مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’پانچ سو یا پانچ سو ایک؟||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

اپنی زندگی کے بہت سے واقعات سنائے، آپ کو دیس دیس کی سیر کرائی، کتابوں سے محبت دکھائی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عورت اپنے جسم کی کس طرح حفاظت اور اپنے آپ سے محبت کیسے کرے۔ ہمارا گائنی فیمنزم۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سمجھ نہیں آ رہا کس پہ بے اختیار اچھلیں؟ پانچ سو پہ اچھلیں یا پانچ سو ایک پہ؟ ( گرچہ اچھلنا ہمیں شدید منع ہے کہ پچھلے برس ہی پاؤں کی ہڈی تڑوا کر کچھ سکون سے بیٹھے ہیں )

کسی زمانے میں جب دولہا دلہن کو سلامی دی جاتی تھی تو حساب کتاب کچھ یوں ہوتا تھا۔
ہمسائی انوری خالہ۔ اکیاون روپے
لاہور والی پھوپھی۔ ایک سو ایک
اسلم دوست۔ اکیس روپے
بڑے ماموں۔ پانچ سو ایک

ہم جو دولہا دلہن کے قریب منڈلانا اپنا فرض سمجھتے تھے یہ دیکھ کر سوچتے، یہ ایک روپیہ کیوں ہے ساتھ میں؟ شاید کسی بچے کے لئے۔ دل خوش فہم سرگوشی کرتا اور ہماری امید بندھ جاتی۔

ویسے تو جو بچہ شہ بالا بنا بیٹھا ہوتا اسے بھی سب دو چار روپے تھما رہے ہوتے اور شہ بالا صاحب کی اکڑ پورے عروج پہ ہوتی کہ ساتھ کے بچوں سے آنکھیں ہی نہ ملاتے۔ ایسے موقعوں پہ ہمیں رسم و رواج پہ غصہ بھی آتا اور شکوہ بھی۔ یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ لڑکا ہی کیوں بنے شہ بالا؟ لڑکا ہی کیوں بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے؟ مطلب دولہا دلہن کا ساتھ اور ڈھیر سے روپے۔ آخر شہ بالی کیوں نہیں؟ جائیں ہم نہیں بولتے۔

شہ بالا بنے بچے سے ایک اور طرح سے حسد بھی محسوس ہوتا۔ صوفے پہ بیٹھے دولہا دلہن منظر نگاہ ہوتے، دھڑا دھڑ تصویریں کھنچ رہی ہوتیں اور ساتھ میں شہ بالا صاحب بھی۔ اتنی تصویریں؟ جان جل جاتی۔

ہم جو تصویریں کھنچوانے کے بے انتہا شوقین تھے مگر کیمرہ کہاں تھا گھر میں؟ تصویریں یا شادی بیاہ پہ بنتیں یا عید بقرعید پہ کوئی بہت ہی شوقین ہوتا تو سٹوڈیو چلا جاتا۔ ہمارے اماں ابا اس میں کورے، بس اسٹوڈیو کا رخ تب کرتے جب ضرورت کے تحت پاسپورٹ سائز فوٹو کھنچوانی ہوتی۔

سو کیا کرتے اس موئے شوق کا؟ وہی جو اکثر محلے کے بچے کرتے نظر آتے۔ ہر ایسی جگہ گھسنے کی کوشش جہاں فوٹو گرافر کھڑا ہوتا۔ ہم چونکہ غور و فکر ان دنوں بھی کرتے تھے سو ہر فوٹو میں نظر آنے کی ترکیب پہ عمل پیرا ہوتے۔ فوٹوگرافر پہ نظر رکھتے، جونہی وہ سب سے پوز بنانے کا کہتا، اس کی کلک سے پہلے ہم کہیں نہ کہیں سے اپنا چہرہ روشن اس سین میں گھسا دیتے۔

ہمیں پورا یقین ہے کہ بعد میں لوگ تصویریں دیکھ کر ضرور پوچھتے ہوں گے کون ہے یہ بچی؟ ہر تصویر میں موجود۔ جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا ہو گا کہ ظاہر ہے ہمسائے میں آنے والی بارات میں کس کو خبر کہ دلہن کے گھر سے دو گلیاں دور رہنے والی بچی ہے جو اپنی ماں کے ساتھ آئی تھی اور سارا وقت دلہا دلہن والے صوفے کے گرد منڈلاتی رہی تھی۔

یقین جانیے ہمیں علم نہیں کہ کتنی شادیوں کی بوسیدہ البمز ان تصویروں سے سجی ہوں گی جن میں ایک بچی ہر تصویر میں نظر آنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے دور سے آنے والی بارات کے ساتھ آنے والے فوٹوگرافر یا دولہا میاں تک ہماری پہنچ کہاں کہ تصویریں دیکھنے پہنچتے۔ دل کو یہی سکون کافی تھا کہ کیمرے کے فلیش کی کچھ روشنی ہمارے چہرہ مبارک پر بھی پڑی تھی۔

ہمارے بچے یہ سن کر خوب ہنستے ہوئے کہتے ہیں، اف امی، آپ کتنی زچ کر دینے والی بچی ( irritating girl) تھیں؟

ارے باتوں باتوں میں دیکھیے ہم کہاں نکل گئے۔ بات ہو رہی تھی پانچ سو یا پانچ سو ایک؟ ہمیں پانچ سو ایک کی سمجھ تو کبھی آئی نہیں سو چلیے پانچ سو سے ہی ہی بات شروع کرتے ہیں۔

تو صاحبو سنو، یہ ہماری پانچ سوویں تحریر ہے جو چھپ کر آپ تک پہنچنے والی ہے۔

چار برس، دو مہینے اور تیرہ دن ہوئے، آپ کا اور ہمارا رشتہ بنا اور ہم آپ سے ملے پانچ سو بار! جی ٹھیک سنا آپ نے۔ پ پ پ ا ا ا ان ن ن چچ چ س س س ووو بار!

کون جانتا تھا بھلا اس سے پہلے ہمیں؟ سوائے ہمارے دوستوں اور مریضوں کے جو ہماری بری بھلی سر نہوڑائے سنتے تھے اور ہمیں برداشت کرتے تھے۔ پھر آپ سب مل گئے۔

آپ نے بھی سنیں۔ کبھی ترش، کبھی شیریں، کبھی کڑوی کسیلی، کبھی سرد، کبھی گرم، کبھی آندھی تو کبھی پُروا، کبھی مسکرانے گدگدانے والی، تو کبھی آنکھ میں آنسو بھر دینے والی۔

یہ سب باتیں ہمارے اندر بستی تھیں، ہم سے اپنا دکھ سکھ کہتیں، راز و نیاز کرتیں۔ ہماری راتوں پہ ان کا قبضہ تھا، ہمارے دن ان کی ہمراہی میں گزرتے تھے۔ ہم ہنستے بھی اکٹھے اور روتے بھی۔ پھر ایک دن یونہی نہ جانے کیا جی میں آئی کہ ہم نے ان باتوں اور ان یادوں کو آزاد کر دیا۔

ہم نے سوچا کہ ایک عورت کی زبانی کہتے ہیں ان سب عورتوں کی کہانی جو نہ جانے کہاں کس گوشہ گمنامی میں رہتی ہیں، عمر بھر اک اداس خاموشی میں اور پھر کچھ بھی کہے بغیر چپکے رخصت ہو جاتی ہیں۔ ان چاہی مورتیں۔

تشدد جو عورت کے پیدا ہونے سے پہلے اس کا مقدر بنتا ہے۔ ذہنی، جسمانی، معاشی، معاشرتی۔

عورت پہ حاکم بننے کی اہلیت جو ہر مرد بائی ڈیفالٹ سیکھ لیتا ہے۔ کیسا ہی کمزور، نحیف، بے چارہ مرگھلا، منحنی شخص کیوں نہ ہو، اپنی زندگی میں موجود عورتوں کی زندگی کا مالک وہی۔

ہماری کوشش رہی کہ ہم عورتوں کو اس تشدد کی پہچان کروائیں جو بسا اوقات نظر نہیں آتا مگر گیس لائٹنگ کے ذریعے عورت کو زندہ درگور کر دیتا ہے۔

اپنی زندگی کے بہت سے واقعات سنائے، آپ کو دیس دیس کی سیر کرائی، کتابوں سے محبت دکھائی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عورت اپنے جسم کی کس طرح حفاظت اور اپنے آپ سے محبت کیسے کرے۔ ہمارا گائنی فیمنزم۔

اس راہ میں بہت بُری بھلی سنی، بہت پتھر کھائے، لوگوں نے دنیا سے اٹھ جانے والے عظمت سیدہ اور شوکت کاظمی تک کو معاف نہ کیا۔ لیکن ہم نے بھی ہار نہ مانی۔ کیوں؟

ان سب پتھروں کے بیچ کبھی کبھار کوئی سرگوشی اور کبھی کوئی سسکی، جو کسی جاں بہ لب کی طرف سے ہم تک پہنچتی تھی، وہی تو تھی ہماری امید۔

چار برس۔ میلے میں چلنے والا جھولا، کبھی اوپر کبھی نیچے۔ لیکن ہم نے بہت کچھ جیت لیا۔ ہماری کمائی آپ سب۔

آپ سب اور ہم سب!
یار زندہ صحبت باقی!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: