مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چُپ رہنے میں بھلائی||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اصغر ندیم سید کے لکھے خاکوں کی کتاب "پھرتا ہے فلک برسوں”… آغاز کے دو خاکے پڑھے ہیں….. سنگ میل پبلیکیشنز کے مالک نیاز صاحب کا لکھا خاکہ "نیاز… بے نیاز” بہت محنت سے لکھا گیا ہے اور اس میں تاثیر بھی بہت ہے – لیکن "گوپی چند نارنگ” پر لکھا "ہندوستان کا داستان گو” کافی پھیکا، بے رنگ اور رپورتاژ زیادہ لگتا ہے – جلدی میں گھسیٹا گیا خاکہ ہے اور یہ کتاب گوپی چند نارنگ کی وفات کے بعد سامنے آئی تو” شاہ جی ” کو چاہیے تھا کہ وہ اس کی نوک پلک درست کرتے اور اُن کی وفات تک کا احوال درج کرتے –
خود اصغر ندیم سید میں کرداروں کی ڈرامائی تشکیل کی جو صلاحیت ہے وہ اس خاکے کی تشکیل میں اُسے بھی پوری طرح سے بروئے کار نہ لاسکے – میں اگر اس کتاب کا ایڈیٹر ہوتا تو اس خاکے کو اس حالت میں ہرگز اس کتاب کا حصہ نہ بننے دیتا –
اصغر ندیم سید سے کہیں جاندار خاکے تو مبین مرزا نے لکھے ہیں جو "ارژنگ” کے عنوان سے الحمد پبلیکیشنز نے شایع کیے ہیں – موازانہ مقصود نہیں ہے لیکن جب ایک کہنہ مشق ادیب اکتا دینے والی طویل تحریر لکھتا ہے جس سے یہ تاثر ابھرے جیسے صفحات کا پیٹ با امر مجبوری بھرا جارہا ہے جبکہ اُس ادیب کو دلچسپ اور خلاق عبارت لکھنے پر قدرت ہو تو جنھجلاہٹ کا آنا فطری ہے –
اصغر ندیم سید نے ساہیتہ اکادمی کے بارے میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس کے چیئرمین کا عہدہ قطعی سیاسی نہیں ہوتا اور سیاسی اثر و رسوخ سے پاک ہوتا ہے اور انھوں نے گوپی چند نارنگ کے بارے میں یہ دعوی کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ وہ بی جے پی کے حامی نہیں تھے – اور اپنے تئیں سیاسی اثر کے تحت ادبی اداروں کی سربراہی لینے کے عمل کو بُرا گردانا ہے – میں حیران ہوں کہ انھوں نے اپنے آپ کو ادبی گروہ بندی میں "ستی ساوتری” قرار دینے کی کوشش کر ڈالی ہے جبکہ وہ ایسی گروہ بندیوں کا نہ صرف حصہ رہے نہ صرف شہباز شریف اور نواز شریف کی قصیدہ گوئی کی بلکہ اُن کے قصیدہ گو "عطاء الحق قاسمی” کی چاکری تک کی کیونکہ لاہور، اسلام آباد، کراچی اور آگے ملک سے باہر مین سٹریم رہنے کے لیے طاقتور ادبی گروہ بندی سے جڑنا لازم ہوتا ہے وگرنہ خالی تخلیقیت کا حشر تنویر سپرا جیسا ہوتا ہے یا پھر منٹو جیسا…..
کھا ھنڈا کر بھی آدمی سچ نہ بولے تو چُپ رہنے میں بھلائی ہوا کرتی ہے

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: