مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کمیلشور کا کردار ” بلقییس ” جہاد النکاح میں زندہ ہوگیا||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہندوستانی ناول نگار کمیلشور نے 90ء کے آخری عشرے میں جب اپنا ناول ” کتنے پاکستان ” لکھا تھا تو اس کو شاید یہ اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ اس کے ناول میں لگی ” ادیب کی عدالت ” میں پیش ہونے والے کئی مقدمات میں سے ہر ایک مقدمہ 21 ویں صدی کے دوسرے عشرے میں ایک مجسم تصویر بنکر پھر سے سامنے آجائے گا اور پڑھنے والا قاری اس کے کینویس کی وسعت اور اس کی دروبینی کی داد دیتا نظر آئے گا
” کتنے پاکستان ” میں 100 نمبر صفحے سے ایک داستان شروع ہوتی ہے جب ” ادیب کی عدالت ” فیض آباد کے ایک گاؤں میں میر باقی تاشقندی کی مسجد اور اس کی قبر کی تلاش میں پہنچتا ہے اور وہاں پر ایک مزار اور مسجد کو دیکھتا ہے ، اس موقعہ پر گاؤں والوں سے ادیب کا بڑا یادگار مکالمہ بھی ہوتا ہے ، ادیب گاؤں والوں سے پوچھتا ہے کہ ” مزار پر یہ چراغ کیسا جلتا ہے ” تو گاؤں والے بتاتے ہیں کہ جب وہ ” ہندؤ تھے تو درخت کے نیچے ” چراغ ” بھگوان کو راضی کرنے کو جلاتے تھے اور اب ” تعزیہ ” اٹھاتے وقت چراغ روشن کرتے ہیں ، ایک مسجد ہے جس میں شیعہ اور سنّی سب ہی نماز پڑھتے ہیں ،
” پہلے ہم پڑھ لیتے ہیں ، فیر سنّی پڑھ لويں ہیں ”
شیعہ ، سنّی میں فرق کیا ہے ؟ ادیب نے پوچھا
کئویں فرق ناہیں سرکار ، جو علی کو جیادہ شدت سے مانے ہیں وے سیّا ( شیعہ ) اور جون سستی سے مانے ہیں وے سنّی
ایک بزرگ نے کہا
یہ مکالمہ ابھی ہورہا تھا کہ ایک بوڑھی عورت چیختی چلاتی آتی ہے اور گاؤں کے مولوی پر برس پڑھتی ہے اور کہتی ہے
بھاڑ مين گئے سیّا اور سنّی ، تم نے مری بچی بلکیس ( بلقیس ) کو مار ڈالا ہے
یہاں سے کمیلشور بلقیس اور ایک کوریائی خاتون کم ہسن کو اپنی عدالت میں بلاتا ہے اور یہ کم ہسن ان عورتوں مين شامل تھی جن کو جاپانیوں نے ” کمفرٹ ویمن فورس ” میں شامل کیا تھا
بلقیس کا کردار ان ہندوستانی مسلمان عورتوں کی نمائندگی کرتا ہے جن کو گلف ریاستوں کے اندر ” شادی ” کے نام پر بیچ دیا جاتا ہے اور ان کا عرب خریدار ان سے تسکین پاتا رہتا ہے اور اس دوران ان کو کس خوفناک جنسی تجربوں سے گزرنا پڑتا ہے ، اس کی ایک جھلک ” کمیلشور ” ہمیں ادیب کی عدالت میں بلقیس کی زبانی سناتا ہے اور کم ہسن بتاتی ہے کہ کیسے ” جاپانی فورسز ” کے بیس ، بیس سپاہی اس سے زیادتی کرتے تھے اور وہ کس عذاب سے گزرتی تھی ، بلقیس کہتی ہے کہ کم ہسن تم تو جنگ کی قیدی بنکر ان تجربات سے گزری مجھے تو ” نکاح ” کے نام پر اس سارے عذاب سے گزرنا پڑا
میں سوچ رہا تھا کہ 2007ء میں کمیلشور کی موت نہ ہوتی تو وہ دیکھ لیتا کہ اس کے کردار کیسے عراق ، شام اور افغانستان کے صوبے قندوز اور ننگرہار میں پھر سے زندہ ہوگئے ہیں
قندوز پر ابھی جب طالبان نے قبضہ کیا تو انہوں نے کوشش کی ” افغان حکومت ” کے ساتھ کام کرنے والی خواتین اور اسکولوں ، کالجز میں ملازم خواتیں پر قبضہ کرلیں اور ان کو زبردستی ریپ کریں اور بطور مال غنمیت اپنے مجاہدین کے حوالے کردیں ، اسی طرح ننگر ہار میں طالبان کا ایک منحرف گروپ جو داعش کے نام سے کام کررہا ہے وہ ایک گاؤں پر قابض ہوا تو اس نے اس گاؤں کی جتنی نوجوان کنواری اور شادی شدہ عورتیں تھیں سب کو اپنے قبضے میں لینے کا اعلان کیا اور یہ بھی کہا کہ جن عورتوں کے نکاح ” افغان حکومت ” کے تحت رجسٹرڈ ہوئے سب کے سب فسخ ہیں اور ان کو داعش کے مجاہدین کی ” ملکیت ” قرار دینے کا اعلآن کیا گیا ، یہ طریقہ داعش نے عراق اور شام میں شروع کیا تھا کہ جن بھی علاقوں کو فتح کیا ان علاقوں کی نوجوان شادی شدہ اور غیر شادی شدہ عورتوں کو داعش کے مجاہدین میں بانٹ ڈالا اور یہ بھی اطلاعات موصول ہوئیں کہ نوجوان لڑکیوں کی بڑی تعداد کو ” لونڈیاں ” قرار دیکر ایک وقت میں کئی ایک داعش کے مجاہدین نے ان سے مباشرت کی اور یہ بھی فتوی سامنے آیا کہ پوری دنیا سے نوجوان عورتیں داعش کے شامی اور عراقی مقبوضہ علاقون میں جنسی تسکین کے لئے بھرتی کرنے کا سلسلہ جاری وساری ہے ، بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق تیونس سے بھی ایسی عورتوں اور لڑکیوں نے شام کا سفر کیا تھا اور ان میں سے اکثر ” حاملہ ” ہوکر واپس آئیں
http://www.bbc.com/urdu/world/2013/09/130920_jihad_al_nikah_rh
جاپانیوں نے دوسری جنگ عظیم میں ” کمفرٹ ویمن فورس ” بنائی تھی جس میں انہوں نے مقبوضہ علاقوں کی عورتوں اور لڑکیوں کو ” جنسی غلام ” بنایا تھا اور جاپانی فوجیوں کے وہ جنسی تسکین کے کام آیا کرتی تھیں اور اس میں جاپانیوں نے پہلے پہل اشتہارات دیکر اور ایک مڈل مین کی وساطت سے ” ویشیاؤں ” کو بھی بھرتی کیا تھا اور اس فورس میں پہلے 20 ہزار ، پھر 40 ہزار اور اس کے بعد یہ تعداد 2 سے 3 لاکھ کے درمیان تک جاپہنچی تھی اور یہ عورتیں جاپانی مقبوضہ علاقوں کوریا ، تائیوان ، ملایا اور برما ، انڈویشیا کی عورتیں شامل تھیں ، اس مظالم کی کہانی کو کئی ایک مصوروں نے نقش بھی کیا تھا ” جان رف کی ایک بنائی ہوئی پوٹریٹ بڑی مشہور ہوئی تھی جو کہ ” او ہرنے ” کی تھی جو کہ اس کے اور اس کی والدہ و بہنوں کے جاپانی فوجوں کے قبضے میں چلے جانے اور ” جنسی زیادتیوں ” کا شکار ہونے سے کچھ دیر پہلے کی تھی

Jan_O'HerneJam- O’-Henre

آج مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ کے اندر جہادی تنظیموں نے ” کمفرٹ ویمن فورس ” ” جہاد النکاح ” کے تصور کے

تحت بنائی ہے اور اس فورس میں عورتوں سے وہی کام لیا جارہا ہے جو جاپانی فوجیں دوسری جنگ عظیم میں لے رہی تھیں

330px-The_Allied_Reoccupation_of_the_Andaman_Islands,_1945_SE5226

جزائر انڈیمان میں ” کمفرٹ ویمن فورس ” سے آزاد کرائی گئی عورتوں کی ایک تصویر

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: