کے چند لوگ ہی منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچ سکیں تو یہ بھی غنیمت ہوگی۔ ماضی کی اس "اہم ترین” جماعت کو اس وقت اپنوں کی بیگانگی، ماضی میں پارٹی سے نکالے جانے والے ضیا اللہ آفریدی جیسے لوگوں کی مسلسل مخالفانہ سیاسی کاروائیوں اور مخالف جماعتوں جمعیت علما اسلام ف، اے این پی، جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن کی منصوبہ بندیوں کا سامنا ہے جن سے زیادہ خطرناک اس سے اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی کا عنصر بھی اسے ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر درپیش ہے۔ اس کے اپنوں اور مخالفین کو واضح پیغام مل چکا ہے کہ اب کے بعد سے پی ٹی آئی کسی بھی پوزیشن میں ہوگی تو وہ خالصتاَ اس کی اپنی سیاسی پوزیشن ہوگی جو یقینا 2018 کے مقابلے میں کمزور ہی ہوسکتی ہے۔

 

پارٹی کے اندر سے موصول ہونے والے سگنلز کے مطابق بہت سے رہنما اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد یہ تسلیم کرچکی ہے کہ ان کے اچھے دن واپس لوٹ کر آنا اب اتنا آسان نہیں رہا۔ ان میں سے کچھ عمران خان کی آئندہ چند دنوں میں گرفتاری کے بارے میں بھی پریشان ہیں۔

 

صوبے میں اس وقت اختیار یوں تو نگران حکومت کے پاس ہے لیکن بچے اور اندھے بھی یہ جانتے ہیں کہ اصل اختیار پی ڈی ایم کے اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں خصوصا جمعیت علما اسلام ف کے پاس ہے جمعیت کے پاس گورنر ہاوس ہے جہاں پر بیٹھ کر نہ صرف مستقبل کی منصوبہ بندی ہوتی ہے بلکہ سرکاری مشینری کو ادھر ادھر کرنے کے فیصلے بھی یہی ہوتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ صوبے میں نگران حکومت بننے سے پہلے ہی صوبہ عملا جمعیت علما اسلام کے سپرد ہوچکا تھا جس پر اس اتحاد کی دوسری اہم جماعت عوامی نیشنل پارٹی کو سب سے زیادہ اعتراض رہا ہے جس کا اظہار وہ کھلم کھلا کررہے ہیں ان کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کے قریبی رشتے دار حاجی غلام علی کو ہٹائے جانے کے مطالبے بڑی تواتر سے آرہے ہیں۔مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی مقامی قیادت بھی ایسے بیان دے چکی ہے جس سے اس اتحاد کے اندر بے چینی کا بھرپور تاثر ملتا تھا۔

 

پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں کی خوشی اس لئے بھی فطری ہے کہ کچھ عرصہ قبل تک اس اتحاد میں شامل کوئی جماعت نہ صرف اپنی حیثیت میں بلکہ اتحاد کی صورت بھی تحریک انصاف کو پچھاڑنے کی پوزیشن میں نہیں تھی ان کے لئے تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین ناراضگیاں خصوصا تحریک انصاف کی 9 مئی کو کی جانے والی غلطیاں کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں جس نے ان کے سیاسی ادھ موئے وجود میں جان ڈال دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

افغانستان، جنگ کے پلٹتے سائے۔۔۔ محمود جان بابر

کانچ کا وجود اور پتھر سے دشمنی۔۔۔ محمود جان بابر

پاکستان میں افغانوں کے چالیس سال ۔۔۔ محمود جان بابر

محمود جان بابر کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: