دسمبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امریکا کو جنگ میں جاپان نے گھسیٹا تھا۔۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کبھی مغرب کی خوبیوں کی بات کی جائے یا انسانی ترقی میں اس کی خدمات کا ذکر ہو تو دوستوں کو یاد آتا ہے کہ یورپی اقوام نے ایشیائی اور افریقی ملکوں پر قبضے کیے، قتل عام کیا اور جی بھر کے دولت لوٹی۔ امریکی افواج تو حالیہ برسوں تک افغانستان اور عراق میں موجود رہیں۔
امریکا کا معاملہ مختلف ہے، پہلے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ افغانستان آنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا یہ بتانا پڑے گا؟ صدام حسین ہر پھٹنے والے کے خاندان کو پچیس ہزار ڈالر دیتا تھا۔ یہ کوئی راز نہیں، میڈیا میں عام چھپی ہوئی بات ہے۔ امریکا کو ایٹمی حملے کی وجہ سے مطعون کیا جاتا ہے۔ درست! لیکن امریکا نے وہ حملہ کیوں کیا؟ جاپانی دوسری جنگ عظیم میں کیا مظالم کررہے تھے؟ آپ جانتے ہیں؟ پرل ہاربر کا واقعہ معلوم ہے؟ امریکا کو جنگ میں جاپان نے گھسیٹا تھا۔
ہمارے ہاں ایک متھ مشہور ہے کہ جاپان نے ایٹمی حملے کے بعد اپنے بل پر غیر معمولی ترقی کرلی۔ بے شک جاپانی ذہین ہیں اور انھوں نے ترقی کی لیکن یہ وہ خود بھی مانتے ہیں کہ امریکا نے ان کی مدد کی۔ تھوڑی تحقیق کریں، آپ کو معلوم ہوگا کہ جاپان کی ترقی میں امریکیوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ جنگ سے تباہ ملک کے ہر ادارے میں امریکی آکر بیٹھے تھے اور ہر شعبے میں جاپانیوں کی مدد کی تھی۔
امریکا نے کسی ملک کی دولت نہیں لوٹی۔ یہاں کچھ راز نہیں۔ ساری دستاویزات، حکومتی فیصلے، آمدنی اور اخراجات اوپن ہوتے ہیں۔ آپ چاہیں تو وفاقی بجٹ کی دستاویزات دیکھ لیں۔ عراق سے ایک ڈالر آمدن نہیں ہوئی۔ کوئی مفت تیل نہیں آیا۔ الٹا امریکا ہتھیاروں کی خریداری، استعمال اور افواج کی نقل و حرکت کی وجہ سے ہزاروں ارب ڈالر کا مقروض ہوگیا۔ نائن الیون سے پہلے امریکا کا بجٹ سرپلس تھا۔ آج حال یہ ہے کہ ڈیٹ لمٹ ختم ہوچکی ہے۔
امریکا نے افواج بھیجنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ امریکا نہ ہوتا، چین ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا۔ روس ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا۔ بلکہ جس حد تک کرسکتا تھا، کرتا تھا۔ دنیا میں ایک یا دو بڑی عالمی طاقتیں ہر وقت موجود ہوتی ہیں۔ ویکیوم نہیں رہ سکتا۔ ان عالمی طاقتوں کو ورلڈ آردڑ یعنی عالمی نظام برقرار رکھنے کے لیے اچھے برے کام کرنا پڑتے ہیں۔ مثلاً امریکی افواج کے جنگی جہاز پوری دنیا کے سمندروں میں موجود رہتے ہیں۔ ان کا مقصد نہ قبضہ کرنا ہے، نہ کسی کارگو جہاز کو لوٹنا۔ بلکہ ان کی موجودگی سے دنیا بھر کے سمندر محفوظ ہیں۔ یہ نہ ہوں تو بحری قذاق اور شرارتی ریاستیں سمندری راستوں پر طوفان برپا کردیں۔ ہزاروں ارب ڈالر کی سمندری تجارت کا نظام درہم برہم ہوجائے۔
امریکا کے سوپرپاور بننے سے پہلے کی دنیا مختلف تھی۔ نامعلوم مقامات دریافت کرنے کا کھیل جاری تھا۔ برطانیہ اور دوسری یورپی طاقتیں خود کو مہذب سمجھتی تھیں اور باقی دنیا کو تہذیب سکھانے نکلی تھیں۔ آج ان ملکوں کے دانشور بھی اس عمل پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان مغربی ملکوں نے ایشیا اور افریقا کو بہت لوٹا۔ بہت ظلم کیے۔ تھوڑا بہت انفرااسٹرکچر بھی تعمیر کیا اور کچھ سائنسی ترقی بھی زبردستی کروائی لیکن ان کے جرائم معاف نہیں کیے جاسکتے۔
دانشور کہتے ہیں کہ امریکا سامراج ہے۔ یورپ سامراج تھا۔ بس؟ یہاں بات ختم نہیں ہوجاتی۔ چین بھی سامراج ہے۔ ماضی کی اسلامی ریاست بھی سامراج تھی۔
سامراجیت کیا ہے؟ یہ صرف دوسرے ملکوں میں گھس کر ان پر قبضہ کرنا نہیں ہوتا۔ دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کرنا، ان کے فیصلے خود کرنا یا کرنے پر مجبور کرنا بھی سامراجیت ہے۔ کیا چین یہ نہیں کررہا؟ روس تو خیر سکہ بند بدمعاش ہے۔ یوکرین حال کی مثال ہے لیکن وہ ماضی میں بہت کچھ کرچکا ہے۔
اور مسلمان؟ کیا بائیس لاکھ مربع میل کی اسلامی سلطنت کے ایمان افروز قصے آپ نے نہیں سنے؟ کیا وہ ریاست تبلیغ سے بن گئی تھی؟ کتنی ریاستوں پر حملے کیے گئے؟ لاکھوں غیر مسلموں کا خون بہایا گیا تھا۔ لاکھوں خواتین کا ریپ کیا گیا تھا۔ ہر مقبوضہ خطے کی دولت لوٹ کر اسے مال غنیمت قرار دیا گیا تھا۔
امریکا اور یورپ کو سامراجیت کا الزام دینے والے سانس ٹوٹنے سے پہلے مسلمانوں کی عظمت کا دعویٰ بھی کردیتے ہیں۔ کیونکہ مذہب وحشیانہ اعمال کو خوبصورت بناکر پیش کرنے کا نام ہے۔
یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author