اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاریخ نابینا ہے مؤرخ نہیں(1)۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر مبارک علی ٹھیک ہیں اور پریشان بھی۔ وہ تاریخ لکھتے لکھتے خود تاریخ بن گئے ہیں۔ اچھی یاد داشت بھی ایک عذاب ہے، اور چیز کو مختلف انداز میں دیکھنا متواتر عذاب ہے۔ وہ اب معدودے چند لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے معاشرے کو تلپٹ ہوتے نہ صرف دیکھا ہے بلکہ جھیلا بھی ہے۔ وہ آپ اور ہم سے بہتر دیکھ سکتے ہیں۔
وہ اب تک کیوں لکھتے ہیں؟ مؤرخ کا کام بھی مسائل حل کرنا نہیں بلکہ اُن کی وضاحت کرنا اور سمجھانا ہے۔ تاریخ ہمیں پاگل ہونے سے روکتی ہے۔ آپ کو اگر یہ یاد نہ ہو کہ صبح کیا کھایا تھا یا کہاں کہاں گئے تھے تو شاید پاگل ہو جائیں۔ بچہ پیدا ہوتے ہی ہم اُس کی شکل اور بعد ازاں عادات کسی بڑے سے ملانے لگتے ہیں۔ ہم اپنی ترجیحات اور پسند کی بنیاد پر آنے والے کل کے رابطے گزرے کل سے ملائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مؤرخ کا کام بھی یہی ہے۔ وہ چیزوں کو قابل فہم بناتا ہے۔ آپ کو اپنی ڈائریاں، جھنڈ کے بالوں کی پُڑیا، دادی اماں کا پراندہ، دادا کا قلم، نانی کی انگوٹھی، کسی اور جدامجد کی تصویر وغیرہ عزیز ہوتی ہیں۔ مؤرخ ہمارے لیے معاشرے اور تہذیب کے اِسی قسم کے نوادرات کو ترتیب دیتا ہے۔ مؤرخ تاریخ کے دھارے کو اوپر سے دیکھتا ہے۔ اور ہمارا مؤرخ پریشان ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی پوچھتے رہے تھے کہ کتاب پڑھنے کا رجحان کیسا چل رہا ہے؟ پبلشرز کیا چھاپ رہے ہیں اور رائٹرز کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے؟ خود اُن کے طویل سفر میں یہ تجربہ اچھا نہیں رہا۔ کبھی ایک این جی او نما لیفٹ گروپ کا نمائندہ اُن کے پاس آتا ہے اور کتاب کا مسودہ لے کر معاوضہ لے کر رفو چکر ہو جاتا ہے۔ کبھی کوئی لیفٹ سے تعلق رکھنے والا پبلشر حیلوں بہانوں سے رائلٹی دبا لیتا ہے اور قانونی چارہ جوئی کر کے چھوٹی چھوٹی رقوم نکل آئیں تو وہ بھی قسمت ہے۔ کوئی قانون رائٹر کے حق میں نہیں ہے۔
میں اُنھیں بتاتا ہوں کہ سپیس متواتر کم ہو رہی ہے۔ اُنھیں یاد آتا ہے کہ ضیا الحق کے دور میں پھر بھی کتاب کی زیادہ پذیرائی تھی، کتابوں پر پابندیاں لگتی تھیں، اِنھیں اہمیت دی جاتی تھی۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ سامنے کوئی عفریت نظر تو آتا تھا جس کے خلاف لڑنا تھا۔ اب تو کتاب بھی آرائشی چیز ہوتی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو کچھ تعجب ہے کہ میں متواتر کیسے کتاب سے وابستہ ہوں؟ میں نے بتایا کہ اِس کی تین وجوہ ہیں: اول، میری بیوی بھی سولہ سال سے نوکری کر رہی ہے؛ دوم، کوئی دس سال تک این جی اوز کے پراجیکٹس ملتے رہے؛ اور سوم میری ڈھٹائی۔
(قسط اول)

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: