مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اردو میں لکھتا ہوں، جس کا مطلب ہے کہ میرے بیشتر دوست اور فالوور پاکستانی اور ہندوستانی مسلمان ہیں۔ اگر آپ ان میں سے ایک ہیں تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ آپ اسلام پر سچے دل سے یقین رکھتے ہیں۔ روایت ہے کہ رسول پاک پر وحی کا آغاز لفظ اقرا سے ہوا تھا۔ اقرا یعنی پڑھو۔ میں بھی آپ کو اقرا یعنی پڑھنے کا مشورہ دوں گا۔ زیادہ نہیں، صرف پانچ کتابیں۔
کارل ساگاں کی کاسموس یعنی کائنات
اسٹیفن ہاکنگ کی بریف آنسرز ٹو دا بگ کوئسچنز یعنی بڑے سوالات کے مختصر جواب
علی دشتی کی بیست و سہ سال یعنی تئیس سال
نووال ہریری کی سیپئنز، اے بریف ہسٹری آف ہیومن کائنڈ یعنی بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ
اور رچرڈ ڈاکنز کی دا گاڈ ڈیلوژن یعنی فریب خدائی
میں بڑے فلسفیوں جیسے نطشے اور برٹررینڈ رسل کے نام نہیں لے رہا۔ نہ ہی ڈارون اور آئن اسٹائن کی کتابیں تجویز کررہا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ بیشتر لوگ ان کا نام ہی سن کر بدک جائیں گے۔ ان کی کتابیں پڑھنا اور سمجھنا آسان بھی نہیں۔ ایک خاص علمی قابلیت درکار ہوگی۔
میں نیاز فتح پوری، سبط حسن، علی عباس جلالپوری کی کتابیں پیش کرچکا ہوں لیکن فی الحال انھیں نظرانداز کردیں۔ جوش اور جون ایلیا کے نام ہی بہت سے لوگوں کو برداشت نہیں ہوں گے۔ انتہائی قابل احترام مبارک حیدر کی آسان فہم کتابوں کو بھی رہنے دیں۔
لیکن ساگاں، ہاکنگ، دشتی، ہریری اور ڈاکنز کو ایک نظر ضرور دیکھیں۔ ان کی کتابوں کے اردو تراجم دستیاب ہیں۔ ان کی زبان آسان ہے۔ ساگاں، دشتی اور ہاکنگ کے انتقال کو بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ ہریری اور ڈاکنز زندہ ہیں۔ ہمارے عہد کے لوگ ہیں اس لیے عام فہم الفاظ میں مدعا بیان کرتے ہیں۔
اگر کوئی کٹر مذہبی شخص ان کتابوں کو پڑھے گا، اگر وہ ضدی اور بند دماغ والا نہ ہوا، تو ان کتابوں کا مطالعہ ختم ہونے تک ریشنلزم پر ایمان لاچکا ہوگا۔ میں نے ریشنلزم یعنی عقلیت پسندی کا لفظ استعمال کیا۔ رچرڈ ڈاکنز کا خیال ہے کہ ان کی صرف ایک کتاب دا گاڈ ڈلیوژن پڑھنے والا ایتھیئسٹ ہوجائے گا۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم ڈاکنز کو زندہ دیکھ رہے ہیں اور انھیں سن سکتے ہیں۔ وہ کہیں خود کو ایتھیئسٹ یعنی ملحد اور کہیں اگنوسٹک یعنی متشکک کہتے ہیں۔ بظاہر اس تضاد کی ایک جگہ انھوں نے وضاحت کی ہے۔
انھوں نے گفتگو میں مذہبی سے ایتھیئسٹ تک کے سات درجے بیان کیے ہیں۔ پہلے درجے کا شخص کہتا ہے کہ اسے یقین ہے، خدا موجود ہے۔ ساتویں درجے پر پہنچا ہوا شخص کہتا ہے کہ اسے یقین ہے، خدا نہیں ہے۔ دوسرے سے چھٹے درجے تک کے تمام لوگ اگناسٹک ہیں۔ دوسرے درجے پر موجود شخص کہتا ہے کہ مجھے خدا کے وجود کا ٹھیک سے علم نہیں لیکن اس کے ہونے کا بہت زیادہ امکان ہے۔ چوتھے درجے والا کہتا ہے کہ خدا کے ہونے یا نہ ہونے کے امکانات برابر ہیں۔
ڈاکنز کہتے ہیں کہ وہ چھٹے نمبر ہیں۔ یعنی وہ خدا کے وجود کو مکمل مسترد نہیں کرتے لیکن ان کا خیال ہے کہ خدا کے وجود کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
میں اپنے بارے میں سمجھتا ہوں کہ پانچویں نمبر پر ہوں، یعنی خدا کے عدم وجود کا امکان پچاس فیصد سے کچھ زیادہ سجھتا ہوں۔ کسی شخصی خدا کے وجود کا امکان دس فیصد ہے۔
رچرڈ ڈاکنز کی ویب سائٹ پر ان کی کتابوں کے اردو تراجم موجود ہیں جو میں نے ڈاون لوڈ کرکے گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں جمع کردیے ہیں۔
ان میں ایک کتاب چار شہ سوار یعنی فور ہورس مین دراصل ایک مذاکرے پر مبنی ہے جس میں چار دانش وروں ڈاکنز، سیم ہیرس، ڈینیئل ڈینیٹ اور کرسٹوفر ہچنز نے حصہ لیا۔ خوش قسمتی سے اس مذاکرے کی ویڈیو موجود ہے۔ میں نے اس کے دونوں حصے بھی کتابوں کے ساتھ شامل کرلیے ہیں۔
ایک اور خاصے کی شے دا گاڈ ڈلیوژن کی آڈیو بک ہے جو ڈاکنز نے اپنی آواز میں ریکارڈ کروائی ہے۔ ریڈیو میں کام کے تجربے کی بنیاد پر میں بتاسکتا ہوں کہ ڈاکنز نے بہترین صداکاری کی ہے۔ ان کا برٹش لہجہ سن کر لطف آجاتا ہے۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہم تاریخ کے عظیم موڑ پر موجود ہیں۔ انٹرنیٹ اور اسمارٹ ڈیوائسز کی ایجاد، خلا کی وسعتوں پر تحقیق اور میڈیکل سائنس کی شاندار ترقی پر تمام انسانوں کو فخر ہونا چاہیے۔ لیکن پھر جب میں اپنے چاروں طرف مذہبی ذہن پاتا ہوں، شدت پسندی محسوس کرتا ہوں، ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ڈاکنز جیسے کم، بہت کم لوگ دیکھتا ہوں تو حیرت اور افسوس میں مبتلا ہوجاتا ہوں۔ دنیا کو ریشنلزم چلارہا ہے۔ مذاہب کو ایک دن ختم ہونا ہے۔ لیکن اس میں ابھی شاید ایک صدی اور لگے گی۔
گوگل ڈرائیو کے فولڈر کا لنک کتب خانے والے گروپ میں شئیر کردیا ہے۔ اگر اس پیشکش کو دیکھ، سن اور پڑھ کے آپ میں کوئی تبدیلی آئے تو مجھے ضرور بتائیے گا۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ