مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

داتا گنج بخشؒ فقیر راحموں کے خواب میں ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مناسب یہی ہے کہ لالہ سراج الحق اور ان کے ’’حافظ‘‘ دونوں کو کسی اچھے حاذق حکیم کو بروقت دیکھالیا جائے تاکہ مرض بگڑنے نہ پائے۔ پونے چار لاکھ ووٹوں کو 9لاکھ اور 130 ارکان کو 193ارکان ثابت کرنے پر ان دونوں صالحین کا قصور ویسے کوئی نہیں۔ صالحین گوئبلز کی طرح سینہ ٹھوک کر جھوٹ کی تکرار اٹھاتے ہیں اور اس تکرار کی دھول سے تاریخ کا چہرہ مسخ کرتے ہیں۔

گزشتہ روز لالہ سراج الحق نے دھمکی دی کہ ’’پیپلزپارٹی بلدیہ کراچی کا اجلاس کرکے دیکھائے لگ پتہ جائے گا‘‘۔ نصف درجن کے قریب مسلح ذیلی تنظیمیں رکھنے والی جماعت اسلامی کا امیر دھمکی دے رہا ہے تو اسے محض "سڑکی ” نہ سمجھا جائے۔

جی چاہتا ہے کہ چند کتابوں کے اقتباسات کو کالم کا حصہ بنائوں لیکن پھر سوچا اس کا فائدہ لوگ تو ’’سنی سنائی‘‘ کو ایمان کا ساتواں رکن سمجھتے ہیں پونے چار لاکھ ووٹوں کو نو لاکھ کے طور پر پیش کرنا اور پھر اس کی تکرار کرتے رہنا بذات خود ایک فن ہے۔

صالحین اس فن میں یکتا ہیں۔ کچھ باخبر دوست میئر کراچی کے الیکشن کی انتخابی مہم پر اٹھے جماعت اسلامی کے اخراجات کو ’’الخدمت‘‘ کے چندوں سے جوڑ کر سوال اٹھارہے ہیں۔ یہ سوال مناسب ہے یا نامناسب اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔

ایک پرانا پنجابی ڈرامہ گزشتہ روز کے سفر میں ہمارے دوست راجہ ارشد نے یاد دلایا جس میں لڑکوں کے رشتے کے لئے آنے والا خاندان لڑکوں کے دادا یا باپ سے پوچھتا ہے ’’یہ مکان آپ کا اپنا ہے، رجسٹری کس کے نام ہے؟‘‘

دادا جواب دیتا ہے، مکان ہمارا ہے رجسٹری بھی ہمارے نام ہے بس سارے شہر نے ایک ایک روپیہ ڈالا ہوا ہے‘‘۔

اس سے زیادہ کیا عرض کیا جائے کیونکہ اس ملک میں سب سے زیادہ باکردار چندوں، زکوٰۃ ، خیرات، کھالوں اور خمس و وغیرہ وغیرہ کا کاروبار کرنے والے ہوتے ہیں۔

کچھ برس کیا ابھی سال بھر پہلے تک ہمارے انقلابی انصافی دوست کہا کرتے تھے، پل موٹروے سڑکیں جو بنائے نوازشریف نے اپنے باپ کے پیسے سے تو نہیں بنائے۔

فقیر راحموں نے کہا باپ کے پیسے سے نوازشریف نے اتفاق ہسپتال بنایا۔ انصافی دوست نے تڑخ کر کہا ہسپتال تو عمران نے بھی بنایا ہے۔

فقیر راحموں نے جواب دیا جی رجسٹری عمران کےنام ہے ایک ایک روپیہ ملک بھر کے لوگوں ڈال رکھا ہے۔ انصافی ناراض ہوگیا۔ ہمارے انصافی دوست بھی عجیب ہیں ہر کس وناکس کے لئے بدزبانی فرمانا شرعی حق تصور کرتے ہی نہیں استعمال بھی کرتے ہیں۔ جواب ملے تو چوروں کے غلام کی پھبتی کسنے لگتے ہیں حالانکہ اب تو ان کا رہنما اہلیہ اور بہنوں سمیت انہی چوروں کی فہرست میں شامل ہے۔

معاف کیجئے گا بات سے بات نکل کر انصافیوں کی طرف چلی گئی ورنہ بات تو لالہ سراج الحق سے شروع ہوئی تھی۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کا اگر ایم کیو ایم بائیکاٹ نہ کرتی تو یقیناً پیپلزپارٹی کے پاس بھی موجودہ نمائندگی سے قدرے کم نمائندگی ہوتی مگر اس صورت میں جماعت اسلامی کہاں ’’کھڑی‘‘ ہوتی یہ نہ سمجھ میں آنے والا راز ہرگز نہیں۔

ہماری رائے میں جماعت اسلامی سے اس الیکشن (میئر کراچی) میں دو غلطیاں ہوئیں پہلی میئر کے الیکشن کو سندھی غیر سندھی تنازع بناکر پیش کرنا۔ غالباً یہ جماعت کے حافظ نعیم کی لسانی تعصب پسندی سے بھری ذہنیت کی تسکین کا سامان تھا۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ جماعت نے اپنے اتحادیوں کے ووٹ اپنے شمار کرکے اس جھوٹ کو بڑھاوا دیا کہ ہمیں 9لاکھ ووٹ ملے ہمارے 193 ارکان ہیں۔

جماعت کا میئر کراچی کے لئے امیدوار پوری انتخابی مہم کے دوران ’’بھائی مستان‘‘ بنا رہا۔ اب بھی اس کا دہن کھلتا ہے تو حرفوں کی جگہ دو دھاری خنجر نکلتے ہیں۔

کراچی جو مختلف نسلی اکائیوں کا گلدستہ ہے اس کی قیادت کے لئے اس حافظ نعیم الرحمن کے علاوہ جماعت کے پاس کوئی سنجیدہ فہم امیدوار نہیں تھا؟

اس سوال کا ایک جواب فقیر راحموں بتارہا ہے لیکن وہ لکھنے کی ہمت نہیں ہورہی البتہ یہ حقیقت ہے کہ اب جماعت اسلامی کے پاس قبضہ گیر پراپرٹی مافیاز اور چائنا کٹنگ کے ماہرین کے علاوہ کچھ ہے بھی نہیں۔ اللہ جماعت کی توفیقات میں مزید اضافہ کرے۔

اب آیئے ایک اور موضوع پر بات کرتے ہیں لیکن اس سے قبل وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار جاتی امراوی کے اس بیان پر کہ ’’ارکان اسمبلی چارٹرڈ طیارے سے مکہ مدینہ جائیں اور پاکستان کے لئے دعا کریں‘‘۔ کیوں یہ ارکان بھوکے ننگے ہیں سرکاری خرچے پر دعا کرنے جائیں۔ سبھی صاحبان ثروت مند ہیں پلے سے پیسے خرچ کرکے حج پر جائیں اور دعا کریں۔

ویسے سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر دعائوں سے معیشت درست ہونی ہے تو وزارت خزانہ ختم کرکے وفاقی وزارت دعا کیوں نہ بنالی جائے اس وزارت کے سربراہ قبلہ طارق جمیل مناسب رہیں گے کم از کم دعا مانگنے کا ڈھنگ تو ہے انہیں۔

ساعت بھر کے لئے رک کر فقیر راحموں کے حالیہ خواب کا کچھ احوال جان لیجئے۔

فقیر راحموں دعویدار ہیں کہ دو دن قبل خواب میں حضرت سید علی ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخش صاحب قبلہ تشریف لائے اور حکم دیا کہ اسحق ڈار کے خلاف ایک سخت کالم لکھا جائے۔ میں نے لفظ ’’سخت‘‘ پر ان کی جانب حیرانی سے دیکھا تو فرمانے لگے اگر میری بات مان کر لوگوں کو گمراہ کرنے والے ناکام منشی اسحق ڈار کے خلاف کالم نہ لکھا تو میں تمہارے بزرگ سید عبداللہ شاہ بابا بلھے شاہؒ سے شکایت کردوں گا۔

عرض کیا حضرت، آپ کا حکم ہی بہت ہے پھر یہ بزرگوں والی دھمکی کیوں؟ بولے شاہ حسینؒ نے بتایا تھا کہ اگر کسی کی بات آنکھیں بند کرکے مانتے ہو تو وہ سید بلھے شاہؒ ہیں۔

عرض کیا بزرگو آپ کا حکم بھی سر آنکھوں پر ۔ بس حکم کیجئے کہ لکھنا کیا ہے۔

ارشاد ہوا صاف صاف لوگوں کو بتادو کہ یہ اسحق ڈار جتنا ناکام حساب کتاب میں ہے اتنی ہی جعلسازی یہ ہمارا نام لے کر کرتا ہے حکومت اسے ہماری خانقاہ کی کمیٹی سے کسی تاخیر کے بغیر نکال دے۔

داتا صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ جو بندہ جوڑتوڑ اور فراڈ سے دولت مند بن ہے وہ لوگوں کو دعائوں سے مسائل و مشکلات کے حل ہونے کا نسخہ بتاکر انہیں گمراہ کررہا ہے۔

پیارے قارئین کرام آپ تو جانتے ہی ہیں کہ فقیر راحموں اور ہم بزرگوں کی بہت عزت کرتے ہیں بلکہ میرا تو یہ ماننا ہے کہ ہمارے کجوں کے باوجود بات بنی رہتی ہے تو اس کی وجہ بزرگوں کا کرم ہے۔

اس لئے آج سے منشی اسحق ڈار سے کھلی جنگ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس منشی کے غلط اعدادوشمار کی وجہ سے ماضی میں ایک مرتبہ آئی ایم ایف پاکستان کو جرمانہ کرچکا یہ اتنا چالاک اور دونمبری شخص ہے کہ اس جرمانے کو بھی انعام کے طور پر پیش کرکے دعویٰ کرتا رہا کہ مجھے بہترین وزیر خزانہ کا ایوارڈ ملا ہے۔ اب بھی آئی ایم ایف نے وزیراعظم کو فرانس میں بتایا ہے کہ آپ کا وزیر خزانہ چین سے ملے ایک ارب ڈالر کو دوسری مدوں کی رقم ظاہر کرکے فریب دے رہا ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ بندہ کاریگر ہے اپنی کاریگری سے یہاں تک پہنچا ورنہ اس جیسے منشی منڈی میں آڑتھیوں کے پھٹے پر رجسٹر لئے بیٹھے دو جمع دو کررہے ہوتے ہیں۔

فقیر راحموں نے داتا صاحب کی خدمت میں یہ بھی عرض کیا حضور! یہ اسحق ڈار بڑے میاں صاحب کا سمدھی ہے۔ انہوں نے فرمایا

’’بڑے میاں صاحب کا سمدھی ہے، پاکستانی معیشت اور پاکستان کا ہرگز نہیں۔ اتنا ہی لائق فائق ہے تو میاں صاحب اپنے بچوں کے کاروبار کا منیجر فنانس رکھ لیں اسے‘‘۔

لیجئے صاحب ہم نے فقیر راحموں کا خواب حرف بحرف لکھ دیا اور یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ سب سے پہلے ڈار کو داتا صاحب کے مزار کی انتظامی کمیٹی سے ہٹایا جائے۔ ’’ہجویری‘‘ کا نام کسی بھی طرح استعمال کرنے سے اسے منع کیا جائے۔

وزارت خزانہ سے تو اسے ہٹانا مشکل ہوگا کیونکہ بڑے میاں صاحب کا سمدھی جو ہے۔ لیکن میاں صاحب اس رشتے کا بدلہ ملک اور وقوم سے نہ لیں تو ان کی مہربانی ہوگی۔

باردیگر معذرت خواہ ہوں کہ لالے سراج الحق والی بات درمیان میں رہ گئی چلیں کسی اگلے کالم میں لالہ جی کی تازہ بیماری کے ساتھ ان کے حافظ کے لطیف آباد سے کراچی تک کے سفر کے پوشیدہ رازوں سے پڑھنے والوں کو آگاہ کریں گے ابھی تو آپ سب ہمارے ساتھ تعاون کیجئے۔

تعاون یہ کہ اسحق ڈار کی داتا دربار انتظامی کمیٹی سے برطرفی کا مطالبہ آگے بڑھائیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: