اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جھوٹ کی لینڈ مائن(2)۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بوسنیا اور ہرزیگووینا کی جنگ کے متعلق ایک مووی میں کوئی سپاہی لینڈ مائن (بارودی سرنگ) پر گِر پڑتا ہے یا دشمن کے سپاہی اُسے وہاں ڈال دیتے ہیں۔ لینڈ مائن پر جب تک دباؤ پڑا رہے وہ نہیں پھٹتی، اور جونہی بوجھ اُٹھتا ہے، اُس کا دھماکا ہو جاتا ہے۔ سپاہی لینڈ مائن پر گرا ہوا ہے اور زندہ ہے۔ اقوامِ متحدہ اور صحافی پہنچ جاتے ہیں۔ کیا کیا جا سکتا ہے؟ وہ سپاہی یا فوجی جیتے جی لینڈ مائن بن گیا ہے!
ڈاکٹر مبارک علی نے خود یہ عمل دیکھا ہے، کئی لاکھ مربع کلومیٹر کے سٹیج پر یہ ڈراما رچتے دیکھا ہے۔ کہاں بھٹو کا دور، ضیا کا دور، پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ادوار، مشرف اور موجودہ افراتفری۔ وہ جھوٹ کی لینڈ مائن پر پڑے ہوئے معاشرے کو نہیں اُٹھا سکتے، وہ صرف اِس کی حالت بیان کر سکتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔ لکھاری کا فن وہی ہونا چاہیے جس مقصد کے لیے ڈاکٹر مبارک علی نے استعمال کیا۔
وہ مجھ سے کتابوں کے متعلق پوچھ رہے تھے۔ اُن کی کتابیں ذہن سازی کرتی ہیں، اور اُنھیں ہمیشہ بہت ہی ناقص اور ناروا پبلشرز ملے۔ اچھا پبلشر آپ کی تحریر کو نکھار دیتا ہے۔ ہماری پبلشنگ کی روایت تحریر کو مسخ کرنا رہی ہے۔ میں نے اُنھیں بتایا کہ میرے پاس ایک اچھا پبلشر ہے جہلم میں اور ایک لاہور میں بھی ہے۔ اور میرے پاس اچھے قاری بھی ہیں جن کے ذریعے فیس بک کے ذریعے رابطہ ہوا۔ لیکن اچھے پبلشروں کے پیڑ پر بہت سے طوطے آن بیٹھے ہیں جو…..۔
میں نے اُنھیں بتایا کہ ابھی کل ہی ساہیوال سے ایک ایس ایس ای سکول ٹیچر (اویس محمود) کا فون آیا اور کہنے لگا کہ میں بھی ول ڈیورانٹ والے پروجیکٹ میں حصہ لینا چاہتا ہوں۔ میں نے اُس سے کہا کہ اگر بہت تھوڑا حصہ لینا چاہتے ہیں تو جب کتاب چھپے گی اضافی کتابیں خرید کر حصہ لے سکتے ہیں۔ مگر اُسے برا لگا اور بولا، ’’میں ہر ماہ ایک ہزار دوں گا تو تین چار سال تک چالیس پچاس ہزار حصہ ہو ہی جائے گا میرا بھی۔‘‘ ڈاکٹر مبارک علی کھل اُٹھے اور کہنے لگا، ’’بھئی یہ تو بہت بڑی بات ہے کہ ابھی تک ایسے پڑھنے والے موجود ہیں۔‘‘ اُنھوں نے کہا کہ زیادہ پڑھنے والے بلوچستان، سندھ اور چھوٹے شہروں اور دیہات میں ہیں۔ ہمارے بڑے شہر تو عمرانیات کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب مایوس نہیں، جو کام کرتا ہو وہ مایوس نہیں ہو سکتا۔ اپنی تاریخ سے آگہی انسان کی واحد پہچان ہے، اِسی لیے وہ ہر پشت میں آگے سے سفر آغاز کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی دی ہوئی آگہی کی بدولت ہمیں لینڈ مائن پر لیٹے ہوئے آدمی کی ضروریات پوری کرنا ہیں۔ کیا پتا اُسے وہاں سے اُٹھانے کا طریقہ مل ہی جائے یا پھر موت آنے تک بہلا رہے۔
دوسری قسط

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: