مئی 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ویجائنا کو تالہ لگا ہے!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ہمیں یہ تفصیلات ان گائناکالوجسٹس کی زبانی ملیں جو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کام کرتی ہیں۔ جنہوں نے عورت پہ ہونے والے اس ظلم کو دیکھا، اور ان عورتوں کی بے کسی اور بد حالی پہ دل مسوس کر رہ گئیں۔ ان عورتوں کے لیے دنیا آج بھی غار، جنگل اور وحشت کا پرتو ہے اور زندگی لونڈی بن کر سر جھکا کر حکم ماننے کا نام۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امی آپ نے اپنی شادی پر نتھ پہنی؟
نہیں۔
کیوں؟
میرا ناک چھدا ہوا نہیں تھا۔
کیوں نہیں چھدوایا؟
کیوں کہ مجھے اس سے وابستہ تصور سے گھن آتی تھی۔
وہ کیا؟
نتھ اتروائی اور نتھ ڈلوائی۔

 

نتھ اتروائی کیا ہے؟
ایک اشارہ کہ نتھ پہنے ہوئے عورت کنواری ہے اور نتھ اتروائی سے مراد یہ ہے کہ نتھ اتارنے والا اس عورت سے جنسی تعلق قائم کرنے والا پہلا مرد ہے۔

نتھ ڈلوائی کیا ہے؟
نتھ ڈال کر رکھنا یا نکیل ڈالنا۔ پدرسری نظام کا استعارہ۔ یہ نکیل وہی ہے جو جانور کے ناک میں سوراخ ڈال کر اس میں سے لگام گزار کر مالک اپنے ہاتھ میں پکڑتا ہے۔ گدھے گھوڑے، بیل، بھینس، بندریا کی نکیل جانور کو بتاتی ہے کہ مالک کیا چاہتا ہے؟

 

صاحب، کسی بھی زبان میں مستعمل محاورے صدیوں کی بازگشت کا عکس ہوتے ہیں۔ قبضے سے ملکیت کے جانور بھاگنے نہ پائیں، سو نکیل ڈالنا ایک ضرورت لیکن یہ نکیل ملکیت میں موجود عورت کو بھی پہنا کر رکھنا؟ تم قتل کرو ہو یا کرامات کرو ہو۔ یاد رکھیں عورت کے لیے محاورے میں استعمال ہونے والا لفظ نکیل اصل میں نتھ یا نتھلی کہلاتی ہے۔

عورت بننے سنورنے کے شوق میں ناک چھدوا تو لیتی ہے لیکن اس ناک اور نتھ سے وابستہ تصور کے متعلق باخبر ہے یا نہیں، ہم نہیں جانتے لیکن ایک سوال تو اٹھتا ہے۔

غلامی کا تصور اور عورت کو ملکیت بنانے کا مردانہ جنون۔ یہ سن کر شاید آپ کو قے آ جائے کہ ملکیت بنانے کا جنون ناک تک ہی نہیں محدود رہا، کچھ جنونی اس مہر کو ویجائنا پہ بھی لگانا ضروری سمجھتے ہیں۔

حیران ہو کر ہماری طرف کیوں دیکھتے ہو؟

جاؤ پوچھو قبائلی علاقوں کی عورت سے جو ویجائنا پہ تالہ لگوا کر زندگی گزارتی ہے۔ جس کی چابی شوہر کی جیب میں رکھی ہوتی ہے۔

یہ تالہ آخر لگتا کہاں ہے؟

 

ویجائنا کے دونوں طرف کے ابھاروں کو لیبیا میجورا labia Majora کہا جاتا ہے۔ لیں جی کریں دونوں طرف ایک ایک سوراخ اور سوراخوں سے گزار یں تالہ۔ تالہ بند کریں تو ہو گئی تالہ بندی۔ بالکل ویسے ہی جیسے گائے بھینس کی ناک میں سوراخ کرنے کے بعد ناک میں لوہے کا کڑا ڈال کر رسی باندھی جائے۔

لیکن تالہ کیوں لگایا جاتا ہے؟

مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ بیوی کی اوقات سمجھتے ہیں گائے بھینس جیسی اور بسا اوقات اس سے بھی کم۔ سو اس جنونی مالک کو ضرورت ہے پہرے داری کی تاکہ جانور کوئی اور کھول کر لے جا نہ سکے۔ جیسا کہ بیوی نامی ملکیت بھی شامل ہے اس فہرست میں سو ویجائنا کو شوہر نے لگایا تالہ تاکہ عدم موجودگی میں ویجائنا رہے مقفل اور کوئی دیکھ نہ سکے۔ بیوی ملکیت تو ہے ہی لیکن تالہ بندی کے معنی بے اعتبار ی کے بھی ہیں۔ کیا خبر موقع ملتے ہی ناہنجار عورت کیا کر گزرے؟ سو اسے لاکر کی طرح بند کر کے رکھنا نہایت ضروری۔ چابی سے ویجائنا نامی لاکر کا تالا شوہر اس وقت کھولے گا جب اس نے بیوی سے جنسی تعلق قائم کرنا ہو۔ ازدواجی ضرورت کے بعد پھر سے تالہ بندی۔

 

نازک اعضا پہ لٹکتا ہوا تالہ عورت کے لیے کتنا تکلیف دہ ہے یہ سوچنے یا سمجھنے کی قطعی ضرورت نہیں۔ غیر اہم چیز کے لیے یہ فعل ظلم ہے، یہ بھی کیوں مانا جائے؟ عورت جب ڈاکٹر کے پاس آئے تب بھی تالہ لگا ہوا ہو۔ اگر ڈاکٹر معائنہ کرنا چاہے تو ساتھ میں بھیجی محافظ عورت چابی سے پہلے تالہ کھولے اور پھر ڈاکٹر تک پہنچنے کی نوبت آئے۔

ویجائنا کتنی لہولہان ہو گی تالے کے وزن سے؟ تالہ کتنی انفکشن کرتا ہو گا وہاں پہ؟ پیشاب، پاخانہ، گرمی میں بہتا ہوا پسینہ اور ماہواری کا خون، ان سب کے بیچ لوہے کا تالہ اور انسانی جسم کے نازک اعضا۔ آپ تصور خود ہی کر لیجیے، بنت حوا کے شب و روز۔

ویجائنا پہ تالہ چابی کا یہ کھیل پاکستان کے قبائلی علاقوں کی میراث ہے جیسے زنانہ ختنے افریقہ، مصر اور سوڈان کے کافی حصوں میں کیے جاتے ہیں۔ زنانہ ختنوں میں لیبیا میجورا کو کاٹ کر ویجائنا کو دھاگے سے سی کر بند کر دیا جاتا ہے ۔

 

دیکھا جائے تو تالہ لگا کر بند کرنے کی اختراع ختنوں ہی کی ماڈرن شکل ہے۔ جس کسی نے بھی یہ سوچا ہے اس کی حکمت اور دانش کو سات توپوں کی سلامی تو دینی ہی چاہیے۔ اور کیا ہی اچھا ہو کہ توپ کے گولے کی جگہ اسی کو فٹ کیا جائے۔

ہمیں یہ تفصیلات ان گائناکالوجسٹس کی زبانی ملیں جو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کام کرتی ہیں۔ جنہوں نے عورت پہ ہونے والے اس ظلم کو دیکھا، اور ان عورتوں کی بے کسی اور بد حالی پہ دل مسوس کر رہ گئیں۔ ان عورتوں کے لیے دنیا آج بھی غار، جنگل اور وحشت کا پرتو ہے اور زندگی لونڈی بن کر سر جھکا کر حکم ماننے کا نام۔

کیا اکیسویں صدی میں اس سے بڑھ کر کوئی ظلم اور نا انصافی ہو سکتی ہے عورت کے ساتھ؟

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: