مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تھیوری کا فریب۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیس تیس سالوں میں بظاہر انسان کتنے بھی بدلے ہوئے لگیں، لیکن بنیادی طور پر ہمارے مسائل معلوم تاریخ کے اولین انسانوں جیسے ہی ہیں۔ مثلاً ہم ٹریفک، شور اور شہری زندگی کی مصروفیات سے گھبراتے ہیں۔ ول ڈیورانٹ نے چھٹی صدی قبل مسیح کے شاہ فارس کوروش کے نام ایک امیر مضافاتی کے خط کا ٹکڑا نقل کیا ہے جو کہتا ہے: ’’اپنی ریاست مجھے دنیا میں مہذب ترین لگتی ہے کیونکہ یہ بابلیہ سے اس قدر نزدیک ہے کہ ہم عظیم شہر کے تمام فائدے اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود گھر واپس نہیں آ سکتا اور اس کے ہجوم اور پریشانی سے دور رہتا ہوں۔‘‘
اب ہوا صرف یہ ہے کہ ہم نے اصطلاحات میں سوچنا شروع کر دیا ہے: پرسنل سپیس، پرائیویسی وغیرہ۔ یہی ہماری تنقید کا بھی حال ہے۔ پوسٹ اور میٹا، نیو وغیرہ لگا کر ہم صرف اپنے آپ کو تھوڑا نیا ہی ثابت کرتے ہیں۔ ورنہ قدیم مصر کی نظمیں بھی ہمارے آج کے اخباری کالموں سے مختلف نہیں۔
شاید ہمیں اصطلاح پہلے مل جاتی ہے، اور سوچنا اُس کے بعد شروع کرتے ہیں کہ ہاں ایسے ہونا چاہیے۔ محبت، فیاضی، رحم، حقوق وغیرہ اسی زمرے میں آتے ہیں۔ اگر آپ کو پتا ہی نہ ہو کہ ووٹ ڈالنا یا صاف فضا میں سانس لینا آپ کا ’’حق‘‘ ہے تو پھر آپ کو اُس حق کے چھن جانے احساس بھی نہ ہو گا۔
اُردو تنقید پانڈا آئس کریم جیسی ہے۔ نہ آپ نے کبھی پانڈا خود دیکھا ہے، نہ آپ کو اُس کی اہمیت کا علم ہے، بس ایک آئس کریم کمپنی نے اُس شکل کی آئس کریم بنا دی تو آپ کو یکایک اُس کا ’شوق‘ پیدا ہو گیا۔ حالانکہ آپ کو اور ہمیں تو آئس کریم کھانے کا طریقہ اُتنا ہی معلوم ہے جتنا پیزا کا۔
اردو تنقیدیوں نے سنا کہ پوسٹ ماڈرن نامی کوئی چیز پائی جاتی، فارمل ازم کوئی چیز ہے، فینامینالوجی اور سیمیات وغیرہ بھی کچھ ہوتا ہے، تو بس اُنھیں یکایک شوق ہو گیا۔ اِس ساری کھیل بازی کے باوجود آپ رامائن کو اور کسی جدید تحریر کو ایک جیسے جمالیاتی نقطۂ نظر سے دیکھنے سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ حتیٰ کہ بطور مثال فرنچ اور انگلش مصنفین کی استعمال کردہ مثالیں بھی جوں کی توں اُٹھا لیتے ہیں۔ کم ازکم گائے والی مثال ہی چھوڑ دو۔
اطلاعاً عرض ہے کہ ہم ابھی جدیدیت میں بھی داخل نہیں ہوئے، کیونکہ وہ انڈسٹریلائزیشن اور میکنائزیشن کے ہمراہ آتی ہے۔ اور ہم پوسٹ ماڈرن ازم یا بعد از جدیدیت کو روتے پھر رہے ہیں۔ آپ تو اب بھی گاڑی کے پیچھے جوتی لگاتے ہیں، گاؤں میں بڑا گھر بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو اوپر کالی ہانڈی لگا دیتے ہیں، ڈائیوو بس کی ایئر ہوسٹس دعا پڑھتی ہے۔
کیا ہمارے ادب کی موجودہ حالت کا ذمہ دار ہمارا موقع پرست نقاد نہیں؟ نقاد ہی تو آرٹ کو آرٹ بناتا ہے، اور اسی عمل میں تھیوری کی بنیاد رکھتا ہے، نہ کہ اس کے برعکس۔ ہم تھیوری لے کر اُس میں آرٹ اور ادب ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: