مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مسلح افواج کے نئے سربراہ کی تقرری ||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسلح افواج کے نئے سربراہ کی تقرری ون ملین سوال بن گیا – لندن میں مسلم لیگ نواز کے سربراہ، وزیراعظم شہباز شریف اور تاحیات قائد نے سر جوڑ لیے، شہباز شریف پر بعض حلقوں کی طرف سے نئے آرمی چیف کی تقرری پر اپوزیشن سے مشاورت کیلئے دباؤ کا دعویٰ، دباؤ ڈالنے والے حلقے کون سے ہیں؟ عمران خان کے پاس اپنے مطالبات منوانے کے لیے کون سے کارڈ باقی رہ گئے ہیں؟ کیا مصطفیٰ نواز کھوکھر کا استعفا پیپلزپارٹی کی قیادت نے مانگا؟ کیا استعفے کے پیچھے اسٹبلشمنٹ کا دباؤ ہے یا معاملہ کچھ اور ہے؟ نواز شریف کو سفارتی پاسپورٹ جاری، کیا وہ دسمبر میں واپس آئیں گے؟
جنرل قمر پرویز باوجوہ جو 26 نومبر کو ریٹائر ہورہے ہیں، آج کل مسلح افواج کی فارمیشنز کے الوداعی دورے کررہے ہیں – ان کے ان دوروں کو پی ٹی آئی کے حامی سوشل میڈیا کی طرف سے ڈمیج کنٹرول کی کوشش قرار دیا جارہا ہے- جب سے عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کے دوران اُن پر ہوئے مبینہ قاتلانہ حملے میں تین اعلیٰ سطحی سرکاری شخصیات کو ملوث قرار دیا ہے تب سے پاکستان کی مسلح افواج اور آئی ایس آئی دفاعی پوزیشن کی حامل نظر آرہی ہیں اور وہ ہر طرح سے کوشش کررہی ہیں کہ اُن کو سیاسی جوار بھاٹے سے الگ رکھا جائے – جنرل باوجوہ پہلے آرمی چیف ہیں جنھوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب آنے پر مسلح افواج کی فارمیشنز کے الوداعی دورے شروع کیے ہیں، اس لیے ان کے ان دوروں پر قیاس آرائیوں نے جنم لیا ہے –
عمران خان نے اپنے اوپر مبینہ قاتلانہ حملے کے بعد شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال میں پریس کانفرنس کے دوران یہ دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور آئی ایس آئی میں ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر اُن کو قتل کرانے کی سازش کے مرکزی کردار ہیں اور انھیں بلاسفیمی کا مرتکب بتاکر ویسے ہی قتل کرانے کی کوشش کی گئی ہے جیسے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر پر بلاسفیمی کا الزام لگاکر انھیں قتل کرایا گیا تھا-
مسلح افواج کے ترجمان نے اس پریس کانفرنس کے فوری بعد ردعمل میں ایک پریس ریلیز جاری کی تھی جس میں ان الزامات کی سختی سے تردید کی گئی تھی – آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت پاک فوج کو بدنام کرنے کی اس مہم کا نوٹس لے اور کاروائی کرے – گویا اس پریس ریلیز میں مسلح افواج کی طرف سے عمران خان اور دیگر رہنماؤں کے خلاف انتہائی اقدام یعنی پی ٹی آئی پر پابندی اور قیادت کے خلاف بغاوت و انتشار پھیلانے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کی درخواست کی گئی تھی – اس پریس ریلیز کے جواب میں وزیراعظم میاں شہباز شریف نے قوم سے باقاعدہ خطاب کیا لیکن انھوں نے عمران خان کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کی بجائے گیند سپریم کورٹ بار میں پھینک دی اور اُس سے کہا کہ وہ اس سارے معاملے کا نوٹس لے اور اپنا فیصلہ سُنائے – وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی اس تجویز کا حیرت انگیز طور پر عمران خان نے خیرمقدم کیا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نہ صرف اُن پر قاتلانہ حملے کی سازش کی تحقیق کرے بلکہ صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات بھی کرے – صحافی ارشد شریف کی نامکمل پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اُن کے قتل سے پہلے اُن کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے – اس سے معاملے نے نیا رُخ اختیار کرلیا ہے – حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے –
پاکستان تحریک انصاف حکومت سے جانے کے بعد سے مسلسل الزام لگارہی ہے کہ اُن کی حکومت کو ختم کرنے میں فوج کے سربراہ جنرل باوجوہ اور آئی ایس آئی کے موجودہ چیف کا ہاتھ ہے – جون 2022 میں پنجاب میں ضمنی انتخابات کے دوران عمران خان نے اسٹبلشمنٹ کی اُن کے خلاف کاروائیوں میں فوج کے سربراہ، ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ آئی ایس آئی کے دو نئے افسران کو سرگرم قرار دیا جنھیں وہ پہلے مسٹر ایکس و مسٹر وائے کا نام دیتے رہے اور بعد ازاں اُن کو فہیم اور راشد کے ناموں سے پکارا – لانگ مارچ کے دوران عمران خان نے آئی ایس آئی کے ڈی جی کمیونیکشن میجر جنرل فیصل نصیر کا نام سامنے لائے- ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر میجر جنرل سرفراز کی کوئٹہ میں ہیلی کاپٹر حادثے میں موت کے دس دن بعد ڈی جی سی آئی ایس آئی مقرر کیے گئے تھے- جبکہ میجر جنرل سرفراز کی موت بارے سوشل میڈیا پر کافی سازشی تھیوریوں کو پھیلایا گیا تھا جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ پروپیگنڈا پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے پھیلایا تھا- وفاقی حکومت نے ایف آئی اے کو ایسا پروپیگنڈا کرنے والوں کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کیا تھا- اس سلسلے میں ایف آئی اے نے کافی گرفتاریاں بھی کی تھیں –
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے فوجی اسٹبلشمنٹ کی موجودہ قیادت کے خلاف جو مہم شروع کی، اسے غیر موثر بنانے کا سوال اسٹبلشمنٹ کے سامنے ابھی تک کھڑا ہے- مسلح افواج کے ترجمان اور ڈی جی آئی ایس آئی نے مل کر اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں پہلی بار عمران خان پر سخت الزامات لگائے گئے تھے اور یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ عمران خان انھیں تحریک عدم اعتماد کے وقت سے غیر جانبدار رہنے کے فیصلے سے دست بردار کرانا چاہتے تھے اور فوج و آئی ایس آئی کو اپوزیشن کی ساری قیادت کو جیل میں ڈالنے کو کہہ رہے تھے – گویا فوجی اسٹبلشمنٹ نے موجودہ وفاقی حکومت کے اس الزام کی تصدیق کی تھی کہ عمران خان اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے خلاف جو بیانات دے رہے ہیں وہ غلط ہیں جبکہ وہ فوجی اسٹبلشمنٹ سے سیاست میں عمران کے حق میں جانے والی مداخلت کا مطالبہ کررہے ہیں اور جب فوج و ایجنسیوں کی قیادت نے اُن کا کہا نہ مانا تو تب وہ مسلح افواج کے افسران کی کردار کُشی اور انھیں بلیک میل کرنے لگے ہیں –
عمران خان اور اُن کی جماعت کی جانب سے مسلح افواج اور آئی ایس آئی کے سربراہوں کے خلاف ریڈیکل مہم نہ صرف فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک سنگین چیلنج بنا ہوا ہے بلکہ وفاقی حکومت بھی اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے میں کافی مشکلات کا سامنا کررہی ہے –
مسلم لیگ نواز کی سوشل میڈیا ٹیم، اس کی طرف جھکاؤ رکھنے والے تجزیہ کار یہ تاثر دے رہے ہیں جیسے عمران خان اور اُن کی جماعت کی طرف سے فوجی اسٹبلشمنٹ کے خلاف چلائی جانے والی جارحانہ مہم بیک فائر کررہی ہے – اس حوالے سے سوشل میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف کے ایک جعلی لیٹر پیڈ پر عمران خان سے منسوب ایک اعلامیہ بھی خوب پھیلایا گیا جس میں تحریک انصاف اور اس کی زیلی تنظیموں کو چیف آف آرمی اسٹاف، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی سی آئی َایس آئی کے خلاف بیان بازی فوری بند کرنے کی ہدائت کی گئی تھی – وفاقی حکومت کے حامیوں کی طرف سے یہ بھی تاثر دیا جارہا تھا جیسے عمران خان اپنے اوپر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر میں تین اعلیٰ سطحی شخصیات کے نام دینا نہیں چاہتے ہیں اور وہ اسے محض سیاسی سٹنٹ کے طور پر استعمال کرتے رہیں گے لیکن پی ٹی آئی نے ایک طرف تو پنجاب پولیس کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے خلاف سیشن کورٹ سے رجوع کرلیا ہے اور عمران خان پر قاتلانہ حملے میں پی ٹی آئی کی مدعیت میں ایف آئی آر کے اندراج کی درخواست کی ہے جس میں وزیراعظم، وفاقی وزیر داخلہ اور میجر جنرل فیصل نصیر کے نام شامل کرنے کی استدعا کی ہے جبکہ پی ٹی آئی کے مرکزی چیئرمین عمران خان نے چیف جسٹس سپریم کورٹ عطا بندیال سے درخواست کی ہے وہ اُن پر حملے کی جانچ میں میجر جنرل فیصل نصیر کے کردار کی بھی تفتیش کرے – اس پیش رفت سے صاف نظر آرہا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے فوجی اسٹبلشمنٹ کے جن کرداروں کو اپنے سیاسی بیانیہ میں بطور ولن کے رکھا وہ انھیں اپنے بیانیے سے خارج کرنے پر تیار نہیں ہیں اور اسی راستے پر اپنے حامیوں کو چلانا چاہتے ہیں – شہباز گِل کیس، ارشد شریف قتل کیس، اعظم ہوتی تشدد کیس، ویڈیو لیکس اور عمران خان قاتلانہ حملہ کیس یہ چار بڑے کیس ہیں جن کو لیکر پاکستان تحریک انصاف اور اس کے سربراہ کی طرف سے فوجی اسٹبلشمنٹ کی موجودہ قیادت کے خلاف ایک مضبوط اور موثر بیانیہ کی تشکیل میں مدد دینے والے ثابت ہوئے ہیں – ان چاروں واقعات نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے –
نواز شریف کا حامی سمجھا جانے والا مین سٹریم میڈیا کا ایک سیکشن اس ساری صورت حال میں ایک طرف تو نواز شریف کو غیر لچک دار پوزیشن کا حامل بتارہا ہے- جنگ/نیوز /جیو اور ڈان میڈیا گروپ میں موجود بڑے اینکرز، رپورٹر اور تجزیہ نگاروں کے شایع ہونے اور نشر ہونے والے تجزیوں میں یہ رپورٹ کیا جارہا ہے کہ مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں نواز شریف نے وزیراعظم میاں شہباز شریف اور دیگر وزراء اور رہنماؤں کو کہا ہے کہ وہ عمران خان کی طرف سے دباؤ بڑھانے کی پالیسی کو خاطر میں نہ لائیں – شہباز شریف جو لندن کے ایک ہفتے کے دورے پر ہیں کے حوالے سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ اُن پر بعض حلقوں نے نئے آرمی چیف کی تقرری پر عمران خان سے مشاورت کرلیں اور درمیانی راہ نکالیں اور شہباز شریف اسی دباؤ بارے آگاہ کرنے نواز شریف کے پاس گئے ہیں – یہ دعویٰ کرنے والوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ حلقے کون سے ہیں؟ کیا اُن کا تعلق فوج سے ہے؟ یا اتحادی جماعتوں سے ہے؟ دوسری طرف فیصل واڈوا کے بعد پی ٹی آئی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ میجر ایم پی اے نے جیو ٹی وی چینل کے معروف اینکر صحافی حامد میر کو تفصیلی انٹرویو دیا ہے جس میں انھوں نے دعوی کیا ہے کہ میجر جنرل فیصل نصیر کے بارے میں عمران خان کو ان کے اردگرد رہنماؤں نے گمراہ کن اطلاعات دی ہیں – انھوں نے میجر جنرل فیصل نصیر کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ عمران خان کو قومی ھیرو اور عوام کی نمائندہ ایک بڑی جماعت کے سربراہ مانتے ہیں اور اٌن کا عمران خان کے خلاف کچھ کرنے کا ارداہ نہیں ہے – میجر(ریٹائرڈ) خرم حمید خان روکھڑی نے دوران انٹرویو یہ اعتراف بھی کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے فوجی اسٹیبلشمنٹ مخالف مہم سے اپنے آپ کو الگ کرچکے ہیں – مین سٹریم میڈیا کا ایک لبرل سیکشن ایک طرف تو عمران خان لے خلاف مسلم لیگ نواز کے تاحیات قائد نواز شریف کی عمران خان کے فوجی اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ کے خلاف مبینہ غیر لچک دار موقف کی تعریفانہ انداز میں بھرپور تشہیر کررہا ہے اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے جارحانہ رویے کی تعریف کررہا ہے لیکن دوسری طرف وہ عمران خان کی حمایت میں کمربستہ اعتزاز احسن اور اعظم سواتی ویڈیو لیکس کو لیکر مصطفی نواز کھوکھر کے دعوے اور استعفا کو لیکر پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت پر شدید تنقید کررہا ہے اور یہ الزام عائد کررہا ہے کہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری فوجی اسٹبلشمنٹ کے لاڈلے بننے کے جتن کررہے ہیں – پیپلز پارٹی کے چودھری اعتزاز احسن، فرحت اللہ بابر اور مصطفی نواز کھوکھر کو پیپلزپارٹی کی قیادت کے مبینہ آزادی رائے دشمن رویے کے خلاف آواز اٹھانے والے ھیروز قرار دے رہا ہے- پیپلزپارٹی کے اندر دوسرے درجے کی قیادت اور کارکنوں کی بڑی اکثریت اعتزاز احسن اور مصطفی نواز کھوکھر پر شدید تنقید کررہی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ مصطفیٰ نواز کھوکھر پیپلزپارٹی کی طرف سے انھیں وفاقی وزیر نہ بنائے جانے پر ناراض ہیں باقی سب باتیں زیب داستان بیان کرنے کے لیے ہیں – سیاسی حلقوں میں مین سٹریم میڈیا کے پرو نواز شریف لبرل سیکشن کی جانب سے پیپلزپارٹی کی قیادت طرف سے فوج کے سربراہ قمر باوجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی اور میجر جنرل فیصل نصیر کے خلاف چلائی جانے والی عمران خان کی مہم کی مخالفت کو اسٹبلشمنٹ کے سامنے جھک جانے جبکہ مسلم لیگ نواز کے تاحیات قائد نواز شریف، وزیر اعظم شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے بیانات کو سراہا جانے کی پالیسی کو اسٹبلشمنٹ نواز نہ قرار دینے کو کھلا تضاد قرار دیا جارہا ہے- پیپلزپارٹی پنجاب کے سوشل میڈیا پر سرگرم نان آفیشل ایکٹوسٹ پی پی پی سنٹرل پنجاب اور اس کے آفیشل سوشل میڈیا پر خاموش رہنے کا الزام عائد کررہے ہیں اور انہیں نااہلی کا طعنہ بھی دیا جارہا ہے- پیپلز پارٹی لاہور سے تعلق رکھنے والے سینئر رہنما پروفیسر ڈاکٹر یوسف اعوان، ڈاکٹر محمد ضرار یوسف اور رانا شرافت علی ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی سنٹرل پنجاب کا شعبہ نشر و اشاعت اور آفیشل سوشل میڈیا پی پی پی کے خلاف پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینے اور پارٹی کی پالیسی کو واضح کرنے میں ناکام ہے – انہوں نے الزام عائد کیا کہ مصطفیٰ نواز کھوکھر بلاول بھٹو کے ترجمان کے طور پر بلاول بھٹو کی ترجمانی کرنے کی بجائے زاتی موقف کی تشہیر کرنے میں مصروف رہے اور آخری دنوں میں تو انھوں نے پی پی پی مخالف پروپیگنڈے کو اپنا لیا تھا – پی پی پی کے سینٹر ہونے کے ناطے پانچ سال 9 مہینے انھوں نے پارٹی قیادت اور فیصلوں کی ترجمانی کے فریضے کو بھلائے رکھا اور اب جب اُن کی ریٹائرمنٹ میں تین ماہ باقی رہ گئے تھے تو انہوں نے ضمیر کا قیدی اور آزادی رائے کا سورما بننے کا ڈرامہ رچا کر استعفا دیا ہے – وہ اگر پارٹی قیادت اور پارٹی کے اجتماعی فیصلوں سے اختلاف رکھتے تھے تو انھیں جس دن یہ محسوس ہوا تھا اُسی دن بلاول بھٹو کے ترجمان اور سینٹر شپ دونوں سے استعفا دے دینا چاہیے تھا-

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: