مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکا میں دو خواتین نے دعویٰ کیا کہ وہ بی بی مریم ہیں۔ ان کا علاج کیا گیا۔ معلوم نہیں کہ یہ اتفاق تھا یا کسی نے جان کر انھیں ایک سینی ٹوریم میں اکٹھا کردیا۔ کچھ عرصے بعد ایک خاتون نے دعویٰ کرنا چھوڑ دیا اور اس کی ذہنی حالت سنبھل گئی۔ بلکہ اسے اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا۔
یہ واقعہ 1954 میں ہارپرز میگزین میں شائع ہوا۔
ایک ماہر نفسیات ملٹن روکیش کو اس تحریر سے ایسا ہی تجربہ کرنے کا خیال آیا۔ اس نے تین ایسے ذہنی مریض ایک جگہ اکٹھے کیے جن کا دعویٰ تھا کہ وہ یسوع یعنی حضرت عیسیٰ ہیں۔
ملٹن نے اس تجربے پر ایک کتاب لکھی جو خاصی مقبول ہوئی۔ اس پر ڈراما بھی کھیلا گیا اور ابھی چند سال پہلے تھری کرائسٹس کے نام سے فلم بھی بنائی گئی۔ اس میں ملٹن کا کردار رچرڈ گئیر نے اور ایک مریض کا کردار گیم آف تھرونز سے شہرت پانے والے پیٹر ڈنکلیج نے ادا کیا ہے۔
تجربے کا کیا نتیجہ نکلا، کوئی مریض صحت یاب ہوا یا نہیں، فلم کو دلچسپ بنانے کے لیے کیا مسالہ ڈالا گیا، یہ آپ گوگل کرلیں بلکہ فلم بھی دیکھ لیں تو اچھا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ آج کوئی شخص اگر ٹیپو سلطان یا رضیہ سلطانہ ہونے کا دعوی کرے تو ہم ہنسیں گے یا اسے اسپتال لے جائیں گے۔ پھر یہ کون لوگ ہیں کہ کوئی کم عقل یا بیمار شخص نبی ہونے کا دعویٰ کرے تو لوگ بھڑک اٹھتے ہیں اور مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں ڈاکٹر نہیں ہوں لیکن کیا پاکستانی معاشرے کو لاحق اس مرض کی تشخیص کروں؟ اس کا علاج بتاؤں؟
اگر بچے جادوئی کہانیاں اور بڑے فکشن نہیں پڑھیں گے، فلمیں نہیں دیکھیں گے تو اسی شدت پسندی میں مبتلا رہیں گے۔ امیجی نیشن کی صلاحیت سے محرومی یا اس سے بچنے کی کوشش انسان کو یک رخا بنادیتی ہے۔
انسان جتنا مذہبی ہوگا، ذہنی مسائل اور شدت پسندی اسی قدر زیادہ ہوگی۔ ذہنی مریض ہمیشہ مذہبی کردار ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے سقراط یا نیوٹن ہونے کا دعوی کیا؟ اور ہمیشہ مذہبی لوگ نبی یا مہدی ہونے کے دعویداروں کو مارنا چاہتے ہیں۔ کیا کبھی کسی ملحد نے کسی دعویدار کو مارا؟
ایک وہ دور جاہلیت تھا جب انسانوں کو راہ راست پر لانے کے لیے مذہب کی تبلیغ ضروری تھی۔ ایک یہ دور جاہلیت ہے جب انسانوں کو راہ راست پر لانے کے لیے مذہب سے دوری ضروری ہے۔
یہ آفاقی سچائی ہے کہ ہر چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے۔ زندگی میں مذہب بس اتنا ہونا چاہیے جتنا آٹے میں نمک۔ زیادہ نمک جسم کے لیے زہر بن جاتا ہے، زیادہ مذہب معاشرے کے لیے۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ