اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زندگی کے جواب کہاں سے آتے ہیں؟۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا وحید الدین خان کی ایک کتاب کا عنوان ہے: ’’عظمتِ اسلام- اسلام کی فکری اور تاریخی عظمت کا بیان، اسلامی طریقِ زندگی کے امتیازی اوصاف۔‘‘
جب آپ کتاب کے نام میں ہی سب کچھ پہلے سے مان لیں تو پھر برٹرینڈ رسل اور دیگر کی کیا بات کرنی؟ کیا ہنومان کو ماننے والے اپنے عقیدے کو عظیم ترین نہیں سمجھتے؟ اور یہ اسلامی طریقِ زندگی کیا ہوتا ہے؟ کیا عراق، ایران اور سعودی عریبیہ کا طریقِ زندگی ایک سا ہے؟ اور یہ تاریخی عظمت کیا ہوتی ہے؟ یہ امتیازی اوصاف کس چیز کا نام ہے؟ کیا تہذیبوں کو پیچھے چھوڑ کر عقائد کی کبڈی کروائی جا سکتی ہے؟
یہ ہے اصل مسئلہ۔ تقابلِ ادیان اور اسلامی فلسفے کے نام پر فیصلہ پہلے ہی کر لیا جاتا ہے۔ فلسفہ تفتیش و تحقیق کر کے کسی نقطے پر پہنچتا ہے، جبکہ مذہب نقطے پر پہنچنے کے بعد خود تک ہی پہنچنے کے لیے تحقیق کو بدنام کرتا ہے۔ بھئی عقیدہ ہے تو اُس کو عقیدہ رکھیں، فلسفے کے برابر لا کر پائمال نہ کریں۔
مذہب فوری اور بنے بنائے حل دیتا ہے۔ وہ زندگی کو کسی میز کرسی کی طرح بیان کرتا ہے۔ وہ خیال کو حقیقت بنا کر پیش کرتا ہے۔ سب جائز ہے۔ شاعر بھی تو یہی کرتا ہے۔ لیکن دنیا کو فلسفیوں نے بیان کیا اور آگے بھی بڑھایا جو کہ ایک طویل عمل ہے۔
ہمیں جلدی ہوتی ہے کہ بس ساری دنیا کے سارے عقلی، اخلاقی اور وجودی مسائل ہماری تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کے اندر اندر ہی حل یا واضح ہو جائیں۔ سائنس اور فلسفہ کہیں گے کہ کہکشاں، کہکشائیں، نیبولا، اور بے شمار کائناتیں ہیں۔ وہ فرضی خالق کا دائرۂ کار وسیع کرتے ہیں، جبکہ مذہب پسند مذہب کا دائرۂ کار گھٹاتے گھٹاتے اپنے خلوت کے لمحات تک بھی لے آتے ہیں۔
ہمیں جلدی ہے، ہمیں ہر چیز کا فوری اور قطعی اور دوٹوک جواب چاہیے۔ چنانچہ مولانا وحید الدین ہو یا علی شریعتی، غامدی ہو یا اسرار احمد، سب آپ کو فوری تعویذ دیتے ہیں، آپ کو گنگ کرتے ہیں، بولنے کے قابل نہیں چھوڑتے۔ وہ مطلق کے ذریعے مطلق کا دفاع کر کے مطلق تک پہنچاتے ہیں، حالانکہ آپ پہلے ہی وہاں ہوتے ہیں۔
یہ حضرات آپ کو ایک کھائی سے نکال بھی لیں تو آپ فوراً کود کر دوسری اُسی طرح کی کھائی میں جا گرنے کو مچلتے رہتے ہیں۔ جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ تحقیق کا آغاز شک سے ہوتا ہے اور یہ صرف ایک عبوری سچ تک ہی پہنچاتی ہے۔
ایک موقعے پر سکندر نے کسی سادھو سے پوچھا: ”دن بڑا ہے یا رات (یعنی پہلے دن نکلتا ہے یا رات؟)“ سادھو نے کہا: ”رات سے دن ایک دن بڑا ہے۔“ سکندر کو کچھ حیرت ہوتے دیکھ کر اس نے کہا: ”رمزیہ سوالوں کے جواب بھی رمزیہ ہونے چاہئیں۔“
میں کہوں گا کہ زندگی کے جواب زندگی سے آتے ہیں، آسمان صرف اُن جوابوں کو منعکس کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: