اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بہ سلسلہ عید ویلنٹائن، سن 2023ء۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بڑے شہروں کے کتوں اور بلیوں کی طرح کوے اور چڑیاں بھی کافی سیانی ہوتی ہیں۔ میری بچپن کی زندگی بھی لاہور شہر میں ہی گزری۔ اُس دور کی چڑیاں بھی سیانی تھیں۔ بچپن میں گرمیوں کی دوپہروں میں چڑیا پکڑنے کی خواہش تقریباً پاگل بنا دیا کرتی تھی۔ صحن میں پرات کے نیچے پیمانہ (فٹا، رُولر) لگا کر کوئی ڈوری ساتھ باندھ دیتے اور تھوڑی سی روٹی کے ٹکڑے بھی بکھیر کر خود کو بڑا چڑی مار سمجھتے۔ گھنٹوں بے حرکت بیٹھے رہتے، اِدھر اُدھر بھی نہ دیکھتے کہ کہیں وہی ایک لمحہ قبولیت کا نہ ہو۔ چڑیاں دیوار پہ آ کر بیٹھتیں، گردن موڑ موڑ کر اجنبی سی چیز کو دیکھتیں۔ پھر جیسے وہ مشورہ کرنے لگتیں، زیادہ تر خطرہ بھانپ کر یا کسی زیادہ بہتر صورت کی تلاش میں اُڑ جاتیں۔ چڑیاں ہمیشہ بہتر کی تلاش میں ہوتی ہیں، نہ کہ شکاریوں کی۔ وہ اور بات ہے کہ شکاری ہی بہتر موقع پیش کرتے ہیں۔
پانچ چھ چڑیاں نیچے اُترتیں، دو تین مٹکتی ہوئی پرات یا کڑاہی کے نیچے رکھے روٹی کے ریزوں کی طرف جاتیں۔ کوئی پیچھے پلٹ جاتی، کوئی واپس دیوار پر جا بیٹھتی، کوئی ہمت کرتی اور آگے بڑھتی۔ اکثر اِس crucial مرحلے پر یا تو ہوا کا تیز جھونکا پرات کو گِرا دیتا، کوئی آواز دے دیتا، یا ڈوری کھینچنے میں دیر ہو جاتی۔ یہ لڑکوں کا کھیل تھا۔ لڑکے ہی پسینے میں شرابور ہوتے رہتے۔ کبھی صدیوں بعد کوئی چڑیا پرات یا ٹوکری یا کڑاہی کے نیچے محبوس ہو بھی جاتی تو سوچا ہی نہ ہوتا کہ اب کیا کرنا ہے۔ اُسے رکھنا کہاں ہے؟ پرات یا کڑاہی کے نیچے سے نکالنا کیسے ہے؟ وہ کم بخت چوں چوں بھی نہ کرتی، سہمی رہتی، یا موقعے کی تلاش میں۔
قوی امکان ہوتا کہ کڑاہی یا پرات اٹھانے پر وہ اُڑ ہی جائے گی۔ ایک دو بار تو کسی نہ کسی طرح اُسے پکڑ ہی لیا، تو سمجھ نہ آئی کے اب کیا کریں۔ ایک زندگی اپنے ہاتھ میں ہونے پر فتح کا احساس، اور اُس کو قائم رکھنے کی بے یقینیاں! اگر کبھی برتنوں والا ٹوکرا خالی کر کے اُس کے نیچے رکھا اور بے فکر ہو کر باہر کھیلنے چلے گئے تو واپس تک اُسے خالی پایا، کیونکہ امی کو ٹوکرے کی ضرورت ہماری چڑیا سے زیادہ ہوتی تھی۔
صرف شکاری نظر آنے کی خواہش رکھنے والی نصف انسانی نوع ہر وقت کڑاہیاں، پراتیں، ٹوکرے اور کڑاہیاں ڈنڈے پر ٹکائے بیٹھی ہے۔ ایک دوست صحیح کہتی ہے کہ مرد بڑے ہی بے چارے ہوتے ہیں۔ وہ اِس احساس سے عاری ہیں کہ چڑیوں کو کیسا محسوس ہوتا ہو گا۔ کوئی بزرگ پروفیسر ایک نکمی خاتون کے درمیان میں یا قریب بیٹھا ہوا، کوئی مصنف اور دانشور نوجوان بے تکی قبول صورت عورتوں کے ساتھ پیٹ اندر کھینچ کر کھڑا ہوا، کوئی قریب بیٹھے کو تیار، کوئی کمنٹس کے بعد انباکس کا منتظر فیس بُک کا متوالا، لڑکیوں اور عورتوں کی ڈھارس بندھانے کا متمنی یہ باتیں شاید کبھی نہیں جان پائے گا، جب تک کہ فتح کی بجائے نظارے کا حظ اُٹھانا نہ سیکھ لے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: