اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لطافت کا فقدان۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مذاق یا لطیفہ لطیف ہونے کی شرط رکھتا ہے۔ کبھی ہمیں جو سٹیج ڈرامائی جگتیں شاید بہت بھونڈی لگتی تھیں، مگر آج وہی لطیف بن گئی ہیں۔ جس طرح سیاست میں جمشید دستی، شیخ رشید، فواد چودھری اور طلال چودھری وغیرہ مرکزی دھارا بن گئی، فلسفے میں عارفہ سیدہ اور احمق رفیق اختر براجمان ہوئے، مذہبی بیانیے میں طارق جمیل اور حماد صافی کو سلطنت ملی، قاسم علی شاہ اور عارفہ سیدہ نے سوشیالوجی اور نفسیات میں جگہ بنائی، اُس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم پچھلے بیس سال میں تنزل کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے ہیں، اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
ایک ڈرامے میں دو کردار ایک دوسرے کو تنگ کرنے کا مقابلہ کرتے ہوئے درجہ بدرجہ کہتے ہیں کہ میں تجھے شہر سے، محلے سے، گھر سے نکال دوں گا۔ آخری مرحلے پر مستانہ کہتا ہے: میں تجھے ذہن سے نکال دوں گا۔ ایک اور موقعے پر ایک فنکار دوسرے کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ تو پیٹ پر جلیبیاں رکھ کر کھاتے کھاتے سو گیا، ایک دم آنکھ کھلی تو ہاتھ لگا کر چیختے ہوئے کہنے لگا، اوہ، کوئی میری انتڑیاں نکال کر لے گیا۔ ایسی ہی بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں کافکائی لطافت کی۔
مگر مزاحیہ شاعری میں اب خالد مسعود کا راج ہے، کبھی افغانستانی سٹوڈنٹس کے حمایتی بھی تھے۔ وہ اپنی پرانی نظموں میں بھی تقریباً گالیوں تک آ گئے چکے تھے۔ اب تو اللہ اللہ۔
لطافت کیا ہوتی ہے؟ میرے خیال میں نرگس کے ٹھمکے اور دیپکا کے ٹھمکے، مجرے اور بیلی ڈانس، آفتاب اقبال کے مزاح اور کمال احمد رضوی کے مزاح، بشری رحمان اور جین آسٹن میں جو فرق ہے وہ لطافت کا ہی ہے۔ لطافت غیب ہی نہیں غیبِ غیب ہے۔ اِس میں معنی سر پہ نہیں دے مارے جاتے، سجھائے جاتے ہیں۔ کنٹنٹ ہتھوڑے کی طرح نہیں وسیلے کی طرح استعمال ہوتا ہے۔ غالب اِسی لطافت کی وجہ سے غالب ہے۔ راشد تو لطافت کا جہان ہے۔ ہر بڑا شاعر ایسا ہی ہے۔
ابھی ایک دوست نے خالد مسعود کا الحمرا ہال میں ’’کلام‘‘ پیش کرنے کا کلپ پوسٹ کیا جس میں ہال قہقہوں سے گونج رہا تھا۔ زیادہ تر لوگ بندر اور بکرے کے کرتب دیکھنے والے ہی ہوتے ہیں، لیکن اُنھیں کبھی مرکزی دھارے اور واحد دھارے کی حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں یہ تمیز ختم ہو گئی ہے۔ دوسرے ملکوں نے شیکسپیئر جیسوں کو بھی لطیف بنا دیا، اور ہم نے اپنی لطیف چیزوں کو بھی بھونڈا۔ اب لٹریری فیسٹیول میں شان بھی آتا ہے، علی ظفر بھی اور پتا نہیں کون کون۔
یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ وہ لوگوں کی پسند پر آتے ہیں۔ ہمارے اخبارات کے سنڈے ایڈیشنز میں ایک عرصے سے جنسی مسائل اور بریسٹ فرمنگ کریموں اور بنگالی جادو کے اشتہارات آ رہے ہیں۔ یہ جان بوجھ کر دیا گیا ہے، کیونکہ ہم نے نفسیات اور فلسفے اور سماجیات سے دور رہنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اب یہی مرکزی اور واحد دھارا ہے۔ اس لیے فلاسفر آئل صرف بال گرنا روکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: