مئی 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’اپنے جسم کے متعلق جانیے اور ڈاکٹر کو حیران کر دیجیے‘!!!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

اس کیس میں کئی اشارے تھے جن سے واضح تھا کہ دوا کام کر رہی ہے مگر بچے دانی مزاحمت کر رہی ہے۔ خطرے کا ایک اور سگنل یہ بھی تھا کہ پچھلی زچگی میں بھی بچے دانی کا منہ 10 سینٹی میٹر نہیں کھل سکا تھا اور بچہ سیزیرین سے پیدا ہوا تھا۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹرن ٹرن ٹرن۔ رات کے دو بجے، خاموشی، نیند اور آن کال ڈیوٹی۔
فون کے دوسری طرف ہماری ٹیم کی ایک سینیئر ڈاکٹر۔
’جی آپ کو ایک بری خبر سنانی تھی‘ ۔
اللہ خیر۔ دل بیٹھ گیا۔

ایسے بہت سے واقعات ہم لکھتے ہیں جن میں ڈاکٹرز کی محنت، لگن اور کوشش قارئین کے سامنے لائی جاتی ہے۔ لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہوتا ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بھی دکھایا جائے۔ ایسی ہی ایک صورتحال کا سامنا تھا ہمیں جب ہم نے اپنی ٹیم ممبر کا فون رات کے دو بجے سنا۔

’کیا ہوا‘ ؟ ہم نے پوچھا۔

’کمرہ نمبر 5 کی مریضہ کی سی ٹی جی خراب ہوئی، سیزیرین کیا لیکن بچے دانی پھٹی ہوئی ملی۔ بچہ بھی اچھی حالت میں نہیں‘ ۔

’اوہ۔ بہت برا ہوا۔ کون سی مریضہ تھی یہ‘ ؟

’دوسرا بچہ تھا یہ۔ پہلا بچہ آپریشن سے پیدا ہوا تھا اب وہ نارمل پیدا کرنا چاہتی تھی۔ شوگر کی مریضہ ہونے کی وجہ سے انسولین پر تھی سو اٹھتیس ہفتے پر مصنوعی درد شروع کرنے کے لیے سروائیکل بیلون (cervical baloon) ڈالا گیا تھا۔ بیلون کے ساتھ بچے دانی کا منہ 4 سینٹی میٹر کھل گیا تھا‘ ۔

اس کیس میں دوا کام کر رہی تھی لیکن بچہ دانی مزاحمت کر رہی تھی
’ایسا تو صبح میں تھا جب ہم نے راؤنڈ کیا تھا۔ اس کے بعد‘ ؟ ہم نے پوچھا۔

’جی لیکن اس کے بعد درد شروع نہیں ہوا چنانچہ ہم نے سنٹو ڈرپ شروع کی۔ کافی دیر ڈرپ چلنے کے بعد درد شروع ہوئے۔ آغاز میں درد تیز نہیں تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ بہتر ہو گئے‘ ۔

’سی ٹی جی کیسی تھی‘ ؟
’سی ٹی جی پہلے تو بہت اچھی تھی بس آخر میں جاکر بچے کے دل کی دھڑکن خراب ہوئی‘ ۔
’آخری مرحلے سے پہلے سی ٹی جی کیسی تھی‘ ؟
’جی وہ نہ بہت اچھی، نہ بہت بری‘ ۔
’کیا مطلب‘ ؟
’جی کچھ واضح نہیں تھی۔‘
’واضح نہ ہونے پر آپ نے کیا کیا‘ ؟
’جی ہم لوگوں نے سوچا کہ کچھ اور انتظار کر لیا جائے‘ ۔
’کیوں‘ ؟
’کئی ایسے کیس دیکھے ہیں جن میں سی ٹی جی ایسی ہی ہوتی ہے لیکن بچہ بالکل ٹھیک پیدا ہوتا ہے‘ ۔
’کیا بچے دانی کا منہ نارمل رفتار سے کھلا‘ ؟
’نہیں، رفتار کم تھی‘ ۔
’درد تیز کرنے والی ڈرپ کے باوجود‘ ؟
’جی ہاں‘ ۔
’آپ کی کیا اسیسمنٹ تھی‘ ؟

’ہمیں لگا کہ شاید سنٹو کی مقدار کم ہے اس لیے اچھے درد نہیں آرہے اور بچے دانی کا منہ تیزی سے نہیں کھل رہا‘ ۔

’آپ نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ ہو سکتا ہے سنٹو کی مقدار ٹھیک ہو مگر بچے دانی کے منہ کھلنے کی آہستہ رفتار اشارہ دے رہی ہے کہ کہیں کچھ غلط ہے‘ ؟

’یہ خیال نہیں آیا۔‘
’کیا بچے کے سر پر سوجن تھی جب آپ نے چیک کیا‘ ؟
’جی ہاں‘ ؟
’کیا آپ نے اس کی گریڈنگ کی تھی‘ ؟
’جی ہاں، پہلے گریڈ ون تھی، آخر میں جا کر گریڈ تھری ہوئی‘ ۔
’کیا بچے کا پاخانہ پہلے سے خارج ہوا‘ ؟
’ویجائنا کے راستے تو پتا نہیں چلا لیکن جب سیزیرین کیا تو بچہ پاخانہ کرچکا تھا‘ ۔
’بچہ دانی کہاں سے پھٹی ہوئی ملی‘ ؟
’پچھلے سیزیرین کا کٹ پورا کھل چکا تھا اور بچے کا کندھا نظر آ رہا تھا‘ ۔
’پچھلا سیزیرین کیوں ہوا تھا‘ ؟
’اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ بچے دانی کا منہ 7 سینٹی میٹر سے زیادہ نہیں کھل سکا تھا‘ ۔
’کیا اس زچگی میں وہی وجہ دوبارہ سے ہو سکتی ہے‘ ؟
’ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی‘ ۔

یہ کیس اور سوال و جواب سنانے کا ایک مقصد ہے۔ وہ یہ کہ نہ ڈاکٹر ایک جیسے ہوسکتے ہیں اور نہ انہیں پیش آنے والی صورتحال۔ یہ کیس اس بات کو واضح کرتا ہے کہ تقریباً ہر ڈاکٹر مریض کے متعلق مختلف اندازہ لگا کر فیصلہ کرتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے سڑک پر گاڑی چلانے والے ہر ڈرائیور کا حساب کتاب اپنا اپنا۔ کچھ کا اندازہ انہیں اچھا ڈرائیور بناتا ہے اور کچھ کا برا۔

نہ ڈاکٹر ایک جیسے ہوسکتے ہیں اور نہ انہیں پیش آنے والی صورتحال

ڈاکٹر کی ٹریننگ، قابلیت، سوچنے کا انداز، خطرے کا حساب کتاب، مریض سے ہمدردی اور اپنے پیشے سے محبت فیصلہ کرتے ہیں کہ مریض ٹھیک ہو گا کہ نہیں؟

اس کیس میں کئی اشارے تھے جن سے واضح تھا کہ دوا کام کر رہی ہے مگر بچے دانی مزاحمت کر رہی ہے۔ خطرے کا ایک اور سگنل یہ بھی تھا کہ پچھلی زچگی میں بھی بچے دانی کا منہ 10 سینٹی میٹر نہیں کھل سکا تھا اور بچہ سیزیرین سے پیدا ہوا تھا۔

پچھلے آپریشن کی موجودگی میں مصنوعی درد شروع کروانے والی سب دو اؤں کو بہت احتیاط سے استعمال کروانا چاہیے اور لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی صورت حال کو خطرے کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ جسم ہمیشہ خطرے کا اشارہ دیتا ہے۔ ان اشاروں کو نظر انداز کرنا یا ان اشاروں کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہی کسی ڈاکٹر کو کامیاب بنا سکتا ہے۔

جسم کے اشاروں کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہی کسی ڈاکٹر کو کامیاب بنا سکتا ہے

آپ کے لیے حل ایک ہی ہے۔ اپنے جسم کے متعلق جانیے اور ڈاکٹر کو حیران کر دیجیے جیسے ہماری صاحبزادی نے نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر کو کیا۔ سوالات کے تابڑ توڑ حملے کے بعد کہنے لگا، تم بہت سے ڈاکٹرز سے زیادہ جانتی ہو۔

آپ ڈاکٹر نہیں ہیں، غم نہیں لیکن اگر 21 ویں صدی میں رہ کر سیکھ نہ سکیں تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: