مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبشر علی زیدی حج بیت اللہ اور زیارات مقدسہ کرنے کے باوجود اول فول بکتا رہتا ہے اور اسی لیے بہت سے لوگ اس کے دشمن ہیں۔ لیکن یہ تو عام سا دیوانہ ہے، اس سے پہلے بڑے بڑے لوگوں میں اس قسم کے تضاد نظر آتے ہیں۔ مثلا ملک فارس میں قرآن کے ایک حافظ کا نام محمد شمس الدین تھا۔ اس کا جب انتقال ہوا تو مومنین و مومنات نے کہا کہ یہ تو ملحد تھا۔ اس کا نماز جنازہ ہوگا، نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ کسی نیک دل شخص نے کہا، اس کا کیا ثبوت ہے؟ ایک کٹر مسلمان نے جھٹ کہا، یہ الٹے سیدھے شعر کہتا تھا۔ بے شک اس کا دیوان کھول کر دیکھ لو۔ چنانچہ اس کا دیوان منگوایا گیا اور یونہی کہیں سے کھول لیا گیا۔ سامنے یہ شعر آیا،
قدم دریغ مدار از جنازہ حافظ
کہ گرچہ غرق گناہ است می رود بہ بہشت
یعنی حافظ کے جنازے سے گریزمت کرو کیونکہ اگرچہ وہ گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے لیکن جنت میں گیا ہے۔
یہ شعر پڑھ کر مخالفین کے منہ لٹک گئے اور پھر "دھوم دھام” سے جنازہ بھی ہوا اور مسلمانوں کے قبرستان میں تدفین بھی۔ آپ جان گئے ہوں گے کہ وہ شخص ایران کے شاعر حافظ شیرازی تھے۔
ایرانی بڑے نخرے والے ہوتے ہیں اور اپنی زبان و ادب کے معاملے میں بے حد حساس۔ وہ اپنی ہزاروں سال کی تہذیب پر فخر کرتے ہیں۔ ان کے ہاں بڑے شاعروں کی ایک قطار ہے جس میں رومی، فردوسی، سعدی، عطار، سنائی، نظامی، عمر خیام اور بے شمار نام ہیں۔ اس کے باوجود اگر ایرانی حافظ کو فارسی کا عظیم ترین شاعر کہتے ہیں تو پھر بے تحقیق مان لینا چاہیے کہ درست کہتے ہیں۔
حافظ کی شاعری کا ایک انوکھا پہلو یہ ہے کہ ان کے دیوان سے فال نکالی جاتی ہے۔ پہلی بار کا واقعہ آپ نے اوپر پڑھا۔ اب یہ باقاعدہ روایت بن چکی ہے۔ ہندوستان میں بھی یہ روایت عرصے تک تھی۔ حد یہ کہ مغل بادشاہ دیوان حافظ سے فال نکال کر جنگی مہموں کا ارادہ کرتے تھے۔آپ شیراز جائیں گے تو حافظ کے مزار پر فال نکالنے والے ملیں گے۔ یہ سلسلہ اور مقامات پر بھی ہے۔
بڑے شاعروں سے بہت سے قصے منسوب ہوجاتے ہیں اور کچھ سچ بھی ہوتے ہیں۔ حافظ کا ایک قصہ یہ مشہور ہے کہ امیر تیمور نے شیراز فتح کیا تو انھیں بلایا۔ وہ حاضر ہوئے تو کہا، یہ شعر تم نے کہا ہے،
اگر آن ترک شیرازی بدست آرد دل ما را
بخال ھندویش بخشم سمرقند و بخارا را
یعنی اگر وہ ترک شیرازی میرے دل کو قبول کرلے تو میں اس کے رخسار کے تل پر سمرقند اور بخارا بخش دوں۔
حافظ نے اقرار کیا تو امیر تیمور نے غصے سے کہا، میں سمرقند اور بخارا کی خاطر دنیا فتح کررہا ہوں اور تم ایک تل کے بدلے انھیں بخش دینے کی بات کرتے ہو۔ حافظ نے کہا، بادشاہ سلامت، انھیں بخششوں کی وجہ سے تو اس حال کو پہنچا ہوں۔
امیر تیمور اس جواب سے خوش ہوا اور جیسا کہ قصے کہانیوں کے انجام میں ہوتا ہے، حافظ کو انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔
یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ حافظ ہندوستان آتے آتے رہ گئے۔ انھیں دکن کے مسلمان حاکم نے مدعو کیا تھا اور سفر خرچ بھی بھیجا تھا۔ حافظ ہندوستان کے ارادے سے نکلے بھی لیکن راستے میں ڈاکووں نے لوٹ لیا اور انھیں واپس لوٹنا پڑا۔ اگر وہ سانحہ نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ امیر خسرو کی طرح حافظ بھی اردو کا کچھ کلام چھوڑ جاتے۔
حافظ کا انتقال 1390 عیسوی میں ہوا اور تب تک چھاپہ خانہ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ ان کے دیوان کا 1517 کا ایک مخطوطہ لائبریری آف کانگریس میں موجود ہے۔ میں نے وہ مخطوطہ، دیوان حافظ کا اردو ترجمہ، شبلی نعمانی کی لکھی ہوئی حافظ کی سوانح اور دیوان حافظ کی اردو شرحوں پر ایک مقالہ گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں جمع کردیا ہے۔ اس کا لنک کتب خانے والے گروپ سے لیا جاسکتا ہے۔ اب آپ کی مرضی کہ شاعری کا لطف اٹھائیں یا اس سے فال نکالیں۔
All reactions:
1.4K
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ