مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سوشل میڈیا اور اینٹی زرداری سوڈو انٹلیکچویل بیماری||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اپنے شہر میں پی پی پی کی تشکیل کے وقت اور تشکیل کے فوری بعد پارٹی میں شامل ہونے والے جیالوں کی اکثریت سے ملاقات کا شرف رکھتا ہوں – میرے شہر میں 99 فیصد آبادی کا تعلق ہندوستان میں شامل اس وقت کے صوبہ پنجاب، ہریانہ، دلی اور اتر پردیش سے ہجرت کرکے آنے والوں کے گھرانوں سے ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خانیوال برٹش دور پنجاب میں کینال کالونیز میں سے ایک تھا جہاں کی 99 فیصد آبادی آبادکار ہندؤ اور سکھوں پر مشتمل تھی جو تقسیم کے وقت ہندوستان چلے گئے اور اُن کی متروکہ املاک مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کو مل گئی – پی پی پی کے اولین جیالوں کی اکثریت بھی پنجابی یا ہریانوی مہاجروں کی تھی یا وہ 48ء سے 50ء کے دوران پیدا ہوئے تھے –
میں درجن بھر ایسے بزرگ جیالوں سے ملا جن کی قیام پاکستان کے وقت عمریں 15 سے 20 سال کے درمیان تھیں اور وہ پی پی پی کے قیام کے وقت چالیس اور پچاس کے پیٹے میں تھے –
جبکہ درجن بھر جیالے وہ تھے جو پی پی پی کی تشکیل کے وقت 16 سے 30 سال کے تھے –
ان جیالوں میں تین سے چار جیالے ایسے تھے جنھوں نے کالج کی تعلیم ایف اے اور بی اے تک حاصل کی ہوئی تھی جبکہ مشکل سے درجن بھر جیالے میٹرک پاس تھے جبکہ 40 سے 50 سال کے پیٹے کے جیالے وہ تھے جنھوں سے اسکول کی تعلیم بالکل نہیں پائی تھی – جبکہ یہ سب جیالے شہری پس منظر سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے دو وکیل، ایک استاد اور زیادہ تر چھوٹے دکاندار(ان میں شیخ قریشی، شیخ صدیقی، انصاری، ملک تیلی) ریڑھی بان، ماشکی (جو اب عباسی کہلاتے ہیں)، فقیر (جن میں سے اب اکثر شاہ جی کہلاتے ہیں) نائی (راجے کہلاتے ہیں) کمہار(رحمانی کہلاتے ہیں) اور اکثر کی ابتدا میں رہائش کچی آبادیوں میں تھی جن کو بعد ازاں بھٹو صاحب نے مالکانہ حقوق دیے – جبکہ شہر کی پڑھی لکھی مختصر سی اشرافیہ جن میں زیادہ تر سادات اہل تشیع تھے میں سے بھی چند گھرانوں سے نوجوان پیپلزپارٹی کا حصہ بنے – یہ سب 68ء سے 70ء کے درمیان پاکسستان پیپلزپارٹی کا حصہ بنے – جبکہ پُرانا خانیوال جو برٹش سامراج کے آنے سے بھی پہلے کی مختصر سی قدیم باشندوں کی سرائیکی بولنے والی آبادی تھی اُس آبادی میں پہلے پہل عطاء محمد عاصی اُن اولین تین جیالوں میں شامل تھے جن کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا اور وہ شیخ محمد رشید بابائے سوشلزم کے ساتھ رابطے میں تھے اور اُن کا زکر شیخ محمد رشید نے اپنی سوانح عمری میں بھی کیا ہے اور ان میں چودھری مجید انور اور چوہدری برکت اللہ دونوں پیشہ کے لحاظ سے وکیل تھے اور عطا محمد عاصی اُس وقت مشکل سے 18 سے 19 سال کے نوجوان تھے- شیخ محمد رشید کے بیان کو دیکھا جائے تو خانیوال شہر میں یہ تین افراد تھے جنھیں تحصیل خانیوال میں پی پی پی کو منظم کرنے کی زمہ داری سونپی گئی تھی اور یہی تین افراد پی پی پی کے اولین بانی جیالے تھے – شیخ محمد رشید کے بیان سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ خانیوال سے اُس وقت پی پی پی کی تاسیس کے وقت ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر ہونے والے کنونشن میں کوئی فرد شریک نہیں ہوا تھا- ان تین افراد میں سے چوہدری برکت اللہ ایڈوکیٹ دسمبر 1970ء میں ہونے والے عام انتخابات میں خانیوال سے قومی اسمبلی کی نشست پر پی پی پی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اور وہ 1973ء کے آئین کا ڈرافٹ تیار کرنے والی قومی اسمبلی کی آئینی کمیٹی میں کے رکن بھی بنائے گئے تھے اُن کا نام قومی اسمبلی میں آئین ساز کمیٹی کے اراکین میں آج بھی درج ہے جو خانیوال کے لیے ایک بہت بڑے اعزاز کی بات ہے – 1970ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی تشکیل کے وقت خانیوال تحصیل میں سیاست دو بڑے جاگیردار گھرانوں کے درمیان تقسیم تھی – ایک طرف 1946ء میں یونینسٹ پارٹی چھوڑ کر آل انڈیا مسلم لیگ کے ٹکٹ پر دستور ساز اسمبلی کے رُکن منتخب ہونے والے پیر بڈھن شاہ گھگہ تھے اور دوسری طرف اُن کے رنر اَپ ہیبت خان ڈاہا تھے جو سابقہ یونینسٹ تھے – ان دونوں گھرانوں نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار نہ کی – اور دونوں گھرانوں نے 70ء کا انتخاب کنونشن لیگ اور قیوم لیگ کے ٹکٹ پر لڑا اور دونوں بدترین شکست سے دوچار ہوئے – جبکہ خانیوال تحصیل میں قومی اسمبلی کی نشست پر رنر اَپ جمعیت علمائے پاکستان کے مولانا ایوب رحمان رہے جنھوں نے خانیوال شہر کے کاروباری گھرانوں کی رہائش والے علاقوں میں بنے پولنگ بوتھوں سے کامیابی حاصل کی جبکہ کچی آبادیوں اور پرانا خانیوال سے انھیں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا – گویا شہری اور دیہی غریب ووٹروں نے شہری اور دیہی آبادی کے اشرافیہ اور مختصر سے متوسط طبقے کو شکست فاش سے دوچار کردیا تھا – خانیوال شہر سے تعلق رکھنے والے اولین جیالوں کی اکثریت کے خاندان اور اُن کے بزرگ سربراہان رجعت پرست دایاں بازو کے مذھبی گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور واجبی سی تعلیم کے حامل تھے لیکن یہی اولین جیالے ہمارے شہر کے اولین عوامی جمہوریت پسند سیاسی کارکن بھی تھے جنھیں ہم ماڈرن سیاسی اصطلاح میں سوشل ڈیموکریٹس بھی کہہ سکتے ہیں- جس 70ء سے 77ء کے درمیانی عرصے میں تحصیل خانیوال کے جاگیردار اشراف ، شہری و دیہی متوسط طبقے کے تعلق رکھنے والے گھرانوں کی ایک بڑی تعداد پی پی پی کا حصہ بنی اور پی پی پی کو 97ء تک شہری علاقے سے ملنے والے اوسط ووٹوں میں سے کم از کم تین ہزار ووٹ فعال جیالے سیاسی کارکنوں سے ملتے رہے اور یہ کسی بھی جمہوری سیاسی جماعت کے فعال سیاسی کارکنوں کی بہت بڑی تعداد تھی – پی پی پی کے اولین سیاسی جیالے کارکنوں کی اکثریت سوائے پانچ دس کے کسی باقاعدہ سیاسی اسٹڈی سرکل سے تربیت یافتہ ہوکر نہیں آئی تھی – میں نے چوہدری مجید انور ایڈوکیٹ جو 77ء کے انتخابات میں پی پی پی کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور عطاء محمد عاصی جو پی پی پی کے ٹکٹ پر بلدیاتی کونسلر بھی منتخب ہوئے دونوں سے کئی مواقع پر بات چیت کی اُن کے مطابق پی پی پی کے اولین تین بانی اراکین نے بھی نہ تو باقاعدہ اسٹڈی سرکل میں شرکت کی تھی اور شیخ محمد رشید سے اُن کا تعلق نیپ کی کسان رابطہ کمیٹی کی طرف سے کرائی جانے والی کسان کانفرنس میں ہوا تھا اور بعد ازاں جب کبھی ان کا لاہور جانا ہوتا تو شیخ محمدرشید سے اُن کی ملاقاتیں ہوجایا کرتی تھیں – چوہدری مجید انور نے مجھے یہ بتایا کہ وہ ہفت روزہ نصرت اور روزنامہ مساوات کے مستقل قاری تھے اور چوہدری برکت اللہ بھی ان دونوں جریدوں کے مستقل قاری تھے – چوہدری مجید انور ایڈوکیٹ کے گھر کی بیٹھک میں ایک ریک میں، میں نے بھٹو صاحب کی تمام کتابوں، ستار طاہر کی کتابوں اور مولانا کوثر نیازی کی "اور لائن کٹ گئی” دیکھی تھیں – جبکہ انھوں نے بتایا تھا کہ وہ سوشلسٹ پارٹی کے ترجمان ماہنامہ عوامی جمہوریت سوشلسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما نور محمد چوہان کے زریعے حاصل کرتے تھے اور الفتح کراچی مارشل لاء دور میں انھیں باقاعدگی سے ملا کرتا تھا – جبکہ انھوں نے بتایا کہ انھیں مارکسی استادوں کا لٹریچر پڑھنے کا کبھی موقعہ نہیں ملا تھا- اگرچہ اخبارات اور جرائد میں انھوں نے سوشلسٹ نظریات کے مضامین وغیرہ پڑھے تھے – پیپلزپارٹی میں شمولیت کے وقت 40 سے 50 کے پیٹے کے جیالے اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں لیکن اُن کی اکثریت 90ء کی پوری دہائی میں زندہ تھی اور اس وقت بھی وہ سیاست میں سرگرم تھے – اُن میں سے جن سے میں ملا وہ شہید بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے بارے میں ریاستی اور اینٹی بھٹو پروپیگنڈے سے زرا متاثر نہ تھے – جبکہ 16 سے 30 سال کی درمیان کے عمر والے جیالے جن میں سے اکثر جنرل مشرف کی آمریت کے اولین تین سالوں کے درمیان اس دنیا سے رخصت ہوئی اُن میں بھی جن سے میں ملا وہ اردو میڈیا کے بے نظیر بھٹو اور زرداری کے بارے میں بنائے گئے ڈسکورس پر زرا یقین نہیں رکھتے تھے – ہاں میں نے اُن میں سے دو چار کو مرتضیٰ بھٹو کی پارٹی میں شمولیت کرتے دیکھا اور مرتضیٰ بھٹو کی شہادت کے بعد گزرے ایک دو سالوں میں وہ واپس پی پی پی میں چلے آئے تھے اور اُن کو یقین تھا کہ مرتضیٰ بھٹو کو اسٹبلشمنٹ نے شہید کرایا ہے – سیاست میں وہ اسٹبلشمنٹ اور غیر جمہوری طاقتوں کے بارے میں سیاسی طور پر شہری تعلیم یافتہ مڈل کلاس کے اُن لبرل اور لیفٹ دانشوروں سے کہیں زیادہ باشعور تھے جو اپنے آپ کو لبرل اور لیفٹ نظریات کا مدار المہام سمجھتے تھے لیکن بھٹوز اور پیپلزپارٹی کے وہ اسٹبلشمنٹ سے کہیں زیادہ دشمن تھے اور ہیں – وہ عوامی سیاست کا اُن سے کہیں زیادہ ادراک رکھتے تھے اگرچہ وہ لبرل اشراف کی طرح مسجع و مقفع گفتگو نہیں کرسکتے تھے – وہ لبرل /لیفٹ مڈل کلاس کے اشراف دانشوروں اور صحافیوں کی موقعہ پرستیوں کا شکار نہیں تھے – میں انھیں عملا سیاسی میدان میں مرحوم اور زندہ لبرل اور بوتیک لیفٹ سے کہیں زیادہ ایماندار، اصول پسند لبرل اور سوشلسٹ پایا – وہ ملاؤں فرقہ پرستوں، نسل پرستوں کی منافقت اور اُن کے دوغلے کرداروں کو بہت اچھے سے سمجھتے تھے – اُن کی روش نے مجھے اینٹی بھٹو اور اینٹی زرداری اور اینٹی پی پی پی لبرل و لیفٹ سوڈو انٹلیکچویل ازم کی بیماری میں مبتلا ہونے سے بچائے رکھا وگرنہ میں ڈاکٹر مبشر حسن جیسے سوشلسٹ کی "طاقت کا سراب” اور رفیع رضا جیسے لبرل کی بھٹو دور کا جائزہ جیسی کتابیں پڑھ کر، روزنامہ ڈان میں لبرل اشرافیہ کے اینٹی بھٹو، بے نظیر اور زرداری ڈسکورس کو پڑھ کر سوڈو لبرل و لیفٹ انٹلیکچوئل ازم کی بیماری میں مبتلا ہوگیا ہوتا – میں نے ان جیسے اولین اور آخرین مخلص جیالے سیاسی کارکنوں کی صحبت میں رہ کر الطاف گوہر، جی ڈبیلیو چودھری، اے کے بروہی، آئی ایچ برنی، اردشیر کاؤس جی اور آج کے نجم سیٹھی، بینا سرور، حامد میر، سیرل المیڈا، نصرت عباس،مظہر عباس اور اسی طرح کے نام نہاد اینٹی اسٹبلشمنٹ تجزیہ کاروں، اینکرز کے سیاسی بانجھ پَن اور اربن چیٹرنگ کلاس کی بھتو دشمنی، زرداری سے نفرت کی اصل وجوہات کو جانا – ان سب نے بھٹوز کی عوامی سیاست سے حقیقت میں اپنے آپ کو مس فٹ پایا اور ان کی موقعہ پرستی نے بار بار ان کے قلم اور زبان کو اسٹبلشمنٹ اور نواز شریف جیسوں کے ہاتھوں فروخت ہوجانے پر مجبور کیا – یہ بھٹو-زرداری دشمنی میں عمران خان کو اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیہ حامل قرار دینے سے باز نہیں آئے – انھوں نے 90ء کی دہائی سے لیکر اب تک پاکستان کی اربن چیٹرنگ کلاس کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کم از کم تین نسلوں کو گمراہ کیا ہے – اور انھیں کبھی نواز شریف تو کبھی عمران خان جیسے جعلی لیڈروں کا اسیر کیا – سوشل میڈیا نے پہلی مرتبہ مجھ جیسے جیالوں کو ان کے بانجھ نظریات اور موقعہ پرستیوں کو بے نقاب کرنے کا موقعہ فراہم کیا – ہماری آؤٹ ریچ سوشل میڈیا کے زمانے سے پہلے نام نہاد مین سٹریم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ان کے قبضے کے سببب نہ ہونے کے برابر تھی جس سے ان کی گمراہیوں کا پردہ چاک کرنا بہت مشکل تھا – یہ نام نہاد اینٹی اسٹبلشمنٹ لبرل جمہوریت پسند لبرل اور لیفٹ سوشل ڈیموکریٹک خیالات کے مفتی اور خدا بلکہ قارون بن کر بیٹھے تھے اور اینٹی بھٹوز سوڈو انٹلیکچوئل ازم کی بیماری کو متعدی بناچکے تھے – اب آہستہ آہستہ اس بیماری کی ویکسئین سوشل میڈیا پر متحرک جیالے دانشور تیار کررہے ہیں – ہمارے سینیرز جن میں زاہد حسین، نذیر لغاری، ڈاکٹر یوسف اعوان ، مظاہر حسین بخاری، مبین اللہ خان، حیدر جاوہد سید، اقبال حسین جیسوں کی سوشل میڈیا کے زریعے آؤٹ ریچ میں زبردست اضافہ ہوا ہے – اس میدان میں ان کی نیابت میں ریاض ملک، اسماعیل آفندی، شرافت علی رانا، کاوش بھٹہ، علی اعوان، آصف نقوی، صفدر ایڈوکیٹ، خالد پرویز، راؤ عابد، آمنہ پراچہ، پروفیسر بوعلی، اسرار جپہ، اُن کی اہلیہ، عدیل بخاری، ندیم کیسانہ، شہزاد شفیع، ساحل چانڈیو، اور کئی نوجوان جیالیاں پیپلزپارٹی کی جمہوری سیاسی روایت کے دفاع میں کسی معذرت خواہانہ، شکست خوردہ رویے کے بغیر جارحانہ انداز میں رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیے ہوئے ہیں – میں یہاں سب کے نام نہیں دے سکتا وگرنہ پوسٹ صرف ناموں سے بھر جائے گی – یہ سب آصف زرداری کے خلاف قائم تعصب، شاؤنسٹ اور بغض کی بنیاد پر نام نہاد سیاسی بیانیوں کی رد تشکیل کررہے ہیں – یہ کام پی پی پی کے آفیشل سوشل میڈیا اور مرکزی و صوبائی شعبہ اطلاعات و نشریات کے کرنے کا تھا اور ہے لیکن وہاں تو ایسے لوگ براجمان ہیں جو نام نہاد مین سٹریم میڈیا پر براجمان سوڈو اینٹی اسٹبلشمنٹ لبرل وڈے تے نامور صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے اینٹی زرداری پروپیگنڈے سے مرعوب ہوکر معذرت خواہانہ بیماری کا شکار ہیں – یہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب کے دل لاہور میں یہ حامد میر، سہیل وڑائچ، وجاہت مسعود ،نصرت جاوید ، عاصمہ شیرازی ، اعزاز سید جیسوں کو اپنے اسٹیج پر تقریریں کراکر پارٹی کو بچالیں گے اور ایسے سوشل میڈیا ماہرین کو ہائر کرکے پارٹی کو سوشل میڈیا پر مقبول بنالیں گے جو آصف زرداری کے نام کو چھپانے کی ہدائت کرتے ہوں تو بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: