اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نجی تعلیمی اداروں کا کاروبار (قسط اول)۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بجلی اور آٹے کے بعد تعلیم بھی ایسی چیز ہے جس کا تقریباً ہر گھر سے تعلق ہے۔ گزشتہ تیس سال کے دوران پرائیویٹ سکولوں کا ایک سیلاب آنے کے ساتھ ساتھ سرکاری سکولوں کی اہمیت کم ہوئی ہے۔ میرے بچے بھی پرائیویٹ سکولوں میں پڑھے ہیں، میری بیوی نے سولہ سال تک پرائیویٹ سکولوں میں پڑھایا ہے، دوستوں کے بچوں اور بیویوں کو بھی جانتا ہوں جن کا تعلق ان سکولوں سے رہا ہے۔
تین عشروں میں جیس طرح حکومت نے ٹرانسپورٹ اور صحت کا سرکاری شعبہ ختم کیا، اُسی طرح رہی سہی تعلیم کو بھی نقصان پہنچایا اور اِسے متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی باہر کر دیا۔ پندرہ سال پہلے یونہی پاگل پن میں اسلام آباد کے ایک سکول النہیان اکیڈمی میں منہ اٹھا کر چلا گیا تو پتا چلا کہ وہ ڈالروں میں فیس لیتے ہیں۔ طبقاتی نظام اور گھٹیا اندازِ فکر کی جتنی زیادہ پرورش ان ’’اداروں‘‘ میں ہوتی ہے، اُس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔
آپ کے بچوں کو ہالووین منانے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے، وہ کلرز ڈے مناتے ہیں، جوتوں پر ایل ای ڈی لائٹیں لگوانے کے لیے آپ کو انارکلی سے لے کر گلبرگ تک چکر لگوائے جاتے ہیں، مخصوص عرصے بعد خاصی رقم لے کر ٹرِپ پر لیجاتے وقت لکھوایا جاتا ہے کہ وہ ذمہ دار نہیں ہوں گے، یونیورسٹیوں اور کالجوں نے ٹرِپ پر شمالی علاقوں تک لے کر جانے کے لیے عجیب و غریب پیکیج بنا رکھے ہیں، سکولوں کی کینٹینیں ٹھیکے پر دی جاتی ہیں، پینے کا صاف پانی قسمت سے ہی میسر ہوتا ہے، فوڈ چینز کو ہر قسم کی چھوٹ حاصل ہے، مذہبی طبقے کو مدرسوں سے نکل کر اپنا منجن بیچنے کی اجازت ہے مگر اِن اداروں کے لوگوں کو مدرسوں میں جانے کی نہیں، فیس کے علاوہ یونیفارم، جوتوں، کتابوں کاپیوں کا بازار گرم ہے۔ فیس میں اے سی چلانے کے چارجز الگ ہوتے ہیں، چھوٹی کلاسوں کی ایگزمینیشن فیس بھی اضافی لی جاتی ہے، دہشت گردی کے سالوں میں سکولوں کو قلعے کی صورت دینے کا خرچ بھی بچوں پر ڈال دیا گیا اور ’’سکیورٹی چارجز‘‘ کی مد بنائی گئی۔
سکولوں میں گراؤنڈز بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، لائبریری تو ویسے ہی فضول اور دکھاوے کی چیز ہے۔ او لیول اور اے لیول کے بچوں کو گھیرنے کے لیے کیریئر کاؤنسلر ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ حکومت تین لاکھ سالانہ سے زائد فیس دینے والے والدین پر ٹیکس بھی لگاتی ہے۔
یہ نجی سکول کس حد تک کاروباری ہیں؟ دو واقعات بتاتا ہوں۔ جوہر ٹاؤن میں واقع ایک بڑے سکول کو کیمبرج امتحان کا سنٹر بنایا گیا۔ پیپرز سے دو دن پہلے ایک کمرے میں گیس بھری ہوئی تھی اور لائبریریئن نے جا کر سوئچ آن کیا تو دھماکا ہوا اور وہیں فوت ہو گئی۔ انتظامیہ نے ایک دن کے اندر اندر کمرہ پینٹ کروایا اور خبر دبا دی۔ ایک سکول کا بچہ گریڈز کے ذہنی دباؤ کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہو گیا تو اگلے روز اسمبلی میں ذکر بھی نہ کیا گیا۔
یہ بہت کمزور اور گھٹیا لوگ ہیں۔ اِن کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہو سکتا ہے۔ آپ صرف سکول سرٹیفیکیٹ کی اقساط ادا کرتے ہیں، اور اِن سکولوں کے گارڈز تک کے رعب کا شکار ہوتے ہیں۔ شاید ہی کسی سکول میں پیرنٹ ٹیچر ایسوسی ایشن یا کونسل ہو گی۔ البتہ پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کمال متحرک ہے۔
اور ان نجی سکولوں کے ٹیچرز، انتظامی سٹاف یا مینجمنٹ، پرنسپل، مالک وغیرہ کیسے لوگ ہیں، اِس بارے میں کل بات کروں گا۔
آپ بھی چاہیں تو اپنے تجربات بیان کریں۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: