مئی 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’چار یاری کٹھ‘‘ مرشد بلھے شاہؒ کے حضور ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ’’چار یاری کٹھ‘‘ اصل میں ہم خیال دوستوں کا سٹڈی سرکل ہی سمجھ لیجئے۔ اس میں سارے طالب علم ہیں اور سارے ہی استادان گرامی بھی ۔ فقیر راحموں کا البتہ خیال مختلف ہے وہ کہتا ہے کہ ’’چار یاری کٹھ‘‘ میں ایک سُچل ملحد ہے۔ دو نیم ملحد اور چوتھا زیرتربیت ملحد ہے۔
اس کے اس فرمان عالی شان کی وجہ تو معلوم نہیں نہ اس کی چوتھے رکن سے کوئی لگتی پھبتی ہے پتہ نہیں کیوں اچھے بھلے سید زادے کو جو اپنے علمی موضوع پر کمال کی گرفت رکھتا ہے شہادت کا رتبہ دلوانے پر تلا ہوا ہے۔
ویسے فیس بک کے سیانے کہتے ہیں سید پورا ملحد ہو نیم یا زیرتربیت ملحد، ہوتا سید ہی ہے۔ اس چکر میں وہ یہ سیانے بہت ساری ’’روشن مثالیں‘‘ ڈھونڈ ڈھانڈ کر لے آتے ہیں۔ خیر ہماری رائے یہ ہے کہ سیدی زوہیب حسن بخاری کو فقیر راحموں کی منت ترلے کے ساتھ کوئی خدمت ومدت بھی کرنی چاہیے۔
کسی دن اسے بھی کوئٹہ ہوٹل کی چائے پیلانے لے جائیں تھوڑی سی آوارہ گردی کرائیں امید ہے کہ وہ رائے بدل لے گا کیونکہ یہ تو ہم ایسے طالب علم پر بھی کبھی کبھار پھبتی کستا ہے ’’یار شاہ تم دین بیزار ہوتے جارہے ہو‘‘۔
خود اس کی حالت یہ ہے کہ چند دن ادھر ’’چار یاری کٹھ‘‘ کی سنگت میں مرشد کریم سیدی بلھے شاہؒ کی خانقاہ پر حاضری کے لئے گیا تو مرشد سے پوچھنے لگا، "حضور زندگی میں آپ پر کفر ک فتویٰ دینے والوں نے آپ کی خانقاہ کے پہلو میں مسجد کیوں کھڑی کردی؟”
مرشد مسکراتے ہوئے بولے، "آدمی اپنا رزق کبھی فتوے میں پاتا ہے کبھی مسجد سے”۔ مرشد کی بات سن کر فقیر راحموں نے مسکراتے ہوئے ہماری طرف دیکھا اور گویا ہوا سن لو مرشد کیا کہہ رہے ہیں۔
اس پر مرشد ایک بار پھر گویا ہوئے، بولے، فقیر راحموں، "یہ جو ہمارے چاراور بستے لوگ ہیں ان کے پُرکھے بھلے ہی زندگی میں میرے بارے میں کچھ بھی کہتے اچھالتے رہے لیکن اب یہ لوگوں کو باور کراتے پھرتے ہیں کہ بلھے شاہؒ تو بڑا "کرنیوں والا پیر ہے” اس کی چوکھٹ سے کوئی خالی نہیں جاتا۔ اس دعوے میں بھی ان کا مفاد اور رزق بندھا ہوا ہے”۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ہمارے ذہن میں سیدی جون ایلیا مرحوم کے ایک شعر کے مصرعہ نے دستک دی
’’غضب خدا کا ہم اپنے امام کے بھی نہ رہیں‘‘۔
یہ دستک ختم ہوئی تو ایسا لگا کہ مرشد کریم بلھے شاہؒ کہہ رہے ہیں
’’جو اُس سے بچھڑے خود سے بچھڑتا ہے۔ لوگوں کو ملاقات کا سلیقہ اور نیاز مندی کے ڈھنگ نہیں آتے بس کھوکھلے دعوے ہیں اور ریاکاری، ان کا حال یہ ہے کہ فرض عبادات بھی سودے (تجارت) کی نیت سے ادا کرتے ہیں ادھر سر سجدہ سے اٹھا ادھر محنتانہ طلب‘‘۔
’’چار یاری کٹھ‘‘ کافی عرصہ سے مرشد کریم سیدی عبداللہ شاہ المعروف بابا بلھے شاہؒ کی خانقاہ جانے کا قصد کررہا تھا ابھی گزشتہ سے پیوستہ ہفتے پروگرام 90فیصد مکمل ہوکر ملتوی ہوگیا۔
وجہ ہمارے ایک دوست اور کٹھ کے فعال رکن رانا شرافت علی ناصر کی عدم دستیابی تھی۔ اپنے سُچل ملحد رائو عابد تو ہمہ وقت دستیاب رہتے ہیں جیسے صرف آواز کے منتظر ہوں۔ بہرحال ایک ہفتہ کے وقفے سے پروگرام بن ہی گیا۔ رانا شرافت علی ناصر، رائو عابد اور ہم سیدی زوہیب حسن بخاری کی گاڑی اور فقیر راحموں کی قیادت میں قصور کے لئے روانہ ہوگئے۔
روانگی کے اعلان کے کچھ دیر بعد استاد مکرم اور مرشد بابا بھلے شاہؒ کے عاشق صادق استاد محترم اکرم شیخ نے ٹیلفیون پر پروگرام پوچھا پھر تسلی دی کہ کوشش کرتا ہوں میں بھی پہنچ جائوں۔ استاد محترم اگر آجاتے تو مرشد سے ملاقات کا رنگ ہی اور ہوتا۔
ہم تو مرشد کے نیاز مندوں میں سے ہیں فقیر راحموں ان کا لاڈلہ ہے لیکن استاد ان کے عاشق صادق ہیں عاشق و محبوب کی ملاقات کے رنگ ڈھنگ اور ہوتے ہیں باتیں بھی اور طرح کی۔ حسب دستور مرشد کی چوکھٹ کو بوسہ دیتے ہوئے فقیر راحموں بولا، مرشد جی اس بار تاخیر سے آمد کا ذمہ دار یہ شاہ ہے میں نے کئی بار اسے کہا چلو ویگن پر چلے چلتے ہیں۔ ایک عرضی ہم نے بھی مرشد کے حضور پیش کی۔
ایسا لگا مرشد کہہ رہے تھے، "جب آنکھیں بند کرکے ملاقات ہوجاتی ہے ہو سفر کی زحمت سے بچ رہنا اچھا ہوتا ہے”۔ عرض کیا مرشد ایسا نہیں ہے آپ تو جانتے ہیں یہ لاٹھی ٹیک کر چلتے کتنی اذیت ہوتی ہے پھر روزی روٹی کے وسیلے ہیں حیلہ کریں گے تو چولہا جلے گا۔
مرشد مسکرائے اور بولے ’’اسے بھی وہی پسند ہیں جو ہاتھ پائوں چلاتے رہیں آدمی اپنے حصے کا اپنی محنت سے پاتا ہے محنت کے بغیر تو کچھ بھی نہیں‘‘۔
عرض کیا مرشد جو ہے ایسا ہی رہے گا؟ ارشاد ہوا ’’جو ہوتا ہے وہ رہتا نہیں ہے دوسرا سانس پہلے کی جگہ لیتا ہے صرف موسم پلٹتے ہیں، سانس اور آدمی نہیں‘‘۔
مرشد یہ موسم کب تک پلٹیں گے؟ جواب ملا "یہ تو یار جانے اور اس کے موسم جو یار کی نگری میں بستے لوگوں کو سردوگرم بہار و خزاں سے آشنا کرتے رہتے ہیں”۔
لمحہ بھر کا وقفہ ہوا، میں نے خانقاہ کے اندر موجود لوگوں کی طرف دیکھا۔ دعائیں، مناجات، تلاوت کرتے لوگ تھے۔ ان لمحوں میں میں نے مرشد سے پوچھا، مرشد یہ آپ کے یہاں بھی صنفی امتیاز ہے ایسا کیوں؟
رسان سے بولے
"یہ بھی ان کاروباری لوگوں سے پوچھو جن کے خیال میں عورت پائوں کی جوتی، کمزور، ناقص العقل ہے۔ حالانکہ یہی صنف نہ ہو تو نسل انسانی آگے بڑھانے کا کوئی اور طریقہ ان کے پاس بھی نہیں”۔
عرض کیا مرشد یہاں سائنس ترقی کررہی ہے مختلف مداروں سے ہوتی ہوئی نئے جہاں تلاش کرتی زندگی پر حملہ آور بیماریوں کو دیوار سے لگاتی سائنس زندگی کے ماہ و سال میں وسعت پر قدرت پانے جارہی ہے۔
مرشد بولے، "ارتقا کے راستے میں آنے والے ڈھیر ہوتے ہیں ارتقا ہوکر رہتا ہے۔ ارتقا سے انحراف یا انکار کا مطلب عقل کے وجود سے انکار ہے۔ حالانکہ درست اور غلط سمت قدم اٹھانے میں آنکھوں سے زیادہ عقل کی رہنمائی کا تعلق ہے۔
آدمی اپنے حصے کی قدرت پانے کے لئے جتن سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔ جستجو نعمت ہے، جب کبھی جس نے جہاں بھی جستجو کے راستے میں دیوار اٹھائی وقت نے دیکھا کہ وہ اسی دیوار کے ملبے تلے دفن ہوئے”۔
مرشد کی بات ختم ہوئی تو میں نے پھر عرض کیا، یہ جو منصور نے کہا ہے ’’ہم ہی ہم ہیں تم کہاں بس ہم ہیں‘‘ اس کا کیا مطلب ہوا؟
مرشد بولے، "میرے بچے آدمی اس کے ہونے کی گواہی ہے زندہ گواہی وہی تو ہے چار اور۔ تمہارے وسیبی شاعر خواجہ غلام فرید نے بھی تو کہا تھا نا ’’حسن یار کا جلوہ ہے ہر سو‘‘۔ یہ حسن یار آدمی ہی ہے۔ آدمی جب خود کو دریافت کرلیتا ہے تو تو پھر حلاج کی طرح کہتا ہے ’’ہم ہی ہم ہیں تم کہاں ہو بس ہم ہیں‘‘ ” یہ اقرار کا نغمہ ہے سرشاری کے بغیر نہیں الاپا جاسکتا اسے۔ مسئلہ تب بنتا ہے کہ جو لوگ اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی سعی نہیں کرپاتے وہ سرشاری کے عالم میں الاپے گئے اقرار کے نغمے میں کفرو الحاد تلاش کرتے ہیں یا پھر فتویٰ ٹھوک مارتے ہیں۔
یہ کج فہم تخلیق کا حقیقی سبب ہی نہیں سمجھ پاتے کوہلو کے بیل کی طرح زندگی کے چکروں کو زندگی سمجھتے ہیں‘‘۔
عرض کیا مرشد بوقت بوسہ ایک عرض پیش کی تھی؟
مرشد مسکرائے اور بولے، "زندگی کے امتحانی پرچہ میں لکھے سوالوں کا جواب واجب ہے۔ کوئی مشکل مشکل نہیں ہوتی اگر اسے مشکل سجھ نہ لیا جائے”
دنیا کے درمیان رہو چھینٹوں سے دامن بچاکر رکھی جانے والی بے نیازی سُدھ بُدھ عطا کرتی ہے
آدمی بس جمال یار کے دیدار کا شائق ہوتا ہے حسن ازل ہی پیغام ابد ہے یہی یار کی منشا ہے‘‘۔
اس مرحلہ پر فقیر راحموں نے کہا، مرشد، محنت کا پورا ثمر نہ ملے تو دکھ تو ہوتا ہے۔
جواب ملا، "محنت اظہار کے لئے کی جاتی ہے ثمر ثانوی چیز ہے۔ زندگی کا بھرم ٹھونس کے کھانے میں نہیں بلکہ زندگی کا بھرم جمع کی بیماری سے محفوظ رہنے میں ہے
آدمی تو اظہار کی زندہ علامت ہے”۔
مرشد نے آقائے سید ابوالحسن امام علی حسین علی طالبؑ کا ارشاد یاد دلایا آقا فرماتے ہیں
’’سچ وہی ہے جو اپنے وقت پر بولا جائے‘‘۔
پھر مرشد گویا ہوئے، "اپنے حصہ کے سچ سے کبھی دستبردار نہ ہونا جس دن اپنے حصے کے سچ سے دستبردار ہوگے اظہار ذات کا حق جاتا رہے گا۔
تمہارا کام صرف آگہی کے چراغ روشن رکھنا ہے بس یہ چراغ نہ بجھنے پائے”۔
مرشد سے رخصت کی اجازت چاہی تو بولے،
"خواہشوں کے سامنے سپر ڈالنے کی بجائے ایثار کے جذبے کو پروان چڑھائے رکھنا یہی تعارفِ یار کی ایک صورت ہے "۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: